کبھی سوچتا ہوں جمہوریت پاکستان‘ بھارت جیسے معاشروں کے لیے نہیں بنی تھی۔ یہ مغربی معاشروں کا نیا تصور تھا جو انہوں نے ہزاروں سال کے خوفناک تجربات سے سیکھا اور پھر گورے دنیا میں جہاں بھی گئے‘ انہوں نے کہا: یہ نظام ان ملکوں میں بھی نافذ کیا جائے بغیر دیکھے بھالے کہ مقامی لوگ کون ہیں، ان کی ہزار سال پرانی روایات کیا ہیں اور سب سے بڑھ کر ان کی روح کے اندر جو صدیوں پرانے جینز میں غلامی رچ بس گئی‘ وہ بھلا کیسے باہر نکلے گی؟
اگرچہ کہا جاتا ہے کہ بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہتر ہے لیکن وہی بات کہ بدترین جمہوریت کے بدلے میں بدترین لوگوں‘ ان کے بدترین فیصلوں اور آپ کی دولت پر ان کی عیاشیوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ بدلے میں حکمرانوں پر کچھ تنقید کرنے کا حق مل جاتا ہے اور ہم جیسے خوش ہو جاتے ہیں کہ جب چاہیں کچھ ہرزہ سرائی کر سکتے ہیں۔ حکمران اور سیاسی لوگ بھی دھیرے دھیرے بے حس ہو جاتے ہیں کہ کیا فرق پڑتا ہے اگر لوگ تھوڑی بہت باتیں کر لیتے ہیں‘ بدلے میں ان کی زندگیاں ہمارے کنٹرول میں ہیں، ان کے پیسوں پر ہم اور ہمارے خاندان عیاشیاں کر رہے ہیں۔ ہم معزز بن کر پھرتے ہیں‘ پروٹوکول، ہٹو بچو، سب کچھ مل رہا ہے۔
اب بھی مشاہدہ کریں تو وہی حالت ملے گی کہ آپ آمریت سے بدترین جمہوریت کو بہتر سمجھتے ہیں۔ یہ سب خیالات مجھے اس وقت آرہے تھے جب میں ایک ٹی وی شو میں محمد مالک اور وزیر تعلیم شفقت محمود کے مابین گفتگو سن رہا تھا۔ شفقت صاحب کا موڈ خراب لگ رہا تھا‘ جووزیر بننے والے ہر اس فرد کا ہو جاتا ہے۔ اپوزیشن کے دنوں میں ملنسار ہوتے ہیں وزیر بنتے ہی سب راتوں رات بدل جاتا ہے۔ چہرے پر ہر وقت مصنوعی سنجیدگی طاری رکھنے کی پریکٹس کرنا پڑتی ہے‘ کچھ ڈانٹ ڈپٹ کرنا پڑتی ہے۔ شفقت محمود اُس وقت یہی کررہے تھے۔ بات شروع ہوئی تھی کہ بلوچستان سے ایک ٹھیکیدار عبدالقادر کو وزیراعظم عمران خان نے سینیٹ کا ٹکٹ دیا ہے اور اس پر بلوچستان کے گیارہ برس پرانے پارٹی کے رہنما احتجاج کررہے ہیں کہ وہ بندہ تیس برس بعد کوئٹہ آیا تھا اور اس سے پہلے اس کا نام کبھی تحریک انصاف میں نہیں سنا گیا تھا۔ موصوف پہلے شہباز شریف کے ساتھ تھے اور اب اچانک ان پر خان صاحب اس طرح مہربان ہو گئے جیسے وہ عثمان بزدار صاحب پر ہوگئے تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کوئٹہ میں سب کہہ رہے ہیں کہ وہ بھی ایک عدد تگڑی اے ٹی ایم ہیں‘ جبکہ چند دن پہلے ہی وزیراعظم نے قوم کو بتایا کہ سینیٹ کی ایک سیٹ کی بولی ستر کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔ اگلے دن ہی عبدالقادر کو ٹکٹ دے دیا گیا‘ جس پر پوری پارٹی حیران تھی کہ یہ کون ہیں؟ اس سوال پر شفقت محمود ناراض ہو گئے اور انہوں نے بلوچستان سے اپنی پارٹی کے رہنما پر چڑھائی کر دی کہ وہ وزیراعظم کے فیصلے پر تنقید کرکے پارٹی قیادت کو سرعام embarrassment کا شکار کر رہے تھے۔ اس پر محمد مالک نے پوچھا: عبدالقادر کی پارٹی کیلئے کیا خدمات تھیں کہ ٹکٹ دیدیا گیا؟ شفقت صاحب کا جواب بڑے مزے کا تھا کہ وزیراعظم کو پتہ ہوگا۔ اس پر محمد مالک نے پوچھا: آپ اس پارلیمانی بورڈ میں شامل ہیں جس نے یہ ٹکٹ عبدالقادر کو دیا‘ تو آپ نے وزیراعظم سے نہیں پوچھا کہ ان صاحب میں کیا خاص بات ہے جو اس پارٹی رہنما میں نہیں‘ جو گیارہ برس سے بلوچستان میں پارٹی کیلئے جان لڑا رہا ہے؟ کیا یہ بادشاہت ہے کہ صاحب نے کہہ دیا تو کہہ دیا اور کوئی جرأت نہ کرے پوچھنے کی؟ شفقت صاحب نے اس بلوچستانی پر چڑھائی جاری رکھی کہ یہ خود سینیٹ کا ٹکٹ لینا چاہتا تھا‘ نہیں ملی تواب ٹی وی پر قیادت کو قوم کے سامنے شرمندہ کررہا ہے۔
مطلب یہ تھا کہ جس نے گیارہ برس پارٹی کی بلوچستان میں خدمت کی اور اس نے سینیٹ کا ٹکٹ اپلائی کر دیا‘ اور اسے نہیں ملا تو اب بول رہا تھا‘ یعنی ایک بندہ گیارہ برس تک پارٹی کے لئے محنت کرے اور اس کی جگہ اگر کوئی ٹھیکیدار ٹائپ دائو لگا جائے تو اسے چپ رہنا چاہئے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ انتخابات سے قبل خان صاحب نے ایک جلسے میں کہا تھا کہ وہ اپنے پارٹی ورکرز سے توقع رکھتے ہیں‘ وہ ان کے غلط فیصلوں کو من و عن تسلیم نہیں کریں گے بلکہ اس پر بات کریں گے۔ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے انہوں نے کہا تھا: وفادار تو ان کا کتا بھی ہے جسے وہ کھلاتے ہیں اور وہی کچھ کرتا ہے جو وہ اسے کہتے ہیں‘ لہٰذا جمہوریت میں وفاداری سے زیادہ صحیح بات پر سٹینڈ لینا چاہیے اور آج تحریک انصاف کا لیڈر بلوچستان سے ایک ٹھیکیدار کو ٹکٹ ملنے پر بات کررہا تھا‘ تو شفقت محمود اس پر چڑھ دوڑے۔ شفقت صاحب اسے پارٹی سے وفاداری کا سبق سیکھا رہے تھے‘ وہی شفقت محمود جنہوں نے کبھی کسی سیاسی پارٹی یا لیڈر سے وفاداری نہ دکھائی۔ خود بینظیر بھٹو کی مہربانی سے پاور کوریڈور میں انٹری لی۔ انہی بینظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف سازش میں شریک ہوئے اور لغاری کے ذریعے حکومت برطرف ہوئی تو انہی لغاری صاحب کے وزیر لگ گئے۔ وہاں سے فارغ ہوئے تو جنرل مشرف کے مارشل لا میں وزیر لگ گئے۔ جنرل مشرف کے چل چلائو کا دور آیا تو لندن میں نواز شریف کی بلائی اے پی سی میں جنرل مشرف کے خلاف بھرپور تقریر کی‘ جو میں نے خود بیٹھ کر سنی تھی۔ اس دوران عمران خان کے خلاف انگریزی میں لکھنا شروع کیا تو خان صاحب سیانے نکلے اور بلا کر اپنے دفاع پر لگا دیا۔ وہی شفقت محمود جو عمران خان پر طالبان کا حامی ہونے پر برستے تھے‘ ان کی طالبان پالیسوں کا دفاع کرنا شروع ہو گئے۔ اب وہ بلوچستان سے پی ٹی آئی کے پرانے رہنما کو ٹکٹ نہ ملنے کے طعنے دے رہے اور احتجاج کرنے پر رگڑ رہے تھے‘ اور وہ بیچارہ صفائیاں پیش کر رہا تھا کہ کہیں اسلام آباد سرکار ناراض ہی نہ ہو جائے۔ اندازہ کریں‘ صفائیاں تو شفقت صاحب کو دینا چاہئے تھیں کیونکہ وہ اس پارلیمانی بورڈ میں شامل ہیں جس نے عبدالقادر کو ٹکٹ دی‘ لیکن یہاں اپنی صفائیاں وہ بے چارہ بلوچستانی دے رہا تھا۔
دوسری طرف حالت ملاحظہ فرمائیں کہ سرائیکی علاقوں کو ایک دفعہ پھر ٹھینگا دکھا دیا گیا ہے۔ سینیٹ میں سائوتھ پنجاب کو از کم تین سینٹرز ملنے چاہئیں تھے لیکن اب تک جو نام سامنے آئے‘ وہ سب اسلام آباد اور لاہور سے ہیں۔ اس سے پہلے 2018 میں اسی شہر لاہور کی 34 خواتین کو تحریک انصاف نے چپکے سے ایم این اے اور ایم پی اے بنا دیا تھا‘ باقی پورا پنجاب منہ تکتا رہ گیا اور لاہور کے پوش علاقوں کی پچاس بیگمات بڑے آرام سے پارلیمنٹ پہنچ گئیں۔ دنیا کا کوئی ایسا شہر ہوگا جہاں سے پچاس سے زائد خواتین پارلیمنٹ میں بیٹھی ہوں اور باقی صوبہ منہ تک رہا ہو۔ یہ سب خان صاحب نے اپنے دستخطوں سے کیا‘ جو اصلی تے نسلی جمہوریت کا نعرہ لگا کر سیاست میں طلوع ہوئے تھے۔ اصلی تے نسلی جمہوریت سے یاد آیا‘ بلوچستان میں سینیٹ کی سیٹ کا ریٹ ستر کروڑ بتا کر خان صاحب نے ٹکٹ بھی ایسے بندے کو دے دی ہے جس پر سب حیران ہیں کہ کون ہے اور اس نے خان صاحب کو کیسے قائل کر لیا؟
جو حیران ہیں کہ یہ عبدالقادر کون ہیں اور کہاں سے نازل ہوئے ہیں‘ جن کے بارے میں سوال پوچھنے پر جناب عزت ماب شفقت محمود ناراض ہو جاتے ہیں؟ ان کی اطلاع کیلئے عرض ہے ستر کروڑ کی جھوٹی سچی کہانی ایک طرف رکھیں صرف اس ایک نکتے پر غور کریں کہ یہ سب 'ع‘ کا کرشمہ ہے۔ ع سے عمران خان، ع سے عارف علوی، ع سے عثمان بزدار، ع سے عثمان ڈار اور اب ع سے ہی عبدالقادر۔ یہ سب 'ع‘ کا چکر ہے، 'ع‘ کا کرشمہ ہے۔
یہ سب معرفت کی باتیں ہیں آپ نہیں سمجھیں گے۔