صحافت صرف پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں مشکل کام سمجھا جاتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو جتنا انسان خود قدیم ہے اتنا ہی صحافت کا پیشہ بھی قدیم ہے۔ جس جس دور میں بڑے بڑے بادشاہوں اور حکمرانوں کے خلاف کسی نے آواز اٹھائی‘ ظلم اور ناانصافی کے خلاف بغاوت کی‘ اسے آپ صحافت یا صحافی کی ابتدائی شکل قرار دے سکتے ہیں ۔ہوسکتا ہے آپ کو مذاق لگے لیکن قدیم یونان میں اگر کسی کو صحافی کہا جاسکتا ہے تو وہ سقراط تھا ۔ اسے آپ فلاسفر یا دانشور ضرور کہیں لیکن وہ اپنے انداز میں معاشرے میں نوجوانوں میں شعور پھیلا رہا تھا‘ وہ صحافت کی ہی ایک شکل تھی ۔ سقراط کو جب عدالت میں پیش کیا گیا اور ججوں نے پوچھا کہ کیا الزام ہے تو لوگوں نے کہاکہ یہ اپنی گفتگو سے ان کے بچوں کوبغاوت پر مجبور کررہا ہے۔ سقراط دراصل سٹیٹس کو کے خلاف لڑ رہا تھا ۔طاقتور طبقات کے خلاف وہ نوجوانوں کو شعور دے رہا تھا اور یہ اس کا جرم بن گیا جس کی پاداش میں اسے دو آپشن دیے گئے‘ وہ ریاست کو چھوڑ کر چلا جائے یا اسے زہر کا پیالہ پینا پڑے گا۔ سقراط نے زہر کا پیالہ پی لیا۔ جس رات اسے زہر کا پیالہ پینا تھا تو جیلر اسے فرار کرنے پر تیار ہوگیا تھا۔ سب طالب علم رونے لگے تو سقراط نے کہا: کیوں روتے ہو؟ وہ بولے: آپ بے گناہ مارے جارہے ہیں۔ سقراط نے کہا : تو کیا تم چاہتے ہو کہ میں گناہ گار ہو کر مارا جاتا؟ ان کے شاگردوں نے کہا: پھر آپ جیلر کی مان لیں اور جیل سے فرار ہوجائیں‘ جواب دیا: کیا میں ستر سال کی عمر تک جو کچھ کہتا رہا آج اپنی جان بچانے کیلئے فرار ہو کر خود کو جھوٹا ثابت کر دوں؟
یہ طے ہے کہ سچ بولنے والوں نے ہمیشہ تکالیف اٹھائی ہیں ۔ سچ کبھی بھی کمزور کے خلاف نہیں بولا جاتا بلکہ طاقتور کے خلاف بولا جاتا ہے‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ بہترین جہاد جابر حکمران کے سامنے کلمۂ حق کہنا ہے۔ ہر دور میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں جو ظلم یا ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرتے آئے ہیں۔ خدا نے ہر طرح کے لوگ پیدا کیے ہیں‘ کچھ ایسے ہیں جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور اگر کچھ طبقات ان کے خلاف آواز اٹھائیں یا متحد ہونے کی کوشش کریں توانہیں دبا دیا جاتا ہے۔ فرانسیسی انقلاب اور روس میں بالشویک انقلاب اس کی اہم مثالیں ہیں ‘جب عام لوگوں نے فرانسیسی بادشاہوں یا روسیوں نے زار کے خلاف بغاوت کی ۔ایسی کئی مثالیں انسانی تاریخ سے دی جاسکتی ہیں جب طاقتور لوگ تلوار کے زور پر اکٹھے ہوجاتے اور وہ اکثریت پر اپنا کوڈ اور اپنے اصول لاگو کر کے ان پر ظلم کرتے تھے۔ قدیم یورپ میں تو ایک اور کام شروع ہوگیا تھا کہ وہاں بادشاہ اور پوپ نے اتحاد کر لیا اور مل کر سینکڑوں سال تک انسانوں پر حکومت کی ۔ یورپ میں تو باقاعدہ یہ قانون تھا کہ بادشاہ کبھی کوئی غلط کام کر ہی نہیں سکتا‘ لہٰذا اسے سزا دینے کا کوئی تصور ہی نہیں تھا ۔ عام انسانی حقوق کا تو تصور تک نہ تھا‘ بلکہ باغیوں کا نہ صرف سر قلم کیا جاتا تھا بلکہ قتل ہونے سے قبل انہیں بادشاہ کی شان میںقصیدہ بھی پڑھنا پڑتا کہ وہ کتنا رحم دل ہے ورنہ وہ چاہتا تو ان کے ٹکڑے کر دیے جاتے ۔ برطانیہ کے ظالم بادشاہ ہنری ہشتم جس نے چھ بیویاں قتل کرائی تھیں کی ہر بیوی کو قتل ہونے سے پہلے بادشاہ کی رحم دلی کی تعریف کرنی پڑتی تھی کہ آسان موت دی ۔ یہی کچھ ہم نے ہندوستان میں دیکھا جہاں بادشاہ اپنے باغیوں کو ہاتھی کے پائوں تلے کچل کر مروادیتے تھے۔ دلی پر ایک مسلمان بادشاہ نے ایک دفعہ قاضی کو شکایت کی کہ ایک عالم دین اس کے خلاف تقریریں کرتے ہیں کہ میں ظالم ہوں۔ قاضی نے عالم کو بلایا تو اس نے جواب دیا کہ یہ بادشاہ ظالم ہے‘ قصور ایک بندے کا ہوتا ہے یہ پورے خاندان کو سزا دیتا ہے‘ اگلے دن اس مولانا کی کھال میں بھوسہ بھر کر اسی عدالت کے باہر لٹکا دیا گیا۔ ہندوستان میں باغیوں کی آنکھوں میں سوئی پھیر کر اندھا کر دینا تو معمولی سزا سمجھی جاتی تھی۔ لوگ کہتے ہیں اورنگزیب نے اپنے بھائیوں داراشکوہ‘ مراد‘ شجاع اور خوبصورت بھتیجے مصطفی کو قتل اور باپ شاہ جہاں کو قید کر لیا تھا۔مگر لوگ بھول جاتے ہیں شاہ جہاں بھی اپنے بھائی کو قتل کر کے تخت کا وارث بنا تھا۔
ہندوستان کے علما اس دور میں سٹٰیٹس کو کے خلاف ایک طاقتور آواز سمجھے جاتے تھے۔ اگر آپ اس دور کے علما کا رول دیکھیں تو حیران ہوں گے کہ دلی سلطنت کے بادشاہوں یا حکومتوں کے خلاف وہ عام انسانوں کی آواز اٹھاتے تھے۔ لوگ بادشاہوں کے دربار سے زیادہ ان علمائے کرام کے درباروں میں پائے جاتے تھے ‘جس سے بادشاہ بہت ناراض ہوتے تھے۔ حضرت نظام الدین اولیا کو قتل کرانے کی کوششیں ہوئیں۔ وہ دربار میں نہیں جاتے تھے کیونکہ وہ سٹیس کو کے خلاف توانا آواز تھے۔ غیات الدین تغلق نے انہیں دھمکی دی تھی کہ وہ ان کے دلی واپس پہنچنے سے پہلے شہر چھوڑ جائیں ورنہ قتل کر دیے جائیں گے۔ جس پر نظام نے وہ تاریخی جملہ کہا تھا: ہنوز دلی دور است۔ مگروہ بادشاہ دلی سے باہر خود ہی مارا گیا تھا۔اس طرح ایک اور جملہ ملتان کے ایک برزگ سے بھی منسوب ہے۔ بادشاہ بلبن کا بیٹا شہزادہ محمد گورنرملتان تھا توکسی بات پر بزرگ سے ناراض ہوگیا اور درگاہ پر چڑھائی کا حکم دے دیا تھا۔ مرید بھاگے بھاگے ان کے پاس گئے کہ شہزادے نے فوج کا دستہ بھیج دیا ہے‘وہ آپ کو نہیں چھوڑے گا۔جواب دیا: شہزادہ مجھ تک زندہ نہیں پہنچے گا۔ وہی ہوا جب شہزادہ محمد اپنی فوج کا دستہ درگاہ کی طرف بھیج رہا تھا کہ اطلاع ملی تاتاریوں نے حملہ کر دیا ہے۔ شہزادہ محمد کو بلبن نے اس لیے گورنر ملتان لگا کر بھیجا تھا کہ وہ سرحدی علاقوں کی حفاظت کرے‘ تاکہ تاتاری ‘جنہوں نے پوری دنیا کو تباہ کر دیا تھا‘ وہ ہندوستان میں داخل نہ ہوسکیں۔ شہزادہ محمد کو ذاتی انتقام اور ہندوستان کی حفاظت کی ڈیوٹی میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ شہزادے نے باپ کے مشن کو پورا کرنا مناسب سمجھا کہ درگاہ کو بعد میں دیکھ لیں گے۔ شہزادہ محمد بہادری سے لڑا اور تاتاریوں کو شکست دی لیکن وہ خود بھی اس جنگ میں شہید ہوگیا‘جس پر امیرخسرو نے شہزادے کے غم میں شعر بھی کہے۔ آج بھی سرائیکی علاقوں میں شہزادہ محمد کی بہادری کے تاریخی حوالے‘ قصوں اور لوک کہانیوں میں ملتے ہیں۔ حضرت نظام الدین کی طرح ملتان کے بزرگ کا بھی وہ قول پورا ہوا اور شہزادہ محمد جنگ سے زندہ نہ لوٹا۔تاریخ میں باغی چاہے اقتدار کی جنگ میں شریک شہزادے ہوں یا پھر سٹیٹس کو کے خلاف عوام کے حقوق کیلئے کھڑے ہونے والے علمائے کرام یا دانشورہر دور میں بادشاہوں کے ظلم کا شکار ہوتے آئے ہیں۔
جدید دنیا میں جمہوریت نے کسی حد تک ان خطرات کو کم کیا ہے۔ بادشاہوں کا دور ختم کیا‘ عام انسانوں کی حکومت آئی اوراپنے حکمران خود چننے کا موقع ملا۔ انسانی حقوق‘ قوانین اور برابری کا تصور ابھرا‘ حاکموں سے سوالات ہونے شروع ہوئے۔ یورپین کتاب پڑھنے والے لوگ تھے‘ جلدی سبق سیکھ گئے اور وہاں قلم کاروں اور سٹیس کو کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو احترام دیا۔ امریکہ میں نوم چومسکی یہودی ہیں‘ امریکی ہیں لیکن وہ یہودیوں اور امریکہ کے خلاف لکھتے ہیں۔ ڈیوڈ فراسٹ برطانوی صحافی ہے‘ وہ یورپی حکومتوں کی مڈل ایسٹ پالیسوں پر سخت تنقید کرتا ہے لیکن انہیں کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا‘کیونکہ وہ قومیں سمجھ گئی ہیں کہ جس معاشرے میں اختلافی آوازیں گم ہوجائیں یا خاموش کر دی جائیں وہ قومیں جلد یا بدیر یکسانیت کے ہاتھوں خود بخودختم ہو جاتی ہیں۔
مگر کہتے ہیں کہ پرانی عادتیں اتنی جلدی کب جاتی ہیں۔ہمارے ہاں بھی اختلافی آوازوں کو دبانے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ اگر ہم نے تاریخ سے سبق نہ سیکھے تو انجام بھی وہی ہوگا ۔صرف اللہ کی ذات ابدی ہے‘ ورنہ خود کو خدا سمجھنے والے فرعون نہ رہے تو اور باقی کس نے رہنا ہے؟