وزیراعظم عمران خان نے اٹک میں خطاب کرتے ہوئے کچھ اہم باتیں کیں۔کہا کہ پچھلے تیس سالوں میں پاکستان کو لوٹا گیا اور پورے معاشرے کی اخلاقیات تباہ کر دی گئیں۔ایک دور تھا عمران خان صاحب اپوزیشن میں تھے تو وہ جو بات کہتے تھے یا دعویٰ کرتے تھے اس پر سوالات نہیں اُٹھتے تھے۔ تنقید نہیں ہوتی تھی۔ انہیں یہ ایڈوانٹیج تھا کہ وہ حکومت میں کبھی نہیں آئے تھے۔ نواز لیگ تین دفعہ تو پیپلز پارٹی چار دفعہ اقتدار لے چکی تھی۔ وہ پارٹیاں اب دعوے کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہی تھیں۔ اس کا فائدہ خان صاحب نے اٹھایا اور ہر وہ بات کہہ دی جو آج وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں نہیں کہنی چاہیے تھی۔
خان صاحب کو سب سے بڑا فائدہ ہائی مورال گرائونڈز لینے کا ہوا۔ وہ ہر بات پر ہائی مورال گرائونڈ لے لیتے کہ میں ہوتا تو یہ نہ کرتا، یہ نہ ہونے دیتا، چوروں ڈاکوئوں کو ساتھ ملا کر کبھی حکومت نہ کرتا‘ میں وزیراعظم ہوتا تو ایم این ایز سے بلیک میل نہ ہوتا، اپوزیشن میں بیٹھ جاتا لیکن کٹھ پتلی نہ بنتا۔ میں ہوتا تو پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکوؤں کے ساتھ کبھی الائنس نہ بناتا جیسے زرداری نے بنا لیا تھا۔ کسی فراڈیے کو وزیر نہ بناتا۔ اُن کی باتوں میں سب کو جان لگتی تھی‘سب کہتے تھے یہ بندہ جھوٹ نہیں بول رہا۔ یہ اگر اس ملک کا وزیراعظم بن گیا تو ملک میں چینی نظام بھی ہوگا، امریکن بھی ہوگا، مدینہ کی ریاست بھی ہوگی، یورپی نظام بھی ہوگا، ترکی کا تڑکہ بھی لگے گا، ملائیشیابھی ہوگا اور پھریہ ملک ترقی کرے گا۔
مجھے یاد ہے کہ اکثر لوگ ہمیں طعنہ دیتے تھے کہ آپ لوگ خان صاحب پر تنقید نہیں کرتے‘ وہ جو مرضی کہہ لیں ‘ ہم لوگ کھانس بھی لیں توہم پر برس پڑتے ہیں۔ میں اس وقت ایسے دوستوں کو یہی جواب دیتا تھا کہ خان صاحب جو چاہیں کہہ سکتے ہیں کیونکہ ابھی اونٹ پہاڑ کے نیچے نہیں آیا۔ ابھی اونٹ یہی سمجھتا ہے کہ وہ دنیا کی سب سے اونچی شے ہے۔ اس کے برابر کا کوئی نہیں۔ وہ اپنے اردگرد سب کو چھوٹا سمجھتا ہے۔ جس دن وہ پہاڑ تلے آئے گا تو اسے پتہ چلے گا کہ اس سے بھی اونچی چیزیں دنیا میں پائی جاتی ہیں۔ اُس وقت ہم کہتے تھے کہ عمران خان وہ فیصلے تو نہیں کررہے جس سے پاکستانی لوگوں پر اچھا یا برا اثر پڑتا ہے۔ تیل کی قیمت نواز شریف وزیراعظم ہو کر بڑھائیں تو ہم کیسے اس فیصلے پر اپوزیشن لیڈروں پر چڑھ دوڑیں؟ اپوزیشن کو ہمیشہ اس کا ایڈوانٹیج ہوتا ہے اور خان صاحب کو ڈبل ایڈوانٹیج تھا کہ وہ کبھی پاور میں نہیں رہے تھے‘ لہٰذا وہ عوام اور میڈیا کی سکروٹنی کا شکارنہیں ہوئے تھے۔
اپنے کزن ماجد خان کو کرکٹ ٹیم سے نکال دیا‘ اپنے کزنز حفیظ اللہ خان اور انعام اللہ کو تحریک انصاف میں ٹکٹ کے ایشو پر انکار کر دیا۔ ان باتوں سے لوگوں کو لگا کہ ان کے ہاں بڑا سخت میرٹ چلتا ہے اور وہ اپنوں کا بھی لحاظ نہیں کرتے۔ کرکٹ ٹیم میں پہلے سے یہ شہرت تھی کہ وہ کسی کا لحاظ نہیں کرتے۔ ایمانداری کا پہلے سے ڈنکا بج رہا تھا۔ رہی سہی کسر انہوں نے مسلسل نعرے مار کر پوری کر دی کہ وہ اخلاقیات اور میرٹ پر حکومت کریں گے۔ سوال یہ ہے کیا خان صاحب اخلاقیات کے اس پیمانے پر پورا اترے ہیں جن کا وہ نعرہ لگاتے تھے یا جن اخلاقیات کے بگاڑ کا رونا رو رہے تھے؟
وہ اپنے پہلے ہی امتحان میں فیل ہوئے جب انہوں نے چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ سیاسی اتحاد کر لیا۔ یہ وہی پرویز الٰہی تھے جنہیں وہ پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے۔ اب ان کے حامی فرماتے ہیں کہ جناب یہ سیاسی کھیل ہے۔ اگر وہ نہ کرتے تووہ حکومت نہیں بنا سکتے تھے۔ خان صاحب یا حکومت بنا لیتے یا سیاسی اخلاقیات بچا لیتے۔ خان صاحب فرماتے تھے کہ وہ بینک لوٹنے والوں سے پیسہ وصول کریں گے مگر فہمیدہ مرزا جنہوں نے سپیکر قومی اسمبلی ہو کر چوراسی کروڑ روپے بینک قرضہ معاف کرایا انہیں خان صاحب نے سب سے پہلے اپنی کابینہ میں وزیر کا حلف دلوایا۔ اعظم سواتی صاحب نے سیلاب کے دنوں میں مانسہرہ میں ایک ملین روپے کے جعلی نوٹ‘ جو شادیوں پر بچے استعمال کرتے ہیں‘ متاثرین کے لیے عطیہ کر دیئے۔ لاشوں کے ساتھ مذاق کیا گیا۔ وہ اب خان صاحب کی حکومت میں وزیر ہیں۔ وہ ایم کیو ایم جس کے خلاف مسلسل تقریریں کرتے رہے کہ وہ قاتلوں کی جماعت ہے ‘ آج اس کے رکن بھی ان کی کابینہ میں وزیر ہیں۔ پھر سب کہیں گے کہ سیاست میں کمپرومائز کرنا پڑتے ہیں‘ تو جناب پھر آپ بھی وہی کمپرومائز کررہے ہیں جو نواز شریف اور زرداری کیا کرتے تھے اور آپ انہی باتوں پر تنقید کرتے تھے اور خود ہائی مورال گرائونڈ لیے ہوئے تھے۔ اگر چودھری پرویز الٰہی پیپلز پارٹی حکومت میں وزیراعظم گیلانی کے ساتھ ڈپٹی وزیراعظم لگ جائیں تو وہ ''پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو‘‘ تھے‘ اگر عمران خان کے اتحادی بن جائیں تو وہ فوراً نیک پاک ہو جاتے ہیں۔ وہاں اخلاقیات کا بیڑا غرق نہیں ہوتا۔ اگر حفیظ شیخ پیپلز پارٹی کی طرف سے وزیر خزانہ ہوں تو ہمارے وزیر اعظم کے نزدیک وہ کرپٹ ٹولے کا حصہ ہیں‘ لیکن وہی حفیظ شیخ اپنے سابق وزیر اعظم گیلانی کے خلاف الیکشن لڑیں تو اخلاقیات کو بالکل کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔
نواز شریف اور زرداری دور میں سکینڈلز آ جائیں تو خان صاحب آسمان سر پر اٹھا لیں لیکن اپنے دور میں ان کے کئی وزیر شوگر سکینڈل میں ملوث پائیں جائیں تو کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ خود ایک غلط فیصلہ کر کے گندم باہر بھیج دیں اور اگلے سال اربوں روپے روسی کسانوں کو ادا کر کے چالیس لاکھ ٹن واپس منگوا لیں تو بھی خیر ہے۔ اسی طرح چینی باہر بھیج کر اربوں روپے شوگر مافیا کما لے تو خیر ہے کیونکہ ان کی اپنی پارٹی اور وزیروں کی شوگر ملیں ہیں جیسے فہمیدہ مرزا، خسرو بختیار خاندان، مونس الٰہی، جہانگیر ترین۔ خان صاحب کی کابینہ فیصلہ کرتی ہے کہ اربوں روپوں کی سبسڈی ان سب کی ملوں اور دیگر کی ملوں کو دینی ہے اور پنجاب میں مخدوم خسرو بختیار کا وزیرخزانہ بھائی ہاشم بخت اپنے ہاتھوں سے چیک کاٹ کر پچاس کروڑ روپے اپنے بھائی مخدوم شہریار کی مل کو دیتا ہے‘ جبکہ جہانگیر ترین خود پچاس کروڑ لیتے ہیں اور ان کے ماموں شمیم خان چھپن کروڑ لے جاتے ہیں۔ یہ سب مخدوم بیٹھ کر کروڑوں آپس میں بانٹ لیتے ہیں تو بھی اخلاقیات پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
خان صاحب خود اپنے ذاتی یار دوست کابینہ میں وزیر بنا دیں تو بھی ان کی اخلاقیات کو مسئلہ نہیں ہے لیکن اگر زرداری اپنے دوستوں کو لگا دیں تو خان صاحب گھنٹوں اس پر تقریریں کر سکتے ہیں اور اخلاقیات کا پرچار کر سکتے ہیں۔ خان صاحب لوگوں پر دھاک بٹھانے کے لیے ماجد خان، حفیظ اللہ خان، انعام اللہ خان کو ٹیم اور پارٹی سے نکال سکتے ہیں لیکن اگر کوئی ہلکی سی ضابطے کی ہی کارروائی کرنا چاہے تو پورے ادارے کی سختی آ جاتی ہے۔ اس وقت سب اخلاقیات کے بھاشن ہوا میں اڑ جاتے ہیں۔
اپنے خان صاحب کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ سب کو اخلاقیات کا پابند سمجھتے ہیں لیکن وہی اخلاقیات ان کے اپنے نزدیک اہم نہیں ہیں۔ جن اخلاقیات کا جھنڈا لے کر وہ نکلے تھے وہ آج سب ایک ایک کر کے مر چکی ہیں‘ لیکن داد دیں خان صاحب کو وہ اب بھی ان اخلاقیات کی بربادی کا رونا رہے ہیں جو اِن کے اپنے دور میں سنورنے کے بجائے مزید برباد ہوئی ہیں۔ ایسے فن اور فنکار پاکستان کے علاوہ بھلا اور کہاں پائے جاتے ہیں۔