جب امر شاہد نے مجھے فون کر کے کہا: یہ حکم شکیل عادل زادہ صاحب کا ہے‘ تو مجھے لگا شاید مجھے سننے میں غلطی ہوئی ہے۔ میں نے دوبارہ پوچھا تو ہنس کر امر شاہد نے کہا: جی یہ شکیل صاحب کا ہی حکم ہے۔
شکیل عادل زادہ صاحب نے روسی ادبی تاریخ کے بڑے ناولز میں سے ایک ''ڈاکٹر زواگو ‘‘کے بارے امر شاہد اور گگن شاہد کو کہا تھا کہ اس کے اردو ترجمہ کا بیک کور تعارف رئوف سے لکھوائیں۔ یہ ناول شکیل عادل زادہ کی فرمائش پر چھاپا جا رہا تھا۔ اس کا اردو ترجمہ صحافی یوسف صدیقی صاحب نے کیا تھا جو شکیل صاحب کو بہت پسند تھا۔ اسی ادارے نے ابھی سب رنگ سیریز چھاپنا شروع کی ہے اور یہ بھی مذکورہ دونوں بھائیوں ہی کا کمال ہے کہ انہوں نے اپنے معیار سے شکیل عادل زادہ جیسے مسٹر پرفیکٹ کو خوش کر دیا۔ وہ شکیل عادل زادہ جو تین تین سال سب رنگ کا شمارہ نہ چھاپتے جب تک ایک ایک لفظ سے وہ اور ادارتی ٹیم مطمئن نہ ہو جاتے۔ جو ''ذاتی صفحہ‘‘ میں لکھتے کہ کیسے وہ چاہیں تو باقی ڈائجسٹ مالکان کی طرح لاکھوں میں کھیل سکتے تھے۔ سیانوں نے سمجھایا،لالچ دیا،طریقے بتائے کیسے سب رنگ ہر ماہ ریگولر چھپ سکتا ہے‘ مال بنایا جاسکتا ہے۔گھر بیٹھ کر مزے کریں، خود تنگ ہوں نہ ادارتی ٹیم کو کریں۔ چھوڑیں یہ زیرو ٹالرنس پالیسی۔ کون سا آسمان گر پڑے گا اگر کچھ کہانیاں آگے پیچھے ہو گئیں۔ مال کا خریدار بازار میں موجود ہے تو سودا بیچو۔ یہی اچھے تاجر کی خوبی ہے۔ پوچھا: کرنا کیا ہو گا، جواب ملا بس کوالٹی پر کمپرومائز کر لو۔ ہر کہانی پر نہ بیٹھ جائو۔ ہر لفظ کو ڈکشنری لے کر تولنا شروع نہ کردو۔ مسکرا کر سب کی سنتے رہے اور بولے: یہی تو نہیں ہوسکتا۔ یوں سب رنگ پہلے ایک ماہ لیٹ ہوا تو پھر بات تین سال تک جا پہنچی۔ داد دیں دیوانوں کو جو تین سال تک بھی رسالے کا انتظار کرتے۔شکیل عادل زادہ اور سب رنگ سے ایک سبق سیکھا کہ اگر پراڈکٹ میں جان ہے تو لوگ تین سال تک نام نہیں بھولیں گے اور انتظار کریں گے۔ زندگی میں اگر برانڈ بننا ہے تو پھر کوالٹی پر جائو۔ اور پھر ڈھلتی عمر کے ساتھ شکیل عادل زادہ نے بھی سمجھدار لوگوں کی باتیں مان لیں اور اپنی پہلی محبت کسی اور کے حوالے کر کے خود بٹھل کے لاڈلے بابر زمان خان کے ساتھ کورا کو ڈھونڈنے ایسے نکلے کہ آج تک واپس نہیں لوٹے۔
جونہی سب رنگ کمرشل ہوا اور معیار پر کمپرومائز تو ساتھ ہی پورا سب رنگ دھڑام سے نیچے آن گرا۔ رسالہ تو ہر ماہ ملنے لگا لیکن وہی حال ہوا
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی/ نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں
اور یوں ایک دن سب رنگ مرگیا۔ ہم سب کو لگا گھر کا کوئی فرد اس جہاں سے اٹھ گیا ہو۔ دل کیا دھاڑیں مار کر روئیں۔ کسی کے کندھے پر سر رکھ کر کچھ آنسو بہائیں لیکن کون دلاسا دے۔ اندازہ ہوا کیسے بدنصیب تھے ہم کہ چاہتے تھے سب رنگ ہر ماہ ملے۔چلیں دو سال بعد ہی سہی مل تو رہ رہا تھا۔ ہماری خواہشات سب رنگ کا سر لے گئیں۔ گوتم بدھ یاد آئے‘ انسان کی سب سے بڑی دشمن اس کی اپنی خواہشات ہیں۔
اب اسی شکیل عادل زادہ کا پیغام امر شاہد دے رہا تھا کہ شکیل بھائی کہتے ہیں رئوف کو کہو وہ عظیم ناول ''ڈاکٹر زواگو‘‘ کے بیک کور کے لیے کچھ لکھے۔مجھے خاموش پا کر امر شاہد بولا: شکیل بھائی نے شاید دو تین کتابوں پر آپ کے لکھے بیک کور پڑھے ہیں۔ انہیں پسند آئے ہیں۔ یہ ناول ''ڈاکٹر زواگو‘‘انہیں بہت پسند ہے۔ انہوں نے خود ہی فہرست بنا کر دی ہے کہ اس ناول پر کون کون کیا کام کرے گا۔ سینئر جرنلسٹ عارف الحق عارف سے کیلی فورنیا سے مترجم یوسف صدیقی پر لکھوایاگیا تو میرے ذمے بیک کور لکھنا لگایا گیا۔ مجھے اچانک خود پر منوں بوجھ محسوس ہوا کہ بھلا کیسے شکیل عادل زادہ کے معیار پر پورا اتر پائوں گا۔ اب شکیل عادل زادہ اپنے پسندیدہ ناول اور پسندیدہ اردو مترجم یوسف صدیقی کے کام کو دوبارہ اچھی حالت میں دیکھنے کے خواہاں تھے تو یقینا ان کے دل و دماغ میں اس ناول کی کوئی تصویر ہوگی کہ اسے اب کیسے چھپنا ہے۔ ایک نوجوان ڈاکٹر یوری اور لارا کی محبت کی لازوال داستان کو کس شکل میں دنیا کے سامنے لانا ہے۔امر شاہد نے پھر فون کیا‘ میں نے کہا: مجھے ناول پڑھنے دیں‘ پڑھ کر ہی کچھ لکھ سکوں گا۔ روسی ناول پڑھنا اس لیے بھی مشکل کام ہے کہ ان کے روسی نام نہ صرف طویل ہیں بلکہ ان کا تلفظ ادا کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہوتا ہے اور قاری کنفیوز ہوجاتا ہے لیکن جوں جوں ناول آگے بڑھتا گیا کہانی بڑھتی چلی گئی تو اندازہ ہوا کہ روسی انقلاب کے پس منظر میں لکھا گیا یہ ناول روسی بالشویک انقلاب کیلئے کیسے بڑا خطرہ بن گیا تھا۔ وہ انقلاب جس میں روسی بادشاہ اپنے بچوں سمیت مارا گیا وہ اپنے ساتھ کیسا خون خرابہ لایا‘ اسے پڑھ کر آپ کا دل انقلاب سے بھر جاتا ہے۔ لفظ انقلاب سے لوگ سمجھتے ہیں کہ راتوں رات ان کی زندگیاں بدل جائیں گی لیکن یہ کوئی نہیں جانتا انقلاب خون سے ہی جنم لیتا ہے اور اپنے بچوں سے ہی خون مانگتا ہے اور وہی ہوا‘ روسی بالشویک انقلاب تو لے آئے لیکن پھر انہیں خون دینا پڑا ۔ یہ ناول اسی انقلاب کی کہانی ہے۔ بہت کم تحریریں یا ناول ہوتے ہیں جو دو سلطنتوں کے درمیان سرد جنگ کی وجہ بن جائیں۔ ''ڈاکٹر زواگو‘‘ سرمایہ دارانہ امریکی نظام اور کمیونسٹ روس کے درمیان لڑائی کی وجہ بنا۔ اس ناول میں انقلاب کی تباہ کاریاں دکھائی گئی ہیں جن کا عالمی دنیا کے سامنے منظر عام پر آنا روسی انقلاب کے حامیوں کے نزد یک خطرناک تھا جبکہ امریکی پوری کوشش کر رہے تھے کہ کس طرح یہ ناول روس سے سمگل ہو تاکہ وہ اسے خود چھپوا کر دنیا میں بانٹ سکیں کہ دیکھو سوشلسٹ اور کمیونسٹ انقلاب کی کیا شکل ہوتی ہے اور انسانوں پر کیا گزرتی ہے۔ آخر ناول روس سے سمگل ہوا‘ سی آئی اے نے راتوں رات اسے چھپوا کر دنیا بھر میں پھیلایا اور لوگوں نے اس ناول کو پڑھا اور اگلے سال اسے نوبل انعام ملا۔
اس ناول کو پڑھتے ہوئے آپ کی روح کئی مراحل سے گزرتی ہے۔ روس کے برف پوش علاقوں کی منظر نگاری ہو یا سفید دھواں چھوڑتی چھک چھک کرتی جنگلوں سے گزرتی ٹرین کی سیٹی کی آواز یا ڈاکٹر زواگو، تانیا، ساشا اور لارا کا دکھ۔ یہ سب آپ کی روح کے اندر تک بسیرا کر جاتے ہیں۔ کئی دن تک میں ناول پڑھتا رہا اور انتظار کرتا رہا کہ امر شاہد تنگ آکر کہے گا کہ وہ میرے بیک کور لکھے بغیر ہی ناول چھاپ دے گا لیکن امر شاہد باز نہیں آیا۔ ایک دن کہنے لگا: صاحب آپ کچھ کر لیں ناول آپ کے بیک کور تعارف بغیر نہیں چھپے گا۔ یہ حکم آپ کے مرشد شکیل عادل زادہ کا ہے۔قلم اٹھایا اور چند الٹی سیدھی لکیریں کھینچ کر امر شاہد کو بھیج دیں۔ دل دھڑکنے لگا کہ ہمارے دور کے بڑے بازی گر شکیل عادل زادہ جو تین تین سال ایک ایک کہانی اور ایک ایک لفظ پر بیٹھ جاتے تھے وہ لیہ کے ایک دوردراز گائوں کے ٹاٹ سکول سے پڑھے ایک پینڈو کی تحریر پر کیا تبصرہ کرتے ہیں۔جب تک امر شاہد کا جواب نہیں آیا دل دھڑکتا رہا۔ امر شاہد کے فون پر جواب سے مجھے تسلی نہ ہوئی تو کہا ‘واٹس ایپ پر شکیل عادل زادہ صاحب کا وہ کمنٹ بھیجو۔ امر شاہد نے سکرین شاٹ لے کر بھیجا جو میرے بیک کور کو پڑھ کر شکیل عادل زادہ صاحب نے لکھا تھا ''بہت خوب‘‘۔
پتہ نہیں کیوں اپنے گائوں کے 1970ء کی دہائی کے پرائمری سکول کی گرم دوپہر یاد آئی جب ماسٹر گل محمد ونجیھیرہ صاحب گرمیوں میں اکیلے درخت کی ادھوری چھائوں تلے مٹی پر بیٹھے ہم لڑکوں کو دھیرے دھیرے چلتے چلتے تختی پر املا لکھواتے تھے۔ یوں لگا ٹاٹ سکول سے شروع کیا گیا چالیس برس پہلے کاسفر اور عمر بھر کی ریاضت صرف اس ایک لفظ کیلئے تھے۔ یوں لگا پورا جہاں اس ایک لفظ میں سمٹ آیا تھا ۔ لفظوں کی طاقت اور ان میں چھپا جادو مجھے پہلی دفعہ سمجھ آئے تھے۔