حکمران‘ حکومتیں اور ان کے مشیر بھی الگ مخلوق ہوتے ہیں‘ اپوزیشن میں کچھ اور حکومت میں کچھ اور۔ یہ بات طے ہے کہ حکمرانوں کو ان کے مشیر ہی بناتے یا گراتے ہیں ۔اکبر جیسے ان پڑھ بادشاہ نے پچاس سال سے زائد حکومت اس لیے کر لی تھی کہ اسے اندازہ تھا کہ وہ ان پڑھ ہے اور اسے پڑھے لکھے مشیروں کی ضرورت ہے۔ امریکی صدر ریگن کے بارے کہا جاتا ہے انہوں نے اتنی اچھی ٹیم بنائی کہ خود جب دل کرتا بیٹھ کر فلمیں دیکھتے رہتے۔ کوئی اہم ایشو ہوبھی جاتا تو کہتے: بھائی اس محکمے کے سیکرٹری سے بات کرو‘ مجھے کیا بتاتے ہو ‘ یہ اس کا کام ہے‘ وہ کرے گا ۔ وہ امریکہ کے چند بہترین صدور میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں۔ کنگ آرتھر کے بارے میں بھی یہی پڑھا ہے کہ اس کی اپنی کونسل تھی جس سے وہ مشورے کرتا تھا ۔ مشیروں کا رول اس لیے اہم ہوتا ہے کہ وہ ہر وقت بادشاہ کے قریب رہتے ہیں اوران کا کہا ہوا بادشاہ پراثر رکھتا ہے۔
مگرہمارے حکمرانوں کی تاریخ اٹھا لیں تو پتہ چلے گا کہ ہر حکمران کو اس کے پیارے ہی لے بیٹھے۔ جب جنرل مشرف نے مارشل لاء لگایا تو اس کے کچھ عرصے بعد شہباز شریف نے ایک کالم نگار کوبتایا تھا کہ ان کی حکومت گرانے میں سب سے بڑا ہاتھ سیف الرحمن کا تھا جن کی ہر غلط بات مانی جاتی تھی۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ انہوں نے نواز شریف کو کہا تھا کہ آئندہ اسے قریب مت آنے دینا۔ پھر کیا ہوا؟ وہی سیف الرحمن نواز شریف کی تیسری حکومت بھی چلا رہے تھے‘ بلکہ بہت کچھ قطر سے کما کر بھی دے رہے تھے۔ اس لیے جب مجھے پتہ چلا کہ حکومت نے سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کی پنشن روک لی ہے تو مجھے حیرانی نہ ہوئی۔ اب انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیس فائل کیا ہے کہ ان پر کوئی مقدمہ نہیں‘کرپشن کا الزام بھی نہیں ہے‘ کوئی آڈٹ پیرا نہیں جس کی ریکوری ہونی ہو‘ پھر بھی ان کی پنشن کے 67 لاکھ روپے روک لیے گئے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پہلے یہ چیک ان کے بینک بھیجا گیا اور پھر بینک کو کہا گیا کہ اسے کلیئر مت کرنا۔ چیک بھیجنے کے بعد اب یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ انہوں نے نوکری سے استعفیٰ دے دیا تھا ‘لہٰذا وہ پنشن کے حقدار نہیں رہے۔
بشیر میمن کی عدالت میں فائل کی گئی پٹیشن پڑھیں تو آپ حیرانی کے سمندر میں ڈوب جائیں۔ ساری لڑائی اس وقت شروع ہوئی تھی جب انہیں کہا گیا تھا کہ وہ نواز لیگ کے پندرہ سیاستدانوں پر مقدمہ درج کریں۔ عام مقدمہ بھی نہیں بلکہ دہشت گردی کا پرچہ دیں۔ چند صحافیوں کے اکاؤنٹس بھی ایف ائی اے کو دیے گئے کہ وہ خاتون ِاول کے بارے کچھ نازیبا باتیں پوسٹ کرتے ہیں آپ انہیں بھی دہشت گردی کے الزام میں پکڑیں۔ سب سے زیادہ دبائو خواجہ آصف کے حوالے سے تھا کہ ان پر دبئی میں اقامہ پر ملازمت کرنے پر غداری کا مقدمہ درج کریں۔ اس سلسلے میں میمن صاحب کو درجن بھر مرتبہ وزیراعظم ہاؤس بلایا گیا اور کہا گیا کہ وہ یہ کارروائیاں کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک ان کے پاس کوئی مواد نہ ہو وہ کیسے کسی کے خلاف دہشت گردی کے پرچے درج کریں اور لوگوں کو پکڑتے پھریں ؟ ایک اہم صحافی کے بارے کہا گیا کہ اس پر دہشت گردی کا مقدمہ درج کرو ‘سائبر لاز کے تحت۔ میرے اس صحافی دوست کو علم بھی نہ ہوا کہ انہیں دہشت گردی کے مقدموں سے بچانے کے لیے کسی نے نوکری کی قربانی دینا پڑگئی تھی۔ بشیر صاحب کو اس کے بدلے یہ بھی پیش کش کی گئی کہ وہ اگر تیار ہوجائیں تو ان کی ملازمت کی مدت میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
حکومت نے جب دیکھا کہ وہ ان کی مرضی کے مطابق نہیں چل رہے تو انہیں زبردستی چھٹی پر بھیج دیا گیا ۔ ان کی ریٹائرمنٹ میں چند ہفتے باقی تھے‘ عموماً بیوروکریسی میں کسی کی ریٹائرمنٹ میں عرصہ کم رہ گیا ہو تو اسے اسی پوسٹ پر کام کرنے دیا جاتا ہے‘ لیکن یہ عزت انہیں نہ دی گئی۔ خیر بشیر میمن کو اس پر افسوس نہ تھا کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ یہ سب کچھ ہوگا۔ انہوں نے احتجاجا ًنوکری سے استعفیٰ دے دیا ‘ تاہم انہیں افسوس اس کے بعد شروع ہوا جب ان کی پنشن کا چیک بنا اور ان کے بینک اکاؤنٹ میں بھیج دیا گیا ۔ اب یہاں سے اصل کہانی شروع ہوئی۔ دو دن بعد بینک کا انہیں کو فون آیا کہ آپ کا چیک اکاؤنٹنٹ جنرل آفس نے فون کر کے کینسل کر دیا تھا۔ بینک نے فوراًبشیر میمن کا اکاؤنٹ بھی بند کر دیا۔ پتہ چلا کہ حکومت نے وہ چیک جاری کرانے بعد رکوا دیا تھا۔ کہا گیا کہ جو بندہ استعفیٰ دے دے وہ پنشن کا حقدار نہیں ٹھہرتا‘ تاہم میمن صاحب کا یہ کہنا تھا کہ وہ پنشن ان کے پیسوں سے کٹتی رہی تھی اور یہ انہی کے پیسے تھے جو پینتیس سال سروس کے بعد ان کے اکاؤنٹ میں جمع ہوتے رہے تھے۔ اس پر اب انہوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے ۔
اس بحث سے نکل کر دیکھتے ہیں کہ اگر واقعی رولز کی خلاف ورزی ہوئی تو ان کے پنشن کاغذات کیسے بن گئے ؟ اس پورے پراسیس میں سب رولز اور قوانین دیکھ کر ہی پنشن کی دستاویزات تیار ہوتی ہیں ۔ بہت سے محکموں سے آپ کو این او سی لینا پڑتا ہے اور پھر جا کر آپ کا کچھ بنتا ہے۔ اگر کوئی مسئلہ ہوتا تو کابینہ ڈویژن سے لے کر اسٹیبلشمنٹ‘ اکاؤنٹنٹ جنرل اور ایف آئی اے تک سب اس پر اعتراض کرتے اور چیک جاری نہ ہوتا۔ بات وہی ہے کہ کچھ مشیران نے یہ سوچا کہ بشیر میمن کو جب تک سبق نہ سکھایا جائے مزہ نہیں آئے گا۔ اب کوئی اچھا مشیر بیٹھا ہوتا تو وہ کہتاکہ جانے دو یار اس نے ہمارے کہنے پر کام نہیں کیے اور ہم نے اسے عہدے سے ہٹا کر مرضی کا بندہ لگا دیا‘ کسی افسر کے لیے اس سے بڑی سزا کیا ہوگی کہ اسے عہدے سے ہٹا دیں۔یہ بھی سوچا جا سکتا تھا کہ چلیں کوئی افسر تو ہے جس نے اپنی نوکری دائو پر لگا دی اور جو اسے غلط لگا اس نے کرنے سے انکار کردیا ۔لیکن ہمارے ہاں ایسے افسران کو نشان ِعبرت بنا دیا جاتا ہے تاکہ ان کو دیکھ کر کوئی اور جرأت نہ کرے۔ اب اس معاملے میں کچھ اور سامنے آرہا ہے کہ دراصل بشیر میمن کے دور میں ایک ہیومن سمگلنگ کا گروہ پکڑا گیا تھا‘ وہ گروہ ائیرپورٹ سے افغانیوں کو پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈز پر بیرون ملک جانے میں مدد دے رہا تھا ۔ پندرہ‘ بیس لوگ برطانیہ میں پکڑے گئے تو انہوں نے ایف آئی اے کے ایک ہی افسر کا نام لیا جو ایئرپورٹ پر ڈیوٹی دے رہا تھا۔ اس پر بشیر میمن نے اس کے خلاف کارروائی کی ۔ اب پتہ چلاہے کہ وہ افسر جس کے خلاف میمن صاحب نے کارروائی کی تھی وہ وزیراعظم آفس کے ایک بڑے افسر کا رشتہ دار نکل آیا ہے۔ پہلے تو اس رپورٹ کو ٹھیک کرایا گیا‘ جو بشیر میمن کے دور میں اس افسر کے خلاف تیار کی گئی تھی ۔ پھر اسی افسر نے بشیر میمن پر دبائو ڈالے رکھا کہ وہ نواز لیگ کے لوگوں کے خلاف کارروائی کریں اور جب نہ ہوسکی تو انہیں عہدے سے ہٹایا اور اب پنشن روک لی ۔ یہ ہیں وہ معاملات جو اس وقت حکومت میں چل رہے ہیں ۔
لوگ کئی امیدیں لگا کر بیٹھے تھے کہ نیا دور آئے گا‘ نئی حکومت آئے گی اور نئے نئے کام ہوں گے ‘ مگر کچھ نیا نہ کرسکے تو سابق ڈی جی ایف آئی اے کی پنشن کا چیک بینک کو بھیج کر دوسرے دن واپس منگوا لیا۔ جن لوگوں کو شکایت تھی کہ حکومت کچھ نیا نہیں کرتی‘ اب بتائیں اس سے زیادہ نیا اور کیا کرے؟