کبھی کبھار محسوس ہوتا ہے کہ ہم کچھ زیادہ ہی توقعات لگا بیٹھے تھے کہ ہمارے سیاستدان اور جمہوری لوگ فوجی حکمرانوں سے بہتر نکلیں گے اور ہمیں ایک ایسی زندگی ملے گی جس کا ہم نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا ۔ بیوروکریسی کے بارے ہم نے سوچ رکھا تھا کہ یہ ریاست کی ملازم ہوگی‘ لہٰذا یہ لوگ حکمرانوں سے ہٹ کرعوام کے لیے کچھ کریں گے جو خون پسینے کی کمائی سے انہیں تنخواہیں اور سہولتیں فراہم کررہے ہیں۔
پاکستان میں وہ لوگ بھی ٹیکس دے رہے ہیں جن کے پاس چھت تک نہیں‘ کیونکہ وہ جو بھی چیز خریدتے ہیں اس پر انہیں جی ایس ٹی دینا پڑتا ہے۔ ننگ دھڑنگ عوام بھی ٹیکس دے رہے ہیں‘ جس سے ان حکمرانوں اور بابوز کو تنخواہیں اور مراعات ملتی ہیں۔ ان کے کچن‘ گاڑیوں‘ پٹرول‘سیر سپاٹوں اورسرکاری محلوں پر جو پیسہ لگ رہا ہے وہ یہی لوگ دے رہے ہیں جو خود مانگ کر گزارہ کرتے ہیں یا سارا دن مزدوری کرتے ہیں۔ ایک بچے کا کلپ دیکھا جو صبح آٹھ بجے ایک تندور پر آتا ہے اور رات بارہ بجے تک کام کرتا ہے تاکہ دو‘ تین سو روپے کما کر گھر چلائے۔ اُس بچے کا باپ مر چکا ہے‘ وہ بچہ بھی اپنی آمدن پر ٹیکس دے رہا ہے کیونکہ وہ جو آٹا‘ دال‘ گھی‘ چینی یا ماچس کی ڈبیا تک خریدتا ہے اس پر ٹیکس ہے۔ پچھلے سال وہ بچہ پچپن روپے فی کلو چینی خرید رہا تھا‘ اب سو روپے میں۔
چلیں پھر خبر سن لیں۔ پچھلے ہفتے کابینہ کے اجلاس میں رزاق دائود صاحب نے فخر سے وزیراعظم اور ان کے پچاس وزیروں‘ مشیروں کو یہ خبردی کہ انہوں نے چینی کی قیمت تین روپے فی کلو کم کروالی ہے۔ مطلب‘چینی اب ایک سو پانچ روپے کے بجائے ایک سو دو روپے میںمل رہی ہے۔ سب نے رزاق دائود کو داد دی ۔ کسی وزیر نے نہ پوچھا کہ سرکار یہ چینی سال پہلے پچپن روپے تھی۔ انہی رزاق دائود نے شوگر ایڈوائزری بورڈ کا اجلاس بلایا اور بتایا کہ بیس لاکھ ٹن چینی وافر ہے اور اگر دس لاکھ ٹن ایکسپورٹ کر دی جائے تو ہرج نہیں ۔ سمری بنا کر ای سی سی کو بھیجی گئی جہاں اسد عمر صاحب وزیر خزانہ تھے۔ رزاق دائود نے کیس پیش کیا‘ اسد عمر نے انکار کر دیا کہ وہ کوئی سبسڈی دیں گے نہ ہی ایکسپورٹ کی اجازت۔ اسد عمر نے ایک ماہ بعد پھر ای سی سی کا اجلاس بلایا ۔ اس دوران اسد عمر صا حب کا سافٹ ویئر غالباً اپ گریڈ ہوچکا تھا۔ رزاق دائو د پھر سمری لائے‘ اس بار اسد عمر نے وہ بھی دان کر دیا جو اِن سے مانگا تک نہیں گیا تھا۔ اسد عمر نے دس لاکھ ٹن کے بجائے گیارہ لاکھ ٹن چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دے دی۔ پچھلی حکومت کی طرف سے دو ارب روپے ان ملوں کو ملنا ابھی باقی تھے‘ وہ بھی ریلیز کرنے کا حکم دے دیا ۔ یہ بھی کہا گیا کہ اگر سندھ اور پنجاب شوگر ملوں کو سبسڈی دینا چاہتے ہیں تو دے سکتے ہیں۔ ساتھ یہ فیصلہ بھی ہوا کہ وزیروں کی ایک کمیٹی بنائی جائے جو ہر پندرہ دن بعد اجلاس بلا کر چینی کی ایکسپورٹ پر نظر رکھے گی اور یہ جائزہ لیتی رہے گی کہ کہیں چینی کی قیمت اوپر تو نہیں جارہی اور اگر قیمت بڑھی تو ایکسپورٹ روک دی جائے گی۔
ابھی یہ فیصلہ ای سی سی کے منٹس میں درج بھی نہیں ہوا تھا کہ پنجاب میں عثمان بزدار صاحب نے ایک اجلاس بلایا جس میں چینی پر سبسڈی دینے کے طریقہ کار پر غور کیا گیا۔ خیر پنجاب حکومت نے دس ملوں کو اڑھائی ارب روپے سے زائد سبسڈی دی جس میں جہانگیر ترین اور ان کے ماموں شمیم خان کی ملوں کو ایک ارب روپے سے زائد ملے جبکہ پنجاب کے وزیرخزانہ ہاشم جواں بخت نے اپنے بھائی شہریار کی مل کو پچاس کروڑ روپے ادا کیے۔ جونہی ایکسپورٹ شروع ہوئی چینی کی قیمتیں بڑھنا شروع ہوگئیں۔ ان چھ ماہ میں چینی کی قیمت 55 روپے سے 72 روپے ہوگئی لیکن ایک دفعہ بھی رزاق دائود کو یاد نہ آیا کہ انہوں نے کمیٹی بنوائی تھی جس نے ہر پندرہ روز بعد چینی کی ایکسپورٹ کا جائزہ لے کر قیمتوں کا جائزہ لینا تھا۔ اسد عمر کی یادداشت بھی غالباً جواب دے گئی کہ ایک کمیٹی بنائی تھی۔ یوں یہ کام بغیر کسی رکاوٹ کے چلتا رہا۔ ایک طرف مل اونرز عوام کی جیب سے اڑھائی‘ تین ارب روپے نقد لے اڑے اور دوسری طرف وہ چینی مہنگی کر کے بھی عوام کی جیب سے اربوں روپے نکال رہے تھے۔ وزیر اعظم کے مشیر شہزاد اکبر نے انکشاف کیا تھا کہ چینی کی قیمت ایک روپیہ فی کلوگرام بڑھنے سے پانچ ارب روپے عوام کی جیب سے نکل جاتے ہیں ۔ شاہد خاقان عباسی نے فرمایا تھا کہ اس سکینڈل میں 100 ارب روپے عوام کی جیب سے نکل گئے ‘ جو مل اونرز کی جیب میں گئے کیونکہ چینی کی قیمت کو 17 روپے فی کلو بڑھایا گیا ہے۔ اس دوران اسد عمر کی اپریل2019ء میں چھٹی ہوگئی اور حفیظ شیخ نے ان کی جگہ لے لی‘ لیکن یہ کام چلتا رہا ۔ سبسڈی بھی ملتی رہی اور چینی بھی مہنگی ہوتی رہی ۔ اور تو اور ان وزیروں کو بھی یاد نہ رہا کہ وہ کسی کمیٹی کے ممبر ہیں جس کا کام چینی کی ایکسپورٹ کا ہر پندرہ روز بعد جائزہ لینا ہے۔ آخر جب عوام اور میڈیا نے شور مچایا تو اس پر وزیراعظم کو انکوائری کمیٹی بنانا پڑی۔ اس کمیٹی نے اسد عمر‘ رزاق دائود اور عثمان بزدار کو بلایا۔ ان تینوں کے جوابات کے بارے انکوائری کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ وہ ان سے مطمئن نہیں ہیں۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس انکوائری رپورٹ کے بعد کابینہ کے دو بڑے وزیروں کو برطرف کر دیا جاتا کہ دونوں کے غلط فیصلوں کے نتیجے میں اربوں روپے عوام کی جیب سے نکل گئے تھے ۔ رزاق دائود وہ تھے جنہوں نے ای سی سی کو قائل کیا تھا کہ سبسڈی اور دس لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دیں‘ اور پھر ایک کمیٹی بنوائی جس کا ایک اجلاس بھی ان چھ ماہ میں نہیں ہوا ۔ اس کے بعد برطرفی اسد عمر کی بنتی تھی کہ آپ نے دس سے گیارہ لا کھ ٹن برآمد کیسے کرنے کی اجازت دی اور پھر چھ ماہ تک اجلاس بھی نہ بلا سکے جس میں چینی کی ایکسپورٹ کا جائزہ لیتے۔ صاف ظاہر ہے چینی مالکان کو کھل کر کھیلنے کی اجازت دی گئی اور انہوں نے خوب مال کمایا ۔
اب یہ پچھلے منگل کی بات ہے ‘ کابینہ کے اجلاس میں عمران خان بھی موجود تھے‘اسد عمر سمیت پچاس وزیر‘ مشیر بھی بیٹھے تھے ۔ اب وہی رزاق دائود کابینہ کو بتا رہے تھے کہ انہیں مبارک باد دیں کہ انہوں نے چینی کی قیمت جو اَب سو روپے فی کلو سے اوپر جاچکی ہے‘ اس میں تین روپے فی کلو کی کمی کروالی ہے۔ کابینہ کے اجلاس میں کسی ایک وزیر نے بھی ان سے نہ پوچھا کہ سرکار ایک سو روپے سے اوپر چینی پہنچا کر ایک‘ دو روپے کم کروانے سے ہم کیا تیر مار لیں گے؟ پہلے تو یہ بتائیں کہ ایک سال کے اندر آپ نے قیمت سو روپے فی کلو تک کیسے جانے دی؟ وزیر بھی بھلا کیسے بولیں کہ وزیراعظم نے ارشد شریف کو دیئے گئے انٹرویو میں جتنی تعریف رزاق داؤد کی قابلیت کی کی‘ اتنی کسی کی نہیں کی ۔ چینی کی قیمت 55 روپے سے 100 روپے تک پہنچا کر اس میں سے دو‘ تین روپے فی کلو کم کروانا واقعی کسی قابل بندے کا کام ہے۔
عمران خان صاحب کو چھوڑیں اب تو میں رزاق دائود صاحب کی قابلیت اور صلاحیتوں کا بھی قائل ہوگیا ہوں ۔آپ نہیں ہوئے؟ ویسے مان لیں کچھ نہ کچھ تو رزاق دائود صاحب کے پاس ایسا ضرور ہے جو صرف وزیراعظم صاحب کو نظر آتا ہے۔ داد اگر رزاق دائود کو دینا بنتی ہے تو بنتی وزیر اعظم کے لئے بھی ہے۔ داد دینے میں کنجوسی نہ کریں آپ لوگ پلیز !