لاہور میں بغاوت کا مقدمہ حکومت کے لیے ایسا مسئلہ بن گیا ہے جسے وہ اب نہ نگل سکتی ہے‘ نہ اگل سکتی ہے۔ جب یہ مقدمہ درج ہوا اور حکومت کو غلطی کا احساس ہوا تو فوری طور پر اس کے پاس دو آپشن تھے۔ پہلا‘ اگر مقدمہ کر دیا تھا تو ڈٹ جاتی جیسے ذرائع کے مطابق کابینہ کے اجلاس میں شیخ رشید اور فروغ نسیم نے مشورہ دیا تھاکہ اب پیچھے نہ ہٹیں۔ ان دونوں کا خیال تھا کہ نواز شریف کی تقریر کو بنیاد بنا کر مقدمے کا جواز پیش کیا جائے اور مقدمے کا دفاع کیا جائے۔ دوسرا آپشن یہ تھا حکومت فوری طور پر یہ مقدمہ خارج کر دیتی اور اسے ایشو بننے سے روک دیتی‘ لیکن یہ دونوں کام نہ ہو سکے اور یوں بال اب اپوزیشن کی کورٹ میں ہے۔
حکومت نے الٹا اپوزیشن کے لیے آسانی پیدا کر دی۔ اپوزیشن‘ جو خفیہ ملاقاتوں کی خبروں کے حوالے سے دبائو میں تھی‘ اچانک اس دبائو سے نکل آئی۔ حکومت نے اپنے لیے سبکی کا سامان پیدا کیا جب اس نے اس مقدمے سے خود کو دور کیا اور یہ تاثر دیا ان کے علم میں لائے بغیر یہ مقدمہ درج ہوا۔ اس پر لوگوں کا شک فوری طور پر کچھ اور قوتوں کی طرف گیا کہ انہوں نے بغیر حکمران جماعت کو بتائے خود سے ہی مقدمہ درج کرا دیا‘ جو اب حکومت کے گلے کی پھانس بن گیا ہے۔
جب حکومت نے اس مقدمے پر خود کو ہی لعن طعن شروع کر دی تو اس سے یقینا نواز لیگ والوں کا حوصلہ بڑھ گیا اور انہیں عوام کی نظروں میں مظلوم بننے کا موقع مل گیا کہ کیسے ریاستی طاقت انکے خلاف استعمال ہو رہی تھی۔ اسی باعث نواز لیگ حکومت پر چڑھ دوڑی‘ اور تو اور محمد زبیر بھی تھانے پہنچ گئے کہ مجھے گرفتار کرو جبکہ لاہوری تھانیدار بھاگ گیا۔ وزیر اعظم کو سب کچھ پلیٹ میں پکا پکایا ملا‘ پھر بھی دو برسوں میں اپوزیشن اس پوزیشن میں آ گئی ہے کہ حکومت کواس نے فی الوقت آگے لگا لیا ہے۔ انصاف سے دیکھا جائے تو غداری کا مقدمہ وزیر اعظم کو اتنا بیک فٹ پر لے گیا ہے کہ انہیں دوبارہ سنبھلنے میں مشکل ہو گی۔
میری نظر میں اپوزیشن کو اس پوزیشن میں لانے میں دو قوتوں کا ہاتھ ہے: پہلے خود وزیر اعظم اور دوسرا ان کی حکومت کی ناقص کارکردگی۔ عمران خان صاحب نے جتنے نعرے لگائے سب کے سب ٹھس ہو گئے۔ پھر یاروں دوستوں کے سکینڈلز آنا شروع ہوگئے۔ اور تو اور بقول خواجہ آصف‘ شہباز شریف کو ایک خفیہ ملاقات میں کہا گیا کہ آپ بہت نعرے لگاتے تھے کہ زرداری کو گھسیٹوں گا اور وہ بات آپ کے سامنے آئی‘ موجودہ وزیر اعظم بھی اپوزیشن کے دنوں میں بہت باتیں کرتے تھے‘ ان کے بھی سب کلپ سامنے آ گئے ہیں۔ یوں عمران خان نے خود کو 'ہرٹ‘ کیا اور اپنی ساکھ کھو بیٹھے ہیں۔ جب ایک لیڈر اپنی ساکھ اور اعتبار کھو بیٹھتا ہے تو یقینا اس کا اداروں پر اثر پڑتا ہے۔ ماتحت بیوروکریسی یا آپ کی ٹیم کے ممبران ہو سکتا ہے منہ پر آپ کی تعریف یا عزت کرنے کا ڈھونگ رچائیں لیکن اپنے دل میں وہ عزت کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ انہیں علم ہوتا ہے ان کا لیڈر غلط بیانی کرتا ہے اور بوقت ضرورت ایسی بات کہہ دیتا ہے جس پر عمل کرنے کا اس کا کوئی پلان نہیں ہوتا۔ عمران خان کو بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔ پنجاب ایک اہم صوبہ ہے لیکن جس طرح وہاں بیوروکریسی کو چلایا گیا‘ اس نے اس صوبے کو تحریک انصاف کے ہاتھ سے نکال دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اپنی چھوٹی موٹی کارروائیوں میں مصروف ہیں اور گوجرانوالہ کی فیملی‘ جس کی مہربانی سے وہ وزیر اعلیٰ بنے ہیں‘ کے سب کام چل رہے ہیں۔ باقی کیا ہو رہا ہے اس کی نہ انہیں خبر ہے نہ پروا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نواز لیگ نے دوبارہ لاہور کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔
عمران خان صاحب جس غلطی کا کفارہ ادا نہیں کر سکیں گے وہ ان کی میڈیا پالیسی ہے۔ بائیس برسوں میں میڈیا عمران خان کا سب سے بڑا اتحادی تھا‘ جس نے شریفوں اور زرداری حکومتوں کو تن تنہا ایکسپوز کیا اور لوگوں میں شعور پھیلایا کہ ایک تیسری قوت اور لیڈرشپ کتنی ضروری ہے‘ لیکن وزیر اعظم بنتے ہی پہلے دن سے عمران خان کو ان کے میڈیا ایڈوائزرز اور ٹیم نے یہ بتایا کہ پاکستان میں حکومت کرنا ہے تو مین سٹریم میڈیا کا 'مکو ٹھپنا‘ کتنا ضروری ہے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر ہم پاکستانی میڈیا کو لگام ڈال دیں تو پھر ان کی حکومت کا وہ حشر نہیں ہو گا جیسا نواز لیگ اور زرداری کا میڈیا نے کیا۔ عمران خان کیمپ کو یقین تھا کہ اگر میڈیا میں بحران پیدا کرکے اس شعبے میں دو تین چینلز ہی باقی بچ جائیں تو پھر انہیں ہینڈل کرنا آسان رہے گا۔ سب نے نوٹ کیا کہ پہلے دن سے ہی میڈیا پر حملے شروع کر دئیے گئے تھے۔ عمران خان صاحب کا پریس بریفنگز میں شروع میں رویہ مختلف تھا اور آخری ملاقات میں تو وہ باقاعدہ ناراض ہو کر کہنے لگ گئے تھے کہ فلاں فلاں اینکر کا شو بند ہو جائے تو ملک کی اکانومی ٹھیک ہو جائے گی۔
اس کے بعد نیا کام شروع ہو گیا۔ کسی صحافی نے سخت سوال کر دیا تو سوشل میڈیا ٹیموں کے ذریعے ان کو نہ صرف گالیاں دلوائی گئیں بلکہ ٹویٹر پر غلیظ ٹرینڈ بھی چلوائے گئے۔ پھر سوچا گیا‘ مین سٹریم میڈیا کی طاقت توڑنے کیلئے یوٹیوبرز کو پروموٹ کیا جائے۔ پتہ چلا یوٹیوبرز کے پاس کوئی مواد یا خبر نہ تھی۔ کچھ دن گالی گلوچ اور پروپیگنڈا تو لوگوں نے سنا‘ پھر پتہ چلا کہ یوٹیوبرز جواب دے گئے ہیں۔ پھر سوچا گیا‘ اب سوشل میٖڈیا پر حکومت کے حق میں لکھنے والوں کو وزیر اعظم سے ملوایا جائے۔ پتہ چلا‘ ان بیچاروں کو چائے کا ایک کپ تک نہ پلایا گیا جو برسوں سے فیس بک پر دوستوں اور رشتہ داروں سے عمران خان کیلئے لڑائیاں کرتے آئے تھے۔ پھر سوچا گیا‘ ٹی وی چینلز کے پروڈیوسرز کو بلاتے ہیں تاکہ ان کو کنٹرول کریں۔ ان سے بھی ملاقات ہو گئی تو پھر سوچا‘ ٹی وی چینلز کے ڈائریکٹر نیوز کو بلایا جائے۔ ان سے بھی ملاقات ہو گئی۔ اس پر عدیل راجہ نے جملہ کسا کہ اگلی بار ٹی وی کے کیمرہ مینوں کو بھی بلا کر دیکھ لیا جائے کہ شاید بات بن جائے۔
جب پہلے دن سے اپنے سب سے بڑے اتحادی کو سینگوں پر رکھ لیا گیا تو دراصل اس میڈیا کو اپوزیشن کے کیمپ میں دھکیلا جا رہا تھا۔ ان تابڑ توڑ حملوں کے نتیجے میں میڈیا نے اپنی جان بچانے کے لیے اپوزیشن کو اہمیت دینا شروع کی۔ وہی اپوزیشن جس کی کرپشن یہ میڈیا افشا کرتا آیا تھا۔ حکومت کا خیال تھا جہاں اپوزیشن کو نکیل ڈال دی گئی ہے‘ وہیں میڈیا کا مکو بھی ٹھپ دیا گیا ہے۔ حکومت کو پتہ نہ تھا کہ دراصل وہ اپنا 'مکو ٹھپ‘ رہی تھی۔ وزیروں کی فوج دن رات میڈیا کی مذمت میں لگی رہی اور اس کا فائدہ نواز لیگ نے اٹھایا۔ اب پتہ چلا ہے کہ حکومت میڈیا کی حمایت کھو چکی ہے۔
احتساب کے ادارے کی رٹ اس وقت کمزور نظر آئی جب مریم نواز نے لاہور دفتر پر دھاوا بولا اور انہیں گرفتار نہ کیا جا سکا۔ مولانا فضل الرحمن نے دھمکی دی تو بھی قدم پیچھے ہٹا لئے گئے۔ کیپٹن صفدر کو نوٹس بھیجا گیا تو بھی ککھ نہ ہلا۔ خواجہ آصف کا بھی بال بیکا نہ ہوا۔ یوں جو چھوٹا موٹا ڈر تھا وہ بھی ختم ہو گیا۔
جو حکومت مسلسل دو سال سے یہ نعرہ لگا رہی تھی کہ سب 'پھڑے جان گے، اب پتہ چلا ہے کہ وہ خود 'پھڑی‘ گئی ہے۔ ایک طرف نظمِ احتساب مریم نواز، خواجہ آصف، کیپٹن صفدر اور مولانا فضل الرحمن سے گھبرا گیا ہے تو دوسری جانب لاہور پولیس کو محمد زبیر نے کراچی سے لاہور آکر آگے لگایا ہوا ہے۔ ملزمان پولیس کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور پولیس اپنی پتلونیں سنبھال کر دوڑ لگا رہی ہے۔ میری تو ہنسی نہیں رک رہی کہ جس حکمران جماعت کے لیڈر، وزرا اور ترجمان دن رات بڑھکیں مارتے تھے کہ 'سب پھڑے جان‘ گے، اب پتہ چلا ہے وہ بے چارے خود پھڑے گئے ہیں۔ انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ بغاوت کے مقدمے کا کیا کریں۔ حکومت کے برے دن دیکھنے ہوں تو وہ منظر دیکھ لیں کہ محمد زبیر جیسا بندہ کراچی سے آکر لاہور تھانے کے سامنے بھڑکیں مار رہا ہے: ''اوئے مینوں پھڑ لو‘‘ اور کوئی پھڑنے کو تیار نہیں۔