آخرکار عمران خان صاحب کو حکومت کرنے کا فن آہی گیا۔ دن کو رات اور رات کو دن ثابت کرنے کا نسخۂ کیمیا مل گیا۔ وہ اعتماد پیدا ہو گیا کہ سننے والے کو لگے‘ یہ جھوٹ ہی سچ تھا۔ یوسف رضا گیلانی یاد آئے جنہوں نے جنرل ضیا‘ محمد خان جونیجو اور پیر پگاڑا کے ہاتھوں بری طرح استعمال ہونے کے بعد پیر سائیں سے پوچھا تھا: کتنے عرصے میں بندہ پورا سیاستدان بن جاتا ہے کہ جب چاہیے لوگوں کو انگلیوں پر نچائے‘ استعمال کرے اور انہیں پتہ بھی نہ چلنے دے؟ جواب ملا تھا: پچیس تیس سال کشٹ کاٹنا پڑتا ہے۔
آج حکومت نے فیصلہ کیاکہ سب مل کر چینی کی قیمت کم ہونے پر پورا دن ٹویٹ کریں گے اور اپنے ناقدین کو شرمندہ کریں گے کہ دیکھو ہم نے کیسے چینی کی قیمت بیس روپے کم کر دی ہے۔ عمران خان اور اسد عمر یہ کریڈٹ لینے میں پیش پیش ہیں۔ میں تو شرمندہ ہورہا ہوں‘ کیسے نیک لوگوں کی نیت پر شک کیا کہ ان صاحبان کی وجہ سے چینی کا بحران پیدا ہوا اور شوگر ملز مالکان نے جہاں عوام کی جیب سے چار پانچ سو ارب روپے نکلوا لیے وہیں حکومت کو کروڑوں ڈالرز‘ جو مانگے تانگے کے رکھے تھے‘ چینی کی بیرونِ ملک سے خریداری پر خرچ کرنا پڑے۔
پچھلے سال تک جو ملک گیارہ لاکھ ٹن چینی یہ کہہ کر باہر بھیج رہا تھا وہ امسال اس سے زیادہ ڈالرز خرچ کرکے واپس منگوا رہا ہے اور ملک کے حکمران جشن منا رہے ہیں کہ دیکھ لیں جو قیمت ہمارے غلط فیصلوں سے ایک سو روپے سے اوپر گئی تھی‘ وہ اب اسی روپے پر آگئی ہے۔
اگر ایف آئی اے انکوائری کمیشن اور پاکستان کمپیٹیشن کمیشن کی تازہ ترین رپورٹ پر عمل ہوتا تو دو وزیر اس سکینڈل میں براہ راست ملوث ہیں جن کی منظوری بعد میں عمران خان اور ان کی کابینہ نے دی تھی۔ اسد عمر اور عبدالرزاق دائود وہ کردار ہیں جن کی وجہ سے چینی کا بحران پیدا ہوا اور مہنگائی نے آسمان چھو لیا۔ بات دہرانی پڑے گی لیکن اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں کیونکہ یہ قوم گجنی بن چکی ہے۔ جسے صبح کا کھایا شام تک یاد نہ رہے اسے یہ کہاں یاد رہے گاکہ ایک سال پہلے تک چینی وافر ہونے کے دعوے کرنے والوں نے کیسے یہ سب فراڈ کیا جس کی قیمت اس قوم نے ادا کی۔ جب چینی ایکسپورٹ کی اسد عمر نے اجازت دی اور عمران خان نے اس پر کابینہ میں مہر ثبت کی تو اس وقت چینی کی قیمت پچپن روپے تھی اور ایکسپورٹ ہوتے ہی سو روپے سے اوپر نکل گئی۔
رازاق دائود نے پہلے شوگر ایڈوائزی بورڈ میں شوگر ملز مالکان کے کہنے پر ای سی سی میں اسد عمر کو بتایا کہ جناب اس سال ہمارے پاس بہت وافر مقدار میں چینی موجود ہے لہٰذا دس لاکھ ٹن ایکسپورٹ ہونے دیں۔ اسد عمر اس وقت وزیرخزانہ تھے۔ انہیں لگا‘ اس کے پیچھے ہو نہ ہو جہانگیر ترین ہیں کیونکہ ان کی شوگر ملوں کے پاس بہت مال پڑا ہے۔ اسد عمر اور جہانگیر ترین کی پرانی لگتی تھی‘ لہٰذا اسد عمر نے پہلی دفعہ انکار کر دیا اور ایک سو ایک وجوہات بتا دیں کہ شوگر ایکسپورٹ کیوں نہیں ہو سکتی۔ ایک ماہ بعد جہانگیر ترین اور رازق دائود نے کوئی ایسا دائو کھیلا کہ وہی اسد عمر اگلے اجلاس میں دس لاکھ ٹن کے بجائے گیارہ لاکھ ٹن چینی کی ایکسپورٹ کی فوراً منظوری پر تیار ہو گئے بلکہ انہوں نے شوگر ملز کے شاہد خاقان عباسی دور کے رکے دو ارب روپے سبسڈی ادا کرنے کا بھی حکم دیا اور ساتھ ہی کہا‘ صوبے اگر سبسڈی دینا چاہیں تو وہ دے سکتے ہیں۔
ابھی اس اجلاس کے فیصلے کے منٹس بھی نہیں لکھے گئے تھے کہ لاہور میں وزیراعلیٰ بزدار نے اجلاس بلا کر تین ارب سبسڈی کی منظوری دے دی۔ پنجاب کے وزیرخزانہ اور وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی ہاشم بخت نے اجازت ملتے ہی پہلا پچاس کروڑ روپے کا پہلا چیک اپنے بھائی مخدوم شہریار کی شوگر مل کے نام کاٹا اور بھائی کو دیا کہ جا بھائی مزے کر۔ دوسرا چیک ہاشم بخت نے چھپن کروڑ روپے کا جہانگیر ترین کی ملوں کو کاٹ کردیا کہ یہ لیں آپ کی تحریک انصاف کیلئے مالی اور جہازی قربانیوں کا صلہ ہے۔ تیسرا چیک جہانگیر ترین کے ماموں شمیم خان کی شوگر ملوں کے نام کاٹا گیا اور انہیں بھی پچاس کروڑ روپے ملے۔ یوں ان تین لوگوں نے ڈیڑھ ارب روپے آرام سے آپس میں بانٹ لیے۔
اسد عمر کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ چینی ایکسپورٹ ہونے سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت پچپن روپے ہی رہے گی۔ اس پر اسد عمر نے فیصلہ کیا کہ ہر پندرہ دن بعد ای سی سی کی ذیلی کمیٹی‘ جس میں درجن بھر وزیر ممبر تھے‘ اجلاس منعقد کرکے چینی کی قیمت کا جائزہ لے گی اور اگر قیمت بڑھنے لگی تو فوری طور پر ایکسپورٹ روک دی جائے گی۔ اسد عمر اس فیصلے کے بعد چار ماہ تک وزیر خزانہ رہے لیکن ایک دفعہ بھی اجلاس نہیں بلایا گیا کہ قیمتیں چیک کریں۔ ستر اسی کے قریب شوگر مل مالکان کو پورا پورا موقع حکومت نے فراہم کیاکہ وہ کھل کر مال بنائیں۔ جونہی مارکیٹ میں خبر پھیلی کہ گیارہ لاکھ ٹن چینی افغانستان جا رہی ہے اور حکومت تین ارب روپے بھی جہانگیر ترین، شمیم خان اور خسرو بختیار کے بھائی کو دے رہی ہے تو فوراً دوسری شوگر ملوں نے اپنی چینی کے ریٹ بڑھا دیے کہ چینی کی قلت ہوگئی ہے‘ یوں قیمت پچپن روپے سے اسّی روپے تک پہنچ گئی۔
کمپٹیشن کمیشن کی انکوائری رپورٹ میں لکھا ہے کہ یہ شوگر ملز والوں کا پرانا طریقہ واردات ہے کہ چند سیاسی مل مالکان پہلے حکومت پر دبائو ڈال کر چینی کی ایکسپورٹ اور سبسڈی منظور کراتے ہیں اور اس کا فائدہ صرف ان چند ملوں کو نہیں ہوتا جنہیں اربوں کیش سبسڈی مل رہی ہوتی ہے بلکہ سارا شوگر مافیا اس کے فائدے اٹھاتا ہے۔ ایکسپورٹ کی وجہ سے چینی کی قیمت بڑھتی ہے اور ستر سے زائد مل مالکان بغیر ایک کلو گرام چینی ایکسپورٹ کیے مقامی مارکیٹ میں اس کی قیمت بڑھا کر اربوں کما لیتے ہیں۔ شہزاد اکبر صاحب نے خود انکشاف کیا تھا کہ ایک کلو چینی کی ایک روپے قیمت بڑھنے سے پانچ ارب روپے شوگر مل مالکان کی جیب میں جاتے ہیں۔ یوں ایکسپورٹ سے اتنا بڑا فائدہ نہیں ہوتا جتنا اس ایکسپورٹ کے نام پر مقامی مارکیٹ میں قلت کا نعرہ لگا کر اربوں روپے راتوں رات کھرے کر لیے جاتے ہیں۔ جب رولا مچا تو اچانک حکومت کو پتا چلا‘ یہ تو سکینڈل ہوگیا ہے‘ ہم سے غلط فیصلے کرا کے عوام کو لوٹ لیا گیا ہے ۔
اب حکومت گھبرا گئی کہ جہانگیر ترین، انکے ماموں شمیم خان اور خسرو بختیار کے بھائیوں کی ملوں کو نقد فائدہ دیتے دیتے اور ان کے پرانے احسانات چکاتے چکاتے وہ عوام کو چار پانچ سو ارب روپے کا ٹیکا لگوا بیٹھے ہیں۔ اس کے بعد بڑھکیں شروع ہوئیں کہ نہیں چھوڑیں گے ۔ پھر یہ بھی عجب کام ہوا‘ جو چینی سستے داموں افغانستان کو بھیجی گئی تھی وہ دنیا کے دوردراز ملکوں سے ڈالروں میں منگوائی گئی۔ اب جہاز کراچی پہنچے ہیں تو چینی کی قیمت سو روپے سے نیچے آئی ہے لیکن پچپن روپے کے ریٹ پر نہیں۔
اب مسلسل ٹویٹس کیے جا رہے ہیں کہ دیکھا ہم نے چینی کی قیمت کم کر دی۔ ہم نے مافیا کو شکست دے دی۔ شوگر مافیا اب بھی ہنس رہا ہو گا یہ ٹویٹس پڑھ کر‘ جو ایک سال میں چینی کی قیمت پچپن روپے سے ایک سو دس تک لے گئے اور اب اگر اسی روپے تک آ گئی تو بھی پچپن روپے تو نہیں ہو گئی اور ہو بھی جائے تو کیا فرق پڑتا ہے کیونکہ چار پانچ سو ارب وہ لوٹ چکے۔
داد دیں اس عوام کو جو عمران خان اور اسد عمر کے ٹویٹس کو ری ٹویٹس کرکے خوشی سے دیوانی ہورہی ہے۔ جن کی وجہ سے قوم کے اربوں لوٹ لیے گئے وہ یقینا داد کے مستحق ہیں کہ رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت بھی نہ گئی۔
عوام کو چونا لگانا تو کوئی ان سے سیکھے جو کہتے ہیں ہم تو ابھی سیکھ رہے ہیں۔