اگرحکمران سے پوچھا جائے کہ لوگ غربت کی وجہ سے خودکشیاں کررہے ہیں تو وہ آگے سے جواب دے‘ تو میں کیا کروں؟یہ سن کر آپ کو کیسا لگے گا؟ آپ کہیں گے‘ ایسا جواب کبھی کوئی حکمران نہیں دے گا‘ چاہے وہ ان غریب لوگوں کو خودکشی سے روک سکے یا نہ روک سکے‘ان کی زندگیوں میں بہتری یا امید لا سکے یا نہ لاسکے‘ لیکن وہ یہ جواب کبھی نہیں دے گا۔ وہ کہے گا: آئی ایم سوری اگر یہ ہورہا ہے اور لوگ میری ریاست میں خودکشیاں کررہے ہیں‘ میرے نالج میں نہیں تھا‘ میں پوری کوشش کررہا ہوں کہ ایسا نہ ہو‘ میں آج ہی اپنی کابینہ کے ساتھ بیٹھ کر بات کروں گا‘ میں غریبوں اور یتیموں کیلئے بنائے گئے ریاستی ادارے کے سربراہ کو بلا کرپوچھتا ہوں کہ انہوں نے اب تک ایسا نظام کیوں نہیں بنایا کہ لوگوں کو ہر ماہ کچھ راشن ملتا رہے‘ان سے پوچھوں گا کہ انہیں جو اربوں روپوں کا بجٹ دیا جاتا ہے وہ کہاں خرچ ہورہا ہے ؟ حکمران کہے گا کہ کسی کی حالت بہت خراب ہے تو یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کا خیال کرے‘ وہ ایسے طبقات کو اس قابل بنائے کہ وہ کچھ کما سکیں‘اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی ختم کرنے کی بجائے ریاست سے مدد لیں۔
دنیا بھر میں جو سوشل ویلفیئر ادارے قائم کیے جاتے ہیں ان کے پیچھے یہی تصور ہوتا ہے کہ اگر معاشرے میں کوئی بیروزگار ہے‘ کسی کے معاشی حالات درست نہیں یا اس کے گھر فاقوں کی نوبت آگئی ہے تو اس وقت ریاست انہیں بیروزگاری الائونس دینا شروع کردیتی ہے تاکہ اس کی زندگی کی ڈوریں اس وقت تک بندھی رہیں جب تک انہیں دوبارہ روزگار نہیں مل جاتا۔ اس دوران ریاستی ادارے اسے مختلف قسم کی نوکریاں ڈھونڈ کر دینے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ اگر گھر میں کوئی بزرگ بیمار ہو یا بچے معذور ہوں تو انہیں مزید مدد دی جاتی ہے‘بلکہ بعض کیسز میں گھر میں موجود افراد میں سے کسی کو فی میل یا میل نرس کا درجہ دے کر ہر ماہ تنخواہ دی جاتی ہے۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ آپ کو حکمران آگے سے ٹکا سا جواب دے کہ لوگ اپنے بچوں کے ساتھ خودکشیاں کررہے ہیں تو میں کیا کروں؟
اگر آپ کچھ نہیں کرسکتے تو پھر آپ نے حکمران بننے کا فیصلہ کیوں کیا؟ آگر آپ کے پاس لوگوں کے دکھوں کا علاج نہیں تو آپ تخت پر کیوں بیٹھے؟ پھر آپ نے برسوں یہ دعویٰ کیوں کیا کہ اگر میں حاکم بن گیا تو دنیا دیکھے گی کہ کیسا شاندار نظام لائوں گا۔ اُس وقت ایک ایک بات پر بتایا جاتا تھا کہ یورپی حکومتیں اور معاشرے کیسے اپنے شہریوں کو خیال رکھتے ہیں۔ اُس وقت تو ڈچ حکمرانوں کا نام جلسوں میں بار بار بتایا جاتا تھا کہ وہ سائیکل پر دفتر جاتے ہیں‘ جنوبی کوریا کا وزیراعظم سمندر میں ایک کشتی کے حادثے میں ہلاک ہونے والے بچوں کا خود کو ذمہ دار سمجھتا ہے اور مستعفی ہو جاتا ہے۔اُس وقت سب مغربی معاشروں کی اچھی اچھی باتیں اور نظام اور حکمرانوں کی خوبیاں بتائی جاتی تھیں اور لوگ احساسِ کمتری کا شکار ہوتے تھے کہ کاش ایسے حکمران ہمیں بھی ملیں۔ پھر نظریں اس انسان پر جا پڑتیں جو مغربی معاشروں کی اچھی اچھی باتیں بتا رہا ہوتا تھا‘ کہ اگر اس کو ایک چانس مل گیا تو ہمیں ہماری منزل ضرور مل جائے گی‘ ہمیں بھی انسان سمجھا جائے گا‘ ہماری بھی کسی کو فکر ہوگی‘ کوئی گھر فاقے نہ کاٹے گا‘ کوئی اپنے بچوں کا گلا نہ گھونٹے گا‘ نہر پر لے جا کر انہیں دھکا نہ دے گا‘ اس معاشرے میں کوئی ایسا نہ ہوگا جس نے فراڈ کیا ہوگا اور اسے وزیر بنا دیا جائے گا‘ کسی بڑے وزیر کو کروڑوں روپے کی لگژری گاڑی نہیں ملے گی‘ کوئی یار دوست یا کاروباری پارٹنر کابینہ میں وزیر نہ ہوگا‘ کروڑوں روپے کی لگژری گاڑیاں رولز ریلکس کر کے نہیں دی جائیں گی‘ کوئی ایسا نہیں ہوگا جس کے خلاف سپریم کورٹ میں ایف آئی اے کی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے پانچ جلدوں پر مشتمل انکوائری رپورٹ میں درجن بھر انکشافات کئے ہوں گے‘ جن میں یہ انکشاف بھی شامل ہوگا کہ موصوف نے سیلاب زدگان کیلئے اکٹھے ہونے والے چندے میں گائوں کے معصوم لوگوں کو بیوقوف بنایا اور جعلی نوٹ عطیے میں دے دیے اور گائوں کے بھولے لوگ خوش ہوگئے کہ سیلاب اور بارشوں سے مرنے والوں کی 60 لاشیں دفنائی جاسکیں گی اور پسماندگان کو کھانا مل سکے گا‘ پھر پتا چلا کہ وہ نوٹ تو شادی بیاہ کیلئے تیار کئے گئے جعلی نوٹ تھے۔ ایسے لوگوں کو عمر بھر اقتدار سے دور رکھا جائے گا‘ کوئی ایسا نہیں ہو گا جو حکومت میں بیٹھ کر حکومت سے ہی کاروبار کرے۔لوگوں کا لہو نچوڑے اوراربوں روپے کمائے۔ ملک کا وزیراعظم کابینہ میں ایسے لوگوں کا ہر گز دفاع نہیں کرے گا بلکہ سزائیں دے گا۔ یہ بھی ممکن نہیں ہوگاکہ وفاقی حکومت میں ایک بھائی کابینہ اور ای سی سی میں بیٹھ کر شوگر ملوں کو تین ارب روپے سبسڈی کے فیصلے میں شریک ہوگا تو پنجاب حکومت میں چھوٹا بھائی سب سے پہلے اپنے بھائی کی شوگر مل کو پچاس کروڑ روپے کا چیک کاٹ کر دے گا اور پھر کسی کو پچاس کروڑ کا چیک اور کسی کو چھپن کروڑ کا چیک وہی وزیر خزانہ کاٹ کر دے گا۔
یہ سب نہیں ہوگا۔ کوئی ارب پتی دوست اور پارٹیاں اور اے ٹی ایمز نہیں ہوں گی‘ کسی کیلئے کابینہ سے ایسے فیصلے نہیں کرائے جائیں گے جس سے ان دوستوں کو اربوں کا فائدہ ہو جنہوں نے ماضی میں چندہ دیا ہو‘ کھلایا پلایا ہو‘ خرچہ اٹھایا ہو‘ گھر کا کچن بھر دیا ہو۔ کسی کو جی آئی ڈی سی کے چار سو ارب روپے معاف نہیں ہوں گے‘ چاہے اس میں قریبی دوست ہی کیوں نہ ہوں۔ کسی اے ٹی ایم پارٹی کو نیب سے نہیں بچایا جائے گا‘ حاکم کبھی اپنا بڑا محل خود ہی کابینہ سے ریگولر نہیں کرائے گا‘ حاکم اس عمارت کو بھی کابینہ سے ریگولر کرانے کی کوشش نہیں کرے گا جس میں اس کا اپنا کروڑوں روپے کا فلیٹ ہوگا۔ جب اپنے فلیٹ والی بلڈنگ کو ریگولر کرنے کی سمری کابینہ میں پیش ہوگی تو وہ اپنی کرسی چھوڑ کرکسی قریبی کو نہیں کہے گا کہ تم اس ایجنڈے کو ڈسکس کرنے کے لیے پانچ منٹ کیلئے میری سیٹ پر بیٹھ جائو تاکہ یہ نہ لگے کہ میں نے خود فیصلہ کیاجس سے مجھے فائدہ ہورہا ہے۔ اور کسی قریبی کی کیا مجال کہ وہ ملک کے حکمران کی عمارت پر انگلی اٹھا سکے یا کوئی وزیر مشورہ دینے کی جرأت کرے کہ سر جی اللہ نے آپ کو وزیراعظم بنا دیا‘ آپ کن چکروں میں پڑ گئے ہیں کہ اپنے گھر اور فلیٹ کو کابینہ اور عدالتوں سے قانونی شکل دلوانے میں لگے ہوئے ہیں۔ آپ تو کہتے تھے کہ آپ کا دل غریبوں کیلئے دھڑکتا ہے‘ اب آپ اپنے محل اور فلیٹ بچانے کے چکر میں ہیں۔ آپ کے دور میں ہزاروں غیرقانونی عمارتیں‘ گھر اور جھگیاں گرا دی گئیں اور اب اپنی باری آپ کابینہ اور سی ڈی اے سے ریگولر کرانے آگئے ہیں۔ پچاس وزیروں مشیروں کی فوج میں سے ایک وزیر بھی ایسا نہ نکلا۔کیا ہم ہر قیمت پر حکمران بننے کیلئے دن رات ایک کر دینے والے شخص کو جانتے ہیں جو ہر جلسے میں حضرت عمر فاروقؓ کا قول دہراتا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کتا بھی بھوکا مرگیا تو عمرؓ سے پوچھا جائے گا۔
چلیں کسوٹی کھیلتے ہیں۔ آپ اس بندے کو جانتے ہیں جو بائیس برس تک دنیا بھر کی حکومتوں اور معاشرے کی تصوراتی‘ خیالی کہانیاں اور سچے جھوٹے فسانے سنانے کے بعد حاکم وقت بن کر ٹی وی اینکر کے اِس سوال پر کہ ملک میں غریب خودکشیاں کر رہے ہیں‘یہ جواب دے کہ پھر میں کیا کروں؟