"RKC" (space) message & send to 7575

واردات اور وارداتیے

حفیظ شیخ صاحب کو ذاتی طور پر وزارت سے ہٹائے جانے سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ وہ نہ پہلی دفعہ وزیر لگنے آئے تھے نہ آخری دفعہ۔ وہ ہر دفعہ‘ ہر حکومت میں کوئی نہ کوئی راستہ اپنے لیے ڈھونڈ لیتے ہیں۔وہ جنرل مشرف دور میں وزیر بنے تو اُس وقت بھی ان کے پیچھے کچھ اور لوگ تھے اور جب ان کا میچ آصف زرداری کے قریبی وزیر ڈاکٹر عاصم حسین سے پڑا اور انہیں ہٹانا پڑ گیا تھا تو بھی ان کے حمایتی کچھ اور لوگ تھے۔ تاہم حفیظ شیخ کا عمران خان کی کابینہ میں وزیرِخزانہ لگنا کچھ لوگوں کو حیران کر گیا کیونکہ ان کی خان صاحب تک براہ راست رسائی نہ تھی۔اُس وقت اسد عمر وزیرخزانہ تھے جن کی جہانگیر ترین سے ایک طرح کی ذاتی دشمنی چل رہی تھی۔ ترین نے کابینہ میں اپنا ایک تگڑا گروپ وزیروں کا بنایا ہوا تھاجو ہر اس وزیر کو ٹف ٹائم دیتا تھا جو ان کی پالیسی یا مفاد کے خلاف جاتا تھا۔ اسد عمر پر ان دنوں دبائو تھا کہ وہ چینی کی ایکسپورٹ کی اجازت بھی دیں اور اس پر سبسڈی بھی دیں۔ ترین گروپ کا یہ کہنا تھا کہ چینی بہت وافر مقدار میں موجود ہے ‘لہٰذا دس لاکھ ٹن چینی باہر بھجوا دی جائے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ وزیر خزانہ یہاں تک تو راضی تھے کہ دس لاکھ ٹن باہر بھیج دو لیکن وہ کیش سبسڈی پر تیار نہیں تھے۔ یوں ترین صاحب ان سے نا خوش تھے بلکہ یوں کہیں کہ پورا شوگر سیکٹر ان سے ناخوش تھا۔ تاہم شوگر لابی نے پہلی سمری ریجیکٹ ہونے پر ہمت نہیں ہاری اور شوگر ایڈوائزی بورڈ میں رزاق دائود کے ذریعے یہ جھوٹے اعدادوشمار پیش کرا دیے کہ ملک میں بیس لاکھ ٹن تک چینی وافر پڑی ہے اور اگلے دو ماہ میں کرشنگ سیزن آنے والا ہے لہٰذا پرانا سٹاک باہر نہ بھیجا گیا تو شوگر ملز کسانوں کو ادائیگیاں نہیں کر سکیں گی اور یوں ایک بڑا بحران پیدا ہوجائے گا۔ وزیر خزانہ کو پتہ تھا کہ شوگر سیکٹر کی ان کوششوں کے پیچھے جہانگیر ترین تھے ‘لہٰذا وہ ان سب کوششوں کو ناکام بنائے ہوئے تھے۔ مسئلہ وہی تھاکہ علاقے کا تھانیدار کون ہے؟ چودھراہٹ کس کی چلے گی؟
تاہم جب ترین کا دبائو بڑھا تو اسد عمر نے اسی شوگر سیکٹر کو وہ سب کچھ تھالی میں رکھ کر پیش کر دیا جس کی شوگر ملز والوں نے بھی توقع نہیں کی تھی۔ پہلے تو اسد عمر مان گئے کہ شوگر ایکسپورٹ ہوگی‘بلکہ یہ کہا کہ دس لاکھ نہیں بلکہ گیارہ لاکھ ٹن ایکسپورٹ ہوگی۔ پھر یہ کہ اس پر نقد سبسڈی بھی ملے گی جو صوبے دے سکتے ہیں اور شاہد خاقان عباسی دور کے رُکے ہوئے اربوں روپے بھی ریلیز ہوں گے۔ یوں اسد عمر سے جہانگیر ترین نے وہ سب کام کروالئے جو وہ کچھ دن پہلے تک کرنے کے خلاف تھے۔ لیکن یہ بات طے تھی کہ دونوں اکٹھے نہیں چل سکتے تھے۔ دونوں کو عمران خان کی قربت کا دعویٰ تھا لیکن ان دونوں کو پتہ نہ تھا کہ خان صاحب کچھ اور طبیعت کے مالک ہیں اور انہوں نے زندگی میں کبھی کسی کو نہ اپنی کمزوری بننے دیا اور نہ ایسے تعلقات رکھے جنہیں وہ پانچ سیکنڈ سے زیادہ دیر میں نہ توڑ سکیں۔
پھر وہی ہوا کہ پہلے اسد عمر گئے اور پھر جہانگیر ترین گئے۔ دونوں نے اپنی لڑائی میں اپنا ہی نقصان کر لیا۔ بھائی چارے سے رہتے تو دونوں کا کام چلتا رہتا۔ اگر آپ کو یاد ہو تو فواد چودھری نے سہیل وڑائچ سے انٹرویو میں کہا تھا کہ تحریک انصاف کے اندر سازشیں ہوتی رہتی ہیں۔ فواد چوہدری نے جہانگیر ترین‘ اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کا نام لیا تھا کہ یہ ہر وقت ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ کابینہ اجلاس میں اسد عمر اور شاہ محمود قریشی نے فواد چودھری کے اس بیان پر احتجاج کیا تو فواد نے کابینہ میں وزیر اعظم کی موجودگی میں دونوں کو کہا کہ کیا وہ غلط کہہ رہے ہیں؟ کیا وہ ایک دوسرے کے خلاف سازشیں نہیں کرتے رہے ؟ پہلے اسد عمر کو ترین نے نکلوایا تو اسد عمر نے کابینہ میں لوٹ کر جہانگیر ترین کی چھٹی کرادی۔ میرے ذرائع یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حفیظ شیخ کو وزیرخزانہ بنوانے میں جہانگیر ترین کا بڑا ہاتھ تھا۔ ترین کا طاقتور لوگوں سے رابطہ تھا جو اس ملک کے فیصلے کرتے ہیں۔ اسد عمر کے بعد وزیرخزانہ کی تلاش شروع ہوئی تو اس وقت شوکت ترین کا نام سامنے آیا۔ جہانگیر ترین اور دیگر چاہتے تھے کہ شوکت ترین کو لایا جائے۔ شوکت ترین اس سے پہلے پیپلز پارٹی دور میں بھی وزیرخزانہ کے طور پر کام کرچکے تھے۔ ان کی قابلیت پر کسی کو شک نہ تھا اور اس نام پر سب تیار بھی تھے لیکن شوکت ترین خود تیار نہ ہوئے۔ یوں قرعہ ٔفال حفیظ شیخ کے نام نکلا جو جہانگیر ترین کے ساتھ شوکت عزیز کی کابینہ میں کام کرچکے تھے۔ حفیظ شیخ بڑے سمجھدار آدمی ہیں‘ انہیں پتہ ہے کہ اس ملک میں کون طاقتور ہے اور کس کے ساتھ بنا کر رکھنی ہے۔
اب سوال یہ ہے کیا حفیظ شیخ کے ہٹنے سے مہنگائی کم ہوگی یا معاملات ٹھیک ہو جائیں گے؟ یہ انسانی نفسیات ہے کہ وہ تبدیلی کے نام پر چکر میں آجاتے ہیں۔ گھر کے پردوں کا رنگ ہی بدل دیں تو بھی کئی دن نیا پن محسوس ہوتا ہے۔ اس طرح اگر کچھ نام بدل دیے جائیں یا انہیں ہٹا کر کوئی نیا چہرہ لایا جائے تو لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ شاید اب کچھ نیا ہوگا‘ کچھ بہتر ہوگا۔ دوسرا حکومت کو کچھ وقت مل جاتا ہے کہ وہ لوگوں اور میڈیا کو بتا سکتی ہے کہ دیکھیں نیا بندہ آیا ہے اسے کچھ وقت تو دیں۔ پھر ساتھ میں پرانے بندے کو سزا دینے کا تاثر بھی چلا جاتا ہے جس سے عوام خوش ہوجاتے ہیں۔ لوگ پرانے سکینڈلز بھی بھول جاتے ہیں۔ عوام کو اپنے دکھوں کے مداوے کے لیے کچھ تو چاہیے‘ وہ اس پر بھی خوش ہوجاتے ہیں کہ جس وزیر نے ان پر مہنگائی کا بم دے مارا تھا وہ اب کابینہ میں نہیں رہا۔ اب اس وزیر نے خود اور اپنے دوستوں کو کیا کھلایا پلایا اس کی اہمیت نہیں رہ جاتی۔ ابھی ندیم بابر کو دیکھ لیں کہ ایک طرف ہمیں کہا جارہا ہے کہ اربوں روپے کا آئل سکینڈل ہوا یا دوسرے لفظوں میں پٹرول کرائسس کی شکل میں اربوں روپے عوام کی جیبوں سے نکال لیے گئے لیکن ساتھ یہ بھی مسلسل کہا جارہا ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ندیم بابر پر کوئی الزامات ہیں۔ حکومت فرما رہی ہے کہ ندیم بابر صاف اور شفاف ہیں۔ بھئی اگرصاف اور شفاف ہیں تو پھر ان اربوں روپے کے سکینڈلز کا ذمہ دار کون ہے جن کا انکوائری رپورٹ میں ذکر ہے؟ عوام کی جیب سے یہ اربوں کون نکال لے گیا؟ اگر ندیم بابر اس کے ذمہ دار نہیں تو پھر کون ہے ؟
یہ وہ باریک واردات ہے جس پر سب خوش ہیں۔ عوام بھی خوش ہیں کہ جس کی وجہ سے ان کے اربوں روپے جیب سے نکل گئے وہ اب کرسی پر نہیں رہا‘ حکومت خوش ہے کہ کوئی اس سے نہیں پوچھ رہا کہ اگر ندیم بابر کو آئل کرائسس کی وجہ سے نہیں نکالا گیا تو پھر کیوں نکالا؟ اگر وہ ان اربوں روپے سکینڈل کے ذمہ دار ہیں تو پھر ان پر ایف آئی اے یا نیب نے مقدمہ کیوں درج نہیں کیا ؟ اندازہ کریں ایک طرف مان لیا گیا ہے کہ اربوں روپے کا سکینڈل ہوا ہے اور دوسری طرف کہا جارہا ہے کہ اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں۔ شاید عوام کا قصور ہے جو پٹرول پمپس پر پٹرول لینے گئے تھے۔
یہ ایسی واردات ہے جو اتنی ہوشیاری سے کی جاتی ہے کہ بڑے بڑے وارداتیے بھی اس کو نہ پکڑ سکیں‘اُلٹا انہی عوام سے داد وصول کی گئی جن کی جیبوں سے آئل بحران کے نام پر اربوں روپے نکال لئے گئے تھے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں