کبھی کبھار آپ کوئی ایسی تحریریں پڑھ لیتے ہیں کہ پرانی یادیں حملہ آور ہوتی ہیں۔ آج غیر متوقع طور پر بادلوں کی گھن گرج سے آنکھ کھل گئی۔ بارشیں اسلام آباد میں ہوتی رہتی ہیں لیکن بادل کبھی کبھار گرجتے ہیں۔ بادلوں کی گرج میں عجیب سی کشش محسوس ہوتی ہے۔ لوگ گرج سے کانپ جاتے ہیں لیکن میرا بادلوں کی ڈرائونی آوازوں کے ساتھ عجیب رومانس ہے۔ بادلوں اور بارش سے گائوں کی دوپہریں یاد آتی ہیں جب مون سون میں بادل گرجتے اور بارش برستی‘ پیاسے کھیتوں کی پیاس بجھتی‘ ہم بچے ننگ دھڑنگ باہر بارش میں نہاتے‘ گائوں کی گلیاں پانی سے بھر جاتیں۔ شام کو پورے گائوں کے اوپر کالے بادلوں میں چھپے آسمان تلے تندوروں سے سفید دھواں اٹھتا جو دور تک لکیریں بناتا جاتا۔ گائوں کے کونے پر ڈھلوان پر بارش کا پانی تالاب کی شکل اختیار کر لیتا جہاں سے اچانک مینڈکوں کے ٹرٹرانے کی آوازیں عجیب سا سماں پیدا کر دیتیں۔ ہر شے دھل جاتی اور خوبصورت لگتی۔ دور تنہا درخت بھلے لگتے۔ پرندے اپنے گیلے پروں سے بارش کے قطرے اتارنے کی غرض سے پروں کو پھڑپھڑاتے تو ان کی آواز کانوں کو بھلی لگتی۔ ریتلے ٹیلوں پر بارش کے بعد گیلی مٹی کے ذرے پائوں کو مساج کرتے محسوس ہوتے۔ ہم بچے ٹیلے کی اونچائی کو جھولوں کی طرح استعمال کرتے ہوئے نیچے لڑھکتے جاتے اور پورا جسم مٹی سے لت پت ہو جاتا۔ رات کو جب گھر لوٹتے اور مٹی بدن پر خارش پیدا کرتی تو تنگ ہو کر پھر نلکے پر نہانا پڑتا۔ اماں الگ ڈانٹتیں۔ یار دوستوں کا ایک غول ہوتا اور ہم ہوتے۔ اندھیرا پھیلتے ہی گھروں کا رخ کرتے جہاں تندور میں لکڑیاں جل رہی ہوتیں۔ اماں نے بارش کی وجہ سے ہانڈی نہیں پکائی ہوتی تھی۔ اس دن کا سالن بینگن کا بھُرتہ ہوتا۔ اماں بینگن تندور میں انگاروں پر رکھ کر بھون لیتیں، گرم گرم نکال کر انہیں چھیلتی جاتیں‘ بہن مرچیں اور پیاز کاٹ لیتی اور انہیں خوب مکس کرنے کے بعد گھی اور اوپر لیمن نچوڑ کر گرم اترتی روٹی کے ساتھ ہمیں دیا جاتا۔ دنیا بھر میں بہت سالن کھائے لیکن تندور کے پاس اماں کے ہاتھ کا بنا ہوا بینگن کا بھرتہ نہ بھولا۔
بارش میں کھیلتے کھیلتے پورے گائوں کا چکر لگا آتے‘ لیکن اس وقت گائوں تھا ہی کتنا‘ ادھر نکلے اور ادھر ختم۔ اب جائیں تو پورا دن گزر جائے لیکن پھر بھی گائوں ختم نہ ہو۔ اس برستی بارش کے موسم میں شاہد صدیقی صاحب کا شکیل عادل زادہ اور سب رنگ پر کالم پڑھا اور تادیر گائوں کی یادوں میں کھویا رہا۔ سب رنگ سے بہت پرانا تعلق ہے۔ ان پرانی یادوں کو جہلم کے دو بھائیوں شاہد گگن، امر گگن اور ان کے والد شاہد حمید صاحب نے جگایا ہے کہ سب رنگ پھر دمک اٹھے ہیں۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو اپنی زندگی میں ہی لیجنڈ بن جاتے ہیں‘ شکیل عادل زادہ ان میں سے ایک ہیں۔
سب رنگ کے پرانے عاشق لاہور انار کلی میں ہر اتوار کو گھنٹوں پرانے شمارے تلاش کرتے اور منہ مانگی قیمت ادا کرتے ہیں۔ اللہ بھلا کرے منڈی بہاء الدین کے حسن رضا گوندل کا جنہوں نے برطانیہ میں بیٹھ کر بھی سب رنگ کے سب شماروں کو ڈیجیٹل شکل دے کر امر کر دیا۔ اس پر بھی بس نہیں کی بلکہ جہلم کے پبلشرز بھائیوں شاہد گگن، امر شاہد اور شاہد حمید صاحب کے ساتھ مل کر منصوبہ بنایا کہ سب رنگ میں چھپنے والی سب کہانیوں کو مختلف جلدوں میں شائع کیا جائے۔ اب مشکل مرحلہ تھا کہ شکیل عادل زادہ کو کیسے راضی کریں کہ وہ لاہور، کراچی اور اسلام آباد کے پبلشرز کو چھوڑ کر سنٹرل پنجاب کے ایک دوردراز شہر جہلم کے دو بھائیوں پر بھروسا کریں؟ جو شکیل عادل زادہ کو جانتے ہیں انہیں بخوبی علم ہے کہ وہ ہر بات پر کمپرومائز کر لیں لیکن معیار پر نہیں کرتے۔ میں نے شاہد گگن کو کہا کہ شکیل بھائی سے کہیں کہ سب رنگ اب شاید نہ نکلے لیکن کم از کم وہ کتابی شکل میں نیا ناول تو لکھ سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں ناول کتابی شکل میں چھپتے ہیں۔ شکیل عادل زادہ نہ صرف راضی ہو گئے بلکہ پہلی جلد سب رنگ کہانیاں کے نام سے چھاپی ہے۔ یقینا پاکستان میں دیگر ادارے بھی اچھی کتابیں چھاپ رہے ہیں لیکن جو معیار ان کہانیوں اور بک کارنر کا ہے وہ شاید آج کل مشکل سے کہیں ملے۔ گگن شاہد بتانے لگے کہ جب سب رنگ کہانیوں کی پہلی کاپیاں شکیل عادل زادہ صاحب کو بھیجیں تو انہیں یہی ڈر لگا رہا کہ کوئی غلطی نہ نکل آئے کیونکہ ان کا معیار بہت اونچا ہے۔ اگلے دن شکیل عادل زادہ کا گگن شاہد کوفون آیا اور کہنے لگے:میاں پوری رات کوشش کرتا رہا کوئی غلطی نکالوں لیکن نہیں نکلی لہٰذا مبارک باد کیلئے فون کررہا ہوں۔ بلکہ شکیل عادل زادہ کہنے لگے: گگن میاں باقی تو چھوڑیں میری بیوہ (وہ بیگم صاحبہ کو بیوہ کہتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ شکیل عادل زادہ نے شادی تو سب رنگ سے کی تھی) کو بھی یہ کتاب پسند آئی ہے۔
شکیل عادل زادہ صاحب سے میری فون پر بات ہوئی تو کہنے لگے :رئوف میاں اس کتاب میں جو آخری سٹوری ''وجود‘‘ ہے وہ ضرور پڑھنا۔ وجود پڑھنا ایک ایسا تجربہ ہے جو آپ کوگرفت میں لے لیتا ہے اور اس کہانی کے اثر میں رہتے ہیں ۔ اگرچہ کتاب ہر لحاظ سے مکمل ہے لیکن میرا خیال ہے ہر کہانی کے ساتھ عظیم آرٹسٹ اقبال مہدی اور انعام راجہ کے شاہکارسکیچز اور ذاکر کے سرورق کے بغیر سب رنگ ادھورا رہے گا ۔ امید ہے شکیل عادل زادہ اور گگن شاہد سب رنگ کی کہانیوں کی اگلی جلدوں میں ہر کہانی کے ساتھ وہ شاندار سکیچز ضرور پیسٹ کریں گے جو ہماری یادداشتوں کا حصہ ہیں‘ ورنہ ہمارے جیسوں کا سب رنگ کی ان کہانیوں سے جڑا عشق ادھورا رہے گا ۔
شاہد صدیقی صاحب کو کال کی ۔ کچھ عرصے سے رابطہ نہ تھا۔ ان کا سب رنگ اور شکیل عادل زادہ پر کالم پڑھا تو رہا نہ گیا۔ مجھے علم تھا کہ ناراضی کا اظہار ہوگا‘ لیکن تین چار لوگوں کی بڑی خوبی ہے کہ وہ مجھ سے ناراض بھی ہوں تو بھی میری محبت میں ناراضی ختم ہوجائے گی۔ ڈاکٹر ظفر الطاف سے ایسا تعلق تھا تو پھر میجر عامر سے تعلق بنا۔ وہ بھی ناراض نہیں رہتے‘ بلکہ اپنے والد صاحب کا قول سناتے تھے کہ جو دوستی تیس سال میں بنی ہے اسے ختم بھی تیس سال میں ہونا چاہیے۔ ملتان کے دوست شکیل انجم، جمشید رضوانی،خالد مسعود بھی اسی کیٹیگری میں ہیں جو میرے جیسے نالائق دوستوں سے ناراض ہونا چھوڑ چکے ہیں ۔
وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ شاہد صدیقی صاحب نے خاصی کلاس لی۔ میں نے کہا: جو کچھ کہتے رہیں لیکن شہر میں تین چار لوگ ہی ہیں جن کے بارے مجھے لگتا ہے کہ وہ غیرمشروط عزت اور پیار کرتے ہیں‘ ایک ڈاکٹر ظفر الطاف تھے،ارشد شریف، میجر عامر، شکیل انجم، طاہر ملک اور اب آپ ہیں ۔ ڈاکٹر ظفر الطاف جب سے ہماری محفلیں اجاڑ کر چل دیے تو بڑا عرصہ میں گھر سے باہر ہی نہیں نکلا۔ سارا دن دوپہر کو گھر میں رہتا یا میجر عامر کے پاس چلا جاتا کیونکہ وہ بھی ایسے انسان ہیں جن کی محفل میں آپ کبھی بورنہیں ہوسکتے۔ایک شاندار پختون مہمان نواز اور کمال کا تجزیہ نگار۔ آج کل انہیں راضی کررہا ہوں کہ آپ بیتی لکھی جائے۔ راضی تو وہ ہوچکے ہیں لیکن کیا کریں ان کے ہند سندھ میں اتنے عاشق ہیں کہ وقت ہی نہیں بچتا۔ نگار جوہر جو پاکستان کی پہلی خاتون لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر پروموٹ ہوئی ہیں وہ میجر عامر کی سگی بھانجی ہیں۔ میجر عامر کے خاندان کیلئے یقینا یہ بہت بڑا اعزاز ہے۔
شاہد صدیقی صاحب نے خوب غصہ نکالنے کے بعد مجھ نالائق کو پروین شاکر کا یہ شعر سنا کر معاف کر دیا ۔
مدتوں بعد آج اس نے مجھ سے کوئی گلہ کیا
منصب دلبری پہ کیا مجھ کو بحال کر دیا