کبھی انسان کے منہ سے ایسی بات نکل جاتی ہے کہ بندہ حیران ہوتا ہے۔ اگلے پل کا پتہ نہیں لیکن بندہ خود کو لا زوال اور ابدی مخلوق سمجھ لیتا ہے۔ جب بھارتی اداکار راجیش کھنہ کا دیہانت ہوا تو کھنہ کے دوست نے عجیب بات بتائی۔ جب راجیش کھنہ مقبولیت کے عروج پر تھے تو وہ سمجھتے تھے وہ بوڑھے ہوں گے نہ ہی مریں گے۔ وہ ہمیشہ جوان رہیں گے‘ لاکھوں دلوں کی دھڑکن بن کر۔ میجر عامر بتا رہے تھے کہ جب وہ فوج میں بھرتی ہوئے تو وہ کھنہ کے شیدائی تھے۔ وہ اپنے دور کا بڑا سٹار تھا۔ چند برس قبل کھنہ کی موت کی خبر سنی تھی تو بقول میجر عامر وہ کئی دن ڈپریشن میں رہے۔
یہ سب کچھ میرے ذہن میں اس وقت آیا جب اینکر ماریہ میمن کے شو میں وفاقی وزیر علی زیدی سے سامنا ہو گیا۔ وہ اپنا سیگمنٹ کر کے اٹھ رہے تھے۔ ارشاد بھٹی اور میں اگلے سیگمنٹ کیلئے داخل ہو رہے تھے‘ دعا سلام ہوئی۔ ہر دور میں وزیر مجھ سے نالاں رہتے ہیں اور میں بھی ان سے فاصلے پر رہتا ہوں۔ کوئی سلام کر لے تو جواب دے دیتا ہوں ورنہ ایک طرف۔ علی زیدی صاحب سے دعا سلام ہوئی۔ ماریہ اور بھٹی سے وہ بات کرنے لگے۔ کسی بات پر میری طرف قہقہہ لگا کر اشارہ کر کے کہا: کلاسرا صاحب اس سٹوری پر کام کر رہے ہیں کہ رمضان میں میرے گھر سرکاری خرچے پر ایک من پکوڑے منگوا کر کھائے گئے۔ میں جو چپ کر کے بیٹھا تھا‘ بولا: زیدی صاحب میں نے ابھی یہ سٹوری فائل نہیں کی‘ جب کروں گا آپ سے آپ کا موقف لوں گا‘ ویسے میرے پاس دستاویزات موجود ہیں‘ صرف ایک من پکوڑے نہیں‘ بلکہ ہزاروں سموسے‘ شربت کی بوتلیں‘ روزانہ پانچ کلو دودھ‘ روزانہ سٹاف کیلئے بریانی‘ گھر کے کک کے لیے کیش بھی۔ زیدی صاحب کہنے لگے: پہلے ہی آپ نے ٹوئٹر پر لکھ دیا ہے۔ میں نے کہا کہ میں نے آپ کا نام نہیں دیا کہ وہ پکوڑہ سموسہ وزیر آپ ہیں۔ اگر آپ خود مان رہے ہیں تو آپ کی مرضی ورنہ کراچی سے تو تین چار اور بھی وفاقی وزیر ہیں۔ میری بات کو نظر انداز کر کے کہنے لگے: کلاسرا صاحب چھوڑیں آپ کو ایک بات بتا دوں‘ آپ کا بھائی 2028ء میں بھی وفاقی وزیر ہو گا۔ یہ کہہ کر علی زیدی قہقہہ لگا کر نکل گئے۔ ارشاد بھٹی اور میں ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ اگلے پل کا انسان کو پتہ نہیں اور زیدی صاحب کو پتہ ہے کہ وہ آٹھ برس بعد بھی وزیر ہوں گے۔
مجھے نواز لیگ کے ایک سابق سینیٹر کی بات یاد آ گئی۔ انہیں کہا گیا کہ وہ نواز شریف کی خوشامد کیا کریں ورنہ پارٹی میں اہمیت نہیں بنے گی۔ سینیٹر صاحب نے دل پر پتھر رکھ کر ایک میٹنگ میں اپنے مزاج کے برعکس کھل کر خوشامد کرنے کا فیصلہ کیا۔ موقع پا کر بولے: میاں صاحب آپ اگلے دس سال تک وزیر اعظم رہیں گے‘ آپ کو کوئی نہیں ہلا سکتا۔ اگلے دو الیکشن آپ کے ہیں۔
ابھی بات ختم نہیں ہوئی تھی کہ نواز شریف کے سپیشل اسسٹنٹ اور سابق سفیر پھڑک کر اٹھے اور بولے: میاں کیا بات کرتے ہو‘ صرف دس سال؟ میاں صاحب تا حیات وزیر اعظم رہیں گے۔ نواز شریف کا چہرہ کھل اٹھا۔ انہوں نے اپنے اس سینیٹر کی طرف دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں دیکھ لو تسی صرف دس سال دے رہے سی۔ وہ سینیٹر بعد میں اپنے اس دوست سے ملے جس نے خوشامد کا مشورہ دیا تھا اور بولے: حضور اب اس صاحب کا کون مقابلہ کرے۔ اپنی اڑان تو دس سال تک تھی۔ یہ چند برس پہلے کی بات ہے۔ آج کل وہی میاں نواز شریف تاحیات نااہل ہو کر لندن میں بیٹھ کر عدالت سے چھٹیاں مانگ رہے ہیں کہ وہ واپس نہیں لوٹ سکتے کیونکہ بہت بیمار ہیں۔
میں حیرت سے علی زیدی کو دیکھتا رہا جو قہقہے لگا رہے تھے۔ دراصل 2028 تک وزیر رہنے کا جملہ مجھے سنانے کا مطلب تھا کہ آپ سکینڈل فائل کرتے رہو‘ پھر بھی میں اگلے آٹھ سال تک وزیر ہوں۔ دستاویزی ثبوتوں کے مطابق وفاقی وزیر علی زیدی اپنے کاروباری دوست عاطف رئیس کے اسلام آباد گھر میں عرصے سے رہائش پذیر تھے۔ انہیں منسٹر کالونی میں گھر ملا لیکن انہوں نے ہر ماہ نقد کرایہ حکومت سے لے کر دوست کے گھر رہنے کو ترجیح دی۔ کچھ دنوں بعد اس دوست کو وزیر اعظم عمران خان اپنے ساتھ دورے پر چین لے گئے۔ کچھ دن بعد وہی دوست اہم وزیروں کے ساتھ ہیلی کاپٹر پر سوار کراچی میں سائٹس دیکھ رہے تھے۔ علی زیدی امریکہ گئے تو بھی وہ دوست ساتھ تھا۔ پھر انکشاف ہوا کہ اسی دوست کو پشاور میٹرو میں چودہ ارب روپے کا کنٹریکٹ ملا ہے۔ ابھی اس کنٹریکٹ کی گرد بیٹھ ہی رہی تھی کہ پتہ چلا کہ موصوف کے خلاف ایف آئی اے نے کسی اور کنٹریکٹ میں فراڈ پر مقدمہ درج کر رکھا تھا۔ اس پر سوالات اٹھے۔ ایک ٹی وی چینل کو علی زیدی نے کنفرم کیا کہ عاطف رئیس اس کا بھائیوں سے بڑھ کر دوست ہے۔ علی زیدی نے کہا کہ اسے وزارت چھوڑنی پڑی تو چھوڑ دے گا لیکن موصوف سے دوستی نہیں چھوڑے گا؛ تاہم جب بات کھلی تو علی زیدی اس دوست کے گھر سے شفٹ ہو کر ایک اور دوست کے گھر شفٹ ہو گئے۔ منسٹر کالونی پھر بھی شفٹ نہیں ہوئے۔ خیر اب کہانی میں نیا موڑ آیا ہے‘ جس کا شاندار رپورٹر سہیل بھٹی نے انکشاف کیا ہے۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق وزیر اعظم ہاؤس سے کہا گیا ہے کہ علی زیدی کے اس دوست کے خلاف ایف آئی اے کے مقدمے کا حل نکالو۔ فوراً کمیٹی بنائی گئی جس کا سربراہ ڈاکٹر عشرت حسین کو بنایا گیا۔ کمیٹی میں ایف آئی اے کے ایک افسر‘ سیکرٹری آئی ٹی شعیب صدیقی‘ مشیر خاص ندیم بابر اور سی ڈی اے افسران کے علاوہ ایک اور صاحب بھی شامل تھے جن کا نام شباہت علی شاہ ہے۔ یہ شباہت علی شاہ علی زیدی کے قریبی دوست ہیں اور علی زیدی نے ہی وزیر اعظم عمران خان سے ان کی ملاقات کروائی جس کے بعد انہیں اس محکمے کا چیف ایگزیکٹو بنایا گیا‘ جو عاطف رئیس کے خلاف ایف آئی اے کے مقدمے میں مدعی تھا۔ ان سب نے مل کر حفیظ شیخ کو سفارش کی کہ یہ مقدمہ واپس لیا جائے۔ یوں حفیظ شیخ نے ای سی سی کے اجلاس میں اس این ار آو کی منظوری دے دی۔ عاطف رئیس کو خفیہ این ار آو دینے کی اس باریک واردات میں کئی وزیر اور مشیر شامل ہیں۔ یہ کام تو نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی دور میں بھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا کہ کسی پر ایف آئی اے میں کریمنل مقدمہ چل رہا ہو اور کابینہ کمیٹی بنا کر سیٹل کر دیا جائے اور ایف آئی اے اور سکینڈل کے مدعی فوراً راضی بھی ہو جائیں کہ مقدمہ واپس لے لیا جائے۔ اب آپ کو پتہ چلا کیسے یہ سیانے کاروباری لوگ سیاستدانوں کو پھانستے ہیں‘ چندہ دیتے ہیں‘ مہنگی گاڑیاں خرید کر دیتے ہیں‘ جہازوں کی سیر کرواتے ہیں‘ پارٹی فنڈ کے نام پر پیسہ دیتے ہیں‘ الیکشن میں خرچہ پانی دیتے ہیں ‘ پھر اربوں کے کنٹریکٹ ملتے ہیں اور ایف آئی اے میں مقدمہ چل رہا ہو تو اسے بھی ختم بھی کرا لیتے ہیں۔
ویسے داد تو بنتی ہے ایسے لوگوں کے لئے کہ کتنی دور کی سوچ رکھتے ہیں۔ بالزاک نے کہا تھا‘ ہر دولت کے پیچھے جرم چھپا ہے تو امریکیوں نے کہا تھا کہ آپ اتنے چالاک ہیں تو ارب پتی کیوں نہیں؟
ان تین دوستوں نے اسی فارمولے پر عمل کیا۔ عاطف رئیس جیسے ذہین لوگ ارب پتی ایسے نہیں بن گئے۔ محنتیں کرنا پڑتی ہیں۔ لمبے مال خرچ‘ جرائم اور چالاکیاں کرنا پڑتی ہیں پھرجا کر ٹھیکے ملتے ہیں اور پکڑے جائیں گے تو این آر او ملتا ہے!