"RKC" (space) message & send to 7575

پانچ ارب کی واردات کی داستان… (4)

ظفر علی شاہ کو اندازہ نہ تھا کہ بینظیر بھٹو اتنی جلدی فیصلہ کر لیں گی اور ناممکن بات اتنی آسانی سے طے ہوجائے گی۔شاید یہ ذہین لوگوں کی خوبی ہوتی ہے کہ انہیں جلدی کسی بات پر قائل کیا جاسکتا ہے‘ اگر بات میں وزن ہو۔ ذہین انسان کی کمزوری دلیل ہوتی ہے ‘ جونہی کسی دلیل نے قائل کیا وہ فورا ًفیصلہ لے لیتے ہیں‘یہی بینظیر بھٹو نے کیا تھا۔ جونہی ظفر علی شاہ کی باتوں میں انہیں وزن محسوس ہوا تو انہوں نے فیصلہ کرنے میں دیر نہیں کی۔اپنا فائدہ نقصان کیلکو لیٹ کیا اور فوراً اُٹھ کر اندر گئیں اور اندر سے ہاتھ سے چند سطریں لکھ کر لے آئیں اور کاغذ ظفر علی شاہ کے ہاتھ میں تھما دیا۔اب ظفر علی شیخ اس کاغذ کو پڑھے رہے تھے۔ بینظیر بھٹو نے اس کاغذ پر ایک طرح کا مشترکہ بیان لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ نواز شریف کے ایلچی ظفر علی شاہ سے ان کی ملاقات ہوئی۔ وہ اب نواز شریف کے ساتھ مل کر پاکستان میں مشرف آمریت کے خلاف جمہوریت کی بحالی کیلئے تیار تھیں۔ تاہم اس بیان کے آخر پر بینظیر بھٹو نے نواز شریف کے حوالے سے ایک لائن لکھی تھی جو زیادہ سخت تھی۔ شاید وہ چاہ رہی تھیں کہ ان کے پاکستان میں پارٹی لیڈرز اور فالورز یہ نہ سمجھیں کہ محترمہ نے نواز شریف کے ساتھ ہاتھ ملا لیا ہے جن کی وجہ سے خودبینظیر بھٹو جلاوطن ہوئیں‘ زرداری جیل میں گئے اور پارٹی کا برا حال ہوگیا ۔ظفر علی شاہ نے وہ سخت سطر پڑھ کر سر اوپر اٹھایا اور محترمہ کو کہا :جب آپ نے اتنا بڑا دل کر کے نواز شریف کے ماضی کو بھول کر ان کے ساتھ سیاسی طور پر چلنے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو پھر اس آخری لائن سے کیا حاصل ہو گا؟ اگر آپ ساتھ دے رہی ہیں تو پھر کھل کر ساتھ دیں‘ اس لائن سے اس سیاسی تحریک اور اتحاد کا سارا مقصد ناکام ہوگا اور دونوں پارٹیوں کے حامی بھی قریب نہیں آ سکیں گے ۔بینظیر بھٹو نے کچھ سوچتی نظروں سے ظفر علی شاہ کو دیکھا اور ان کے ہاتھ سے کاغذ لے کر وہ لائن کاٹ دی جس پر ظفر علی شاہ کو اعتراض تھا۔وہ کاغذ لے کر بینظیر بھٹو نے ظفر علی شاہ کو کہا: چلیں آپ کے ساتھ فوٹو لیتے ہیں۔ بینظیر بھٹو‘ ظفر علی شاہ اور امین فہیم کھڑے ہوئے اور اسی وقت کیمرہ کلک ہوا۔بینظیر بھٹو تصویر کے بعد وہ کاغذ پکڑے اندر گئیں‘ اپنے کمپیوٹر پر بیٹھ کر کچھ لکھا اور کسی کو میل بھیج دی۔
ظفر علی شاہ ابھی وہیں بینظیر بھٹو کے ساتھ بیٹھے تھے کہ دھڑا دھڑا خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے مشرف کے خلاف سیاسی اتحاد بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ظفر علی شاہ کو سمجھ نہ آئی کہ یہ سب کچھ اتنی جلدی سے کیسے ہوگیا کہ وہ ابھی بینظیر بھٹو سے باتیں کررہے تھے کہ اتحاد کی خبریں پوری دنیامیں پھیل گئی تھیں۔
ظفر علی شاہ کی بینظیر سے کامیاب ملاقات نے پاکستان میں ایک ہلچل مچا دی۔ کوئی یقین نہیں کرسکتا تھا کہ نواز شریف اور بینظیر بھٹو بھی ایک دوسرے سے ہاتھ ملا سکتے ہیں۔پرویز مشرف کیمپ میں یہ خبر ایک بم شیل بن کر گری ۔ اب تک مشرف کا سارا فوکس نواز شریف پر تھا کہ کیسے انہیں دہشت گردی کی عدالت سے سزا دلوا کر اپنا مقدمہ پکا کرنا ہے‘ اس سلسلے میں انہوں نے نیب کے چیئرمین جنرل امجد کے ذمے لگا رکھا تھا کہ وہ دنیا بھر سے شریف خاندان کے خلاف ثبوت اکٹھے کریں کہ ان کی جائیدادیں اور پیسے کہاں کہاں ہیں۔ جنرل امجد کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ بیرون ملک وہ کیسے ان جائیدادوں کا سراغ لگائیں‘تاہم نیب کے کچھ افسران نے ان کا یہ مسئلہ اس وقت حل کر دیا جب انہیں بتایا گیا کہ اس سے پہلے نواز شریف دور میں احتساب سیل کے چیئرمین سیف الرحمن کامیابی سے یہ عالمی آپریشن کر چکے تھے۔ سیف الرحمن نے لندن اور جنیوا میں ایسی لیگل فرموں اور وکیلوں کو تیس کروڑ روپے کی ادائیگیاں کی تھیں جنہوں نے بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف تمام دستاویزی ثبوت ڈھونڈ نکالے تھے۔ بینظیر بھٹو اور زرداری کی جائیدادوں کے کاغذات احتساب سیل نے حاصل کر کے انہیں جینوا میں متعلقہ لیگل فرمز اور عدالتوں میں جمع بھی کرائے ہوئے تھے۔
زرداری اور بینظیر بھٹو کے خلاف دستاویزی ثبوت اکٹھے کرنے کیلئے جنیوا کی ایک فرم کو 19 لاکھ ڈالرز تو ایک برطانوی فرم کو بارہ لاکھ ڈالرز ادا کیے گئے تھے۔یوں جنرل امجد کو بھی راہ دکھائی گئی کہ وہ بھی سیف الرحمن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عالمی لیگل فرمیں اور عالمی جاسوس ہائر کریں جنہیں نیب ادائیگی کرے گا اور وہ پاکستان کو نواز شریف کی جائیدادیں اور ثبوت اکٹھے کر کے دیں گے۔ یوںجس طرح بینظیر بھٹو اور زرداری کے خلاف سیف الرحمن نے دنیا بھر سے ثبوت اکٹھے کیے اور ان ثبوتوں کی وجہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی مقدمے چلائے گئے ‘ نواز شریف کو بھی گھیرا جاسکتاتھاتاکہ پاکستانیوں کو خصوصاً اور عالمی برادری کو عموماً بتایا جاسکے کہ پاکستان کے دونوں سیاسی وزیراعظم بہت کرپٹ ہیں‘ جنہوں نے پاکستان کو لوٹا اور ساری دولت پاکستان سے باہر لے گئے اور ان کی وجہ سے ہی پاکستان کی یہ حالت ہوئی ہے ۔
بینظیر اور زرداری کی حد تک تو ثبوت موجود تھے اور انہیں نواز شریف نے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ملک قیوم کی مہربانی سے سزائیں بھی دلوا دی تھیں (بعد میں سیف الرحمن اور جسٹس قیوم کی بدنام زمانہ ٹیپس بھی سامنے آئی تھیں جن سے انکشاف ہوا تھا کہ سزائیں کس طرح دلوائیں گئی تھیں)لیکن ابھی کام ادھورا تھا۔ جب تک نواز شریف کے خلاف بھی اس طرح کے ثبوت نہیں ملتے اور انہیں بھی پاکستانی عدالتوں سے کرپشن پر سزا نہیں ملتی پرویز مشرف کے مارشل لاء کو پوری عوامی تائید حاصل نہیں ہو سکتی تھی۔ طیارہ سازش کیس میں لوگوں کو شکوک تھے کہ نواز شریف کو جان بوجھ کر عدالتوں سے سزا دلوائی گئی ‘ ورنہ نواز شریف کا اس کیس میں مقدمہ نہیں بنتا‘ سب یہی سمجھ رہے تھے کہ مقدمہ عدالتی سے زیادہ ذاتی اور انتقامی تھا۔
نواز شریف نے بارہ اکتوبر1999ء کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف کو برطرف کر کے ان کی جگہ جنرل خواجہ ضیاء الدین بٹ کو لگا دیا تھا۔ ردعمل کے طور پر فوج نے نواز شریف کو وزیراعظم ہاؤس سے گرفتار کر لیا تھا اور کراچی کی دہشت گردی کی عدالت سے سزا دلوا کر اندر کر دیا تھا لیکن یہ سب کافی نہیں تھا۔جنرل مشرف بے چین تھے کہ شریف خاندان کو سخت سزائیں دلوانی ہیں اور انہیں اس طرح کرپٹ ثابت کرنا ہے جیسے شریفوں کے فرنٹ مین سیف الرحمن نے بینظیر بھٹو اور زرداری کو کیا تھا۔
اگرچہ عدالت سے نواز شریف کو 40 کروڑ روپے جرمانہ بھی عائد ہو چکا تھا ( جو بعد میں نواز شریف کے سعودی عرب جانے کے بعد حمزہ شہباز نے قسطوں میں نیب کو جمع کرایا تھا)۔اب سوال یہ تھا کہ کون کرے گا یہ کام؟ کہاں سے آئیں گے وہ عالمی جاسوس جو نواز شریف اور دیگر کرپٹ لوگوں کی جائیدادیں جنرل مشرف اور جنرل امجد کو ڈھونڈ کر دیں گے؟اور ایک دن جنرل امجد کے پاس نیب میں ایک عالمی جاسوس لایا گیا۔ اس جاسوس کا کہنا تھا کہ ان کی کمپنی براڈ شیٹ انہیں دنیا بھر سے پاکستانی سیاستدانوں کی پاکستان سے لوٹی گئی دولت ڈھونڈ کر دے گی۔جنرل امجد خوشی سے اچھل پڑے کہ کام ہوگیا تھا۔ انہوں نے براڈ شیٹ کے عالمی جاسوس کو ساتھ بٹھایا اور معاہدے پر بات چیت ہونے لگی کہ کون کیا کرے گا اور کس کو کیا ملے گا۔جنرل امجد کو پتہ نہیں تھا کہ براڈ شیٹ کمپنی ان کے ساتھ کیا خوفناک کھیل کھیلنے والی تھی۔ کمپنی کے پیچھے چھپے دو پاکستانی چہرے اپنا نیا کھیل شروع کرچکے تھے اور جنرل امجد کو پوری طرح گھیرا جا چکا تھا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں