قیدی جرنیل کی قید میں گیارہ دن…(2)

پھر آہستہ آہستہ فوج وزیراعظم ہائوس کے اندر داخل ہونا شروع ہوگئی۔ سب سے پہلے جنرل ضیاء الدین کو لے جایا گیا ، پھر رات پونے نو بجے کے قریب جنرل محمودکی قیادت میں بیس سے تیس کمانڈو وزیراعظم کے رہائشی بلاک کی طرف چلے گئے ۔ اس وقت وزیراعظم متحدہ عرب امارات کے شیخ سے ٹیلیفون پر بات کررہے تھے ۔ انہوں نے سکون سے گفتگو جاری رکھی؛ حالانکہ کمانڈوز نے ان پر بندوقیں تان رکھی تھیں۔ جنرل محمود نے وزیراعظم سے مخاطب ہوکر کہا ’’Sir I would request you not to talk on telephone ‘‘ ۔وزیراعظم نے انتہائی تحمل سے جواب دیا ’’Better you not‘‘۔ نواز شریف نے عرب شیخ سے بات ختم کی تو جنرل محمود نے بات شروع کی۔ اس پر میاں صاحب نے کہا: ’’میں ان بندوق تانے ہوئے کمانڈوز کی موجودگی میں بات نہیں کروں گا‘‘۔ جنرل محمود کے اشارے پر کمانڈوز ہٹ گئے، جرنیل نے کوشش کی کہ نواز شریف ان کے دیے ہوئے کاغذ پر دستخط کردیں ۔ نواز شریف کے انکار پر کھیل تھوڑی ہی دیر میں ختم ہوگیا اور جنرل محمود وزیراعظم کو لے کر روانہ ہوگئے۔ پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی کو بھی انہی کے ساتھ لے جایا گیا۔ رات دس بجے کے بعد وزیر اعظم ہائوس پر موت جیسی خاموشی اور اداسی چھا گئی ۔ بغیر دعوت کے آنے والے ’’مہمانوں‘‘ نے سب سے پہلے کمپٹرولر کو طلب کیا اور پوچھا‘ کھانے کا کیا نظام ہے؟ اس نے بتایا کھانا تیار ہے ۔ پوچھا کس طرح تیار ہوتا ہے؟ جواب دیا‘ وزیراعظم اپنے کھانے کا بل اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں‘ انہوں نے آج ہی بیس ہزار روپے ادا کیے ہیں۔ یہ رقم میرے پاس ہے اور سرکاری خزانے سے مہمانوں اور سٹاف کے لئے جو کھانا پکتا ہے اس کے لئے 90 ہزار روپے بھی میری جیب میں ہیں ۔ کھانے کا حکم دیا گیا۔ سب نے کھانا کھایا۔ ہم نے بھی زہر مار کیا اور بڑے ڈرائنگ روم کا رخ کیا ‘اس انتظار میں کہ ابھی جانے کا حکم ملے گا مگر انتظار طویل سے طویل تر ہوتا گیا۔ آنے والے دنوں میں جب بھی اپنے بارے میں پوچھا تو جواب ملا: آپ کا ’’ ڈسپوزل‘‘ اوپر سے آئے گا۔ ڈسپوزل کے لفظ میں ہماری اوقات اور وزیراعظم ہائوس پر قبضہ کرنے والوں کی سوچ کے معنی پنہاں تھے۔ وزیراعظم ہائوس پر قبضہ کرنے والی فورس کے سربراہ بریگیڈیئر ساجد حمید تھے ، مگر وہ بھی سسٹم کی وجہ سے کچھ نہ کرسکے اور نہ بتا سکے کہ کیا ہونے والا ہے ۔ 12اور 13اکتوبر کی درمیانی رات کرب اور بے چینی میں گزری۔ پرنسپل سٹاف کے اور بھی اہلکار تھے جنہیں وزیراعظم ہائوس سے جانے کی اجازت نہیں ملی ۔ رات صوفے پر سونے کا غالباً پہلا تجربہ تھا اور وہ بھی بے یقینی کے عالم میں۔ رات کے پچھلے پہر ناجانے کس وقت آنکھ لگی تو کانوں میں سورۃ رحمن کے خوبصورت الفاظ’’ تم اپنے رب کی کون کون سے نعمتوں کو جھٹلائو گے ‘‘ کی آواز آئی ۔ پہلے لگا‘ خواب ہے مگر جلد معلوم ہوا کہ باہر برآمدے میں حسین نواز کی خوبصورت قرأت کی آواز آرہی تھی جو بڑے دلنشین انداز میں صبح کی نماز کی امامت کروا رہے تھے۔ میں چھلانگ مار کر اٹھا ، بجلی کی تیزی سے وضو کیا اور دوسری رکعت میں شامل ہوگیا ۔ یہ قرآن کا معجزہ‘ سورۃ رحمن کی تاثیر اورحسین نواز کی دل میں اتر جانے والی قرأت کا انداز تھا کہ خوف اور وسوسے کے سارے بادل چھٹ گئے اور جسم و روح کو ایک نئی طاقت اور قوت ملی۔ پرویز مشرف کے حکم سے وزیراعظم ہائوس میں قید رہنے کے گیارہ دن تلخ لیکن عجیب تجربہ تھا۔ وزیراعظم کے بارے میں دل بے چین تھا۔ تیسرے دن کمپٹرولر نے آکر سرگوشی کی: میاں صاحب کے لئے کھانا منگوایا گیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوا کہ وزیراعظم قریب ہی اسلام آباد یا راولپنڈی میں قید ہیں ۔ وزیراعظم کے لیے کھانا روانہ ہوگیا مگر اس کے بارے میں دلچسپ انکشاف ایک فوجی افسر نے کافی عرصہ بعد کیا جو وزیراعظم کی قید کے دوران ڈیوٹی پر تھا ۔ اس نے کہا کہ دو دن تو میاں صاحب نے کھانا نہیں کھایا ، تیسرے دن انہوں نے اپنا کھانا وزیراعظم ہائوس سے منگوانے کا کہا تو ڈیوٹی پر موجود افسر خوش ہوئے۔ بقول ان کے‘ ہمارا خیال تھا آج روسٹ ، سری پائے اور ہریسہ کھانے کو ملے گا‘ مگر کھانا آنے پر ہماری مایوسی کی انتہا نہ رہی جب ابلے ہوئے چاول ، شوربے والی مرغی اور مسور کی ثابت دال پہنچی ۔ انہیں یقین نہ آیا کہ نواز شریف یہ کھانا کھاتے ہیں۔ میڈیا تو کچھ اور بتاتا رہا تھا۔ نواز شریف‘ ان کے ساتھیوں اور ان کے ساتھ کام کرنے والوں نے بڑی مشکلات کا سامنا کیا ۔ اگرنواز شریف‘ جنرل محمود کے دیے ہوئے کاغذ پر دستخط کردیتے یا جرنیلوں کا کہا مان لیتے تو آزاد ہوجاتے۔ انہیں بے پناہ مشکلات، اٹک قلعہ کی قید اور پاکستانی تاریخ کی پہلی جلاوطنی نہ جھیلنا پڑتی ، مگر انہوں نے اصول پرڈٹ جانے کا فیصلہ کیا جس کی بدولت انہیں مقبولیت اور عزت ملی۔ قومیں اصولوں سے بنتی ہیں۔ بابائے قوم قائداعظمؒ نے اصولوں کی سیاست کی، نواز شریف بھی انہی کے نقش قدم پر چلے۔ کارگل میں جرنیل نے جو کیا وہ ایک خطرناک کھیل اور انتہائی کوتاہ اندیشی تھی۔ جنرل مشرف نے کارگل پر قبضہ کے بعد فوج کے سامنے سینہ پھُلاکر کہا : ہم نے دشمن کی شہ رگ پر قبضہ کرلیا ہے اور سپلائی لائن کاٹ دی ہے ۔ مگر چند ہی دنوں بعد صورتحال کچھ اور ہی نظر آنے لگی۔ بھارتی وزیراعظم واجپائی جو لاہور آکر مینار پاکستان پر اور گورنر ہائوس میں پاکستان کو تسلیم کرکے گئے تھے‘ دکھی انداز میں نواز شریف کو ٹیلی فون کیا: ’’میاں صاحب آپ نے ہمارے ساتھ کیا کیا‘‘۔ نواز شریف نے جو اس وقت تک سارے معاملے سے ناواقف تھے کہا: ’’میں پوچھ کر بتاتا ہوں‘‘۔ واجپائی نے جواب دیا: ’’آپ میں اور ہم میں یہی فرق ہے۔ ہماری فوج ہم سے پوچھ کر کام کرتی ہے اور آپ اپنی فوج سے پوچھ کرکام کرتے ہیں‘‘۔ جنرل مشرف نے سینکڑوں پاکستانیوں کو سی آئی اے کے حوالے بلکہ بیچنے کے اعتراف کے علاوہ 2010ء میں جرمن جریدے سپیگل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: ’’پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے خلاف عسکری گروپ بنا رکھے ہیں تاکہ بھارت کو مذاکرات کی میز پر لایا جاسکے ۔ ‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے آزادی کی تحریک کو دہشت گردی قرار دینے میں بھارت کی مدد کی۔ ایوب خان نے 1965ء کی جنگ میں اسی ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنگ چھیڑی اور بھارت کا صدیوں کا خوف اتار دیا ۔ جنرل یحییٰ نے الیکشن کے بعد پاور ٹرانسفر نہ کرکے بھارت کو اپنے ملک کا ایک حصہ الگ کرنے کا موقع دے دیا۔ جنرل ضیاء الحق نے سیا چن کھویا ، کلاشنکوف کلچر دیا ، مولویوں کو بے لگام کیا اور جنرل مشرف نے کارگل کے ایڈونچر کے بعد ڈھٹائی سے ملک پر قبضہ کرلیا اور پھر ملک کو امریکہ کی جنگ میں جھونک دیا۔ ہم جنرل مشرف کی مسلط کی ہوئی جنگ، ضیاء الحق کے دیئے ہوئے کلاشنکوف کلچر اور یحییٰ خان اور ایوب خان کی دی ہوئی تباہ کن پالیسیوں کے نتائج بھگت رہے ہیں۔ دوسری طرف آصف علی زرداری کی ’’جمہوری حکومت‘‘ نے بے عملی کی وہ داستانیں رقم کیں جن کی مثال نہیںملتی۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان کوجب دبایا جاتا ہے، تو وہ انگڑائی لے کر اٹھتا ہے ۔ ہماری نئی نسل یقینا جاگ رہی ہے ، ہم انشاء اللہ پھر اٹھیں گے اور زندہ قوم کی طرح اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کریں گے ۔ اب اس ملک میںانشاء اللہ 12 اکتوبر 1999ء جیسے دن نہیں آئیں گے اور نہ ہی کوئی نااہل جمہوری حکومت۔ (ختم)

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں