یہ بات طے ہے‘ جھوٹ بولے بغیر کوئی حکومت چلتی ہے‘ نہ ہی لوگ خوش ہوتے ہیں۔ اسلام آباد میں رپورٹنگ کرتے تئیس برس گزر گئے اور اب تک کئی وزرائے اعظم آتے جاتے دیکھ چکا ہوں‘ لیکن دل میں حسرت ہی رہی کہ کوئی تو اس ملک کے عوام کے ساتھ سچ بول کر دیکھتا۔ نواز شریف (دوسری دفعہ)، جنرل پرویز مشرف، ظفراللہ جمالی، شوکت عزیز، چوہدری شجاعت حسین، آصف علی زرداری، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، نواز شریف (تیسری دفعہ)، شاہد خاقان عباسی اور اب عمران خان کا دور دیکھ رہا ہوں اور بڑے قریب سے یہ سب ادوار دیکھے ہیں۔ دل میں حسرت ہی رہی کہ کوئی ایک تو سچا ہوتا چاہے اس کی اسے قیمت ہی بھگتنا پڑتی۔
سوچتا ہوں‘ کیا وجہ ہے کہ حکمران ڈرامے کرتے اور جھوٹ بولتے ہیں؟ بڑی مزے کی بات یہ ہے لوگ اس جھوٹ پر اعتبار بھی کر لیتے ہیں اور اسے پسند بھی کرتے ہیں۔ عوام کو پتہ ہوتا ہے کہ ان سے جھوٹ بولا جا رہا ہے لیکن ان کے اندر کوئی احساس ہوتا ہے کہ وہ یہ جھوٹ سننا چاہتے ہیں۔
اگر آپ کو یاد ہو تو پچھلے برس اچانک ٹی وی چینلز پر بریکنگ خبریں چلنا شروع ہو گئی تھیں کہ برطانیہ کے ہائی کمیشن میں پڑے پاکستان کے ملین ڈالرز اچانک ضبط کر لیے گئے تھے اور تاثر یہ دیا گیا تھا کہ حکومت کو اس کا علم ہی نہیں تھا۔ ہائی کمیشن کے اس فارن کرنسی اکائونٹ میں پیسے پڑے تھے کہ اچانک براڈ شیٹ کے مالک نے عدالت سے حکم لے کر وہ سب پیسہ ضبط کرا لیا اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ اس پر پاکستان میں بڑی لے دی شروع ہو گئی کہ یہ کیسے ہو گیا۔ کوئی دور کی کوڑی لایا کہ جناب ان اکائونٹس کو سفارتی پروٹیکشن ہوتی ہے‘ کوئی ایرا غیرا نتھو خیرا یوں اٹھ کر اسے ضبط نہیں کرا سکتا‘ برطانوی حکومت سے احتجاج کریں۔ کسی نے فرمایا کہ یہ پیسے اکائونٹ میں رکھے ہی کیوں تھے جب پتہ تھا کہ براڈ شیٹ کے ساتھ مقدمہ چل رہا تھا۔ حکومت اس پورے معاملے میں یوں اداکاری کر رہی تھی کہ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب وہ اربوں روپے اکائونٹ سے نکل کر کسی اور کے اکائونٹ میں ٹرانسفر ہو گئے۔ اس وقت حکومت اور سرکاری کارندے خاموش ہوگئے تھے کہ لوگوں کو اندازے لگانے دیں۔ انگریز سرکار کی عدالتوں کو برا بھلا کہنے دیں جو پاکستان جیسے ملکوں ساتھ زیادتی کرتی ہیں اور ہم جیسے غریبوں کا پیسہ زبردستی رکھ لیا جاتا ہے۔
اب میں نے جمعہ کے روز نئے بجٹ کی دستاویزات پڑھنا شروع کیں تو انکشاف ہوا کہ یہ سب ڈرامہ تھا جو حکومت نے خود رچایا تھا لیکن عوام کو یہ باور کرایا گیا کہ حکمرانوں کو علم نہ تھاکہ اس اکائونٹ میں پیسے پڑے ہیں۔ بجٹ دستاویزات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دراصل حکومت نے خود ہی براڈ شیٹ ساتھ معاہدہ کیا تھاکہ وہ آئوٹ آف کورٹ تیس ملین ڈالرز دے گی۔ اس مقصد کیلئے نیب نے باقاعدہ ایک سمری بنا کر لاء ڈویژن کو بھیجی کہ ہمیں اربوں روپے دیں‘ براڈ شیٹ کو دینے ہیں۔ لا ڈویژن وہ سمری لے کر ای سی سی کے پاس گئی اور وہاں سے یہ سمری وزیرِ خزانہ حفیظ شیخ نے منظور کی۔ ای سی سی سے منظور ہونے کے بعد یہ فیصلہ وزیراعظم کے پچاس وزیروں کے پاس پہنچا جنہوں نے یہ منظوری دی کہ اس فرم کو فوری طور پر اربوں کی ادائیگی کی جائے۔ اب بجٹ میں اس وقت ساڑھے چار ارب روپے کی ایسی رقم کی منظوری یا موجودگی نہ تھی لہٰذا سپلیمنٹری گرانٹ منظور کرائی گئی۔
یہ رقم فارن آفس کو دی گئی اور کہا گیا کہ فلاں اکائونٹ میں رکھوا دیں۔ ساتھ ہی براڈ شیٹ کو پیغام بھیجا گیا کہ وہ اس اکائونٹ سے پیسے نکلوا لے۔ جب براڈ شیٹ نے پیسے نکلوا لیے اور حکومت کو پوری تسلی ہو گئی کہ مال براڈ شیٹ تک پہنچ گیا ہے تو پاکستانی عوام کو بیوقوف بنانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ پورے ملک کے میڈیا کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا‘ اس سے پہلے کہ میڈیا یہ سکینڈل بریک کرے کہ اتنی بڑی رقم برطانیہ میں ایک ایسی کمپنی کو ادا کی گئی جس کا ریکارڈ اچھا نہیں تھا اور ماضی میں بھی وہ کمپنی سیٹلمنٹ کے نام پر پیسے لے چکی تھی اور اب دوسری دفعہ پیسے لے رہے تھی۔
اس فیصلے کو چیلنج کرنے کے بجائے الٹا اس پارٹی کو کل ساٹھ ملین ڈالرز کے قریب ادائیگی کی جا رہی تھی لیکن میڈیا کو یوں خبریں لیک کی گئیں جیسے اچانک ہی پاکستانی پولیس انداز میں چھاپا پڑا تھا اور گورے سب پیسے نکال کر لے گئے تھے۔ یوں میڈیا کو اس انداز میں استعمال کیا گیا جیسے پی ٹی آئی حکومت کو کچھ پتہ نہیں چلا اور اچانک ان کے اکائونٹ سے اربوں روپے نکال لیے گئے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سب پراسیس حکومت نے خود کیا تھا۔ چیئرمین نیب، وزیر قانون فروغ نسیم، وزیرخزانہ حفیظ شیخ، وزیراعظم عمران خان کے علاوہ ای سی سی میں بیٹھے دو درجن وزراء اور کابینہ کے پچاس وزیروں کو پورا علم تھا کہ چار ارب روپے منظور کرکے لندن بھیجے جا رہے ہیں۔ لیکن سب نے مل کر وہ اداکاری کی کہ پوری قوم کی آنکھوں میں آنسو آگئے کہ دیکھو ہمارے ساتھ گوروں نے زیادتی کی کہ پتہ بھی نہیں چلنے دیا اور ہمارے اربوں روپے اچانک ہڑپ کر لیے۔ آسکر ایوارڈ کی اصل حق دار شاہ محمود قریشی کی وزارت خارجہ ٹھہری۔ جب یہ خبریں جان بوجھ کر میڈیا کو ریلیز کرائی گئیں تو سب سے بڑا رونا دھونا اور اداکاری فارن آفس اور اس کے بابوز نے شروع کی۔ وہاں سے یہ ماتم کرایا گیا کہ دراصل وہ سب پیسے ہائی کمیشن میں موجود ملازمین کی تنخواہوں کے تھے جو اب ضبط ہوگئے ہیں۔ سب کی آنکھوں سے پھر آنسو ٹپکے کہ بیچارے ہائی کمیشن کے ملازمین اب کیا کریں گے۔ وہ کہاں سے کھائیں اور کیسے گھر چلائیں گے کیونکہ ان کی تنخواہیں تو براڈ شیٹ چھاپہ مار کر لے گئی ہے۔
چاہئے تو یہ تھا کہ حکومت اس پر فوراً پریس ریلیز جاری کرتی، نیب اپنا علامیہ جاری کرتا، حکومت کا کوئی ترجمان سامنے آتا اور قوم کو بتاتا کہ اربوں روپوں کا چونا کیسے لگا تھا اور ہم کس کو کیوں ادائیگی کر رہے تھے‘ الٹا اس پر خاموشی اختیار کرکے یہ تاثر مزید گہرا کیا گیا کہ ادائیگی نہیں کی گئی بلکہ پاکستان کے ساتھ ظلم ہو گیا ہے۔ یہ تاثر پاکستانی حکمرانوں اور بیوروکریسی کو سوٹ کرتا تھا کہ وہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہیں کیونکہ یہ ایسا انوکھا سکینڈل ہے جس میں کئی بڑے بڑے نام پھنستے ہیں‘ جنہیں بعد میں شیخ عظمت سعید صاحب کی سربراہی میں بنے کمیشن کی رپورٹس میں کلین چٹ دے دی گئی۔ مزے کی بات یہ ہے اس انکوائری رپورٹ کے ٹی او آرز میں سب کچھ تھا لیکن یہ نہیں تھاکہ اربوں روپوں کی ادائیگی کس نے اور کیوں کرائی اور کیسے پیسے پاکستان سے ٹرانسفر کراکے براڈ شیٹ کو کہا گیاکہ اب تم نکلوا لو کیونکہ اس معاملے میں موجودہ حکومت پھنستی تھی۔
جب معاملہ کچھ ڈھیلا پڑا تو پھر حکومت نے مجبوریاں گنوانا شروع کیں کہ ادائیگیاں کیوں کرائیں۔ بجٹ دستاویزات سے پتہ چلا ہے کہ اربوں روپے کی سپلیمنٹری گرانٹ منظور کرکے براڈ شیٹ کو لندن ادائیگی کرانے میں سب شامل تھے۔ اگرچہ ان سب نے بلا کی اداکاری کرکے پورے کھیل میں جان ڈال دی تھی کہ حکومت کو تو علم تک نہ تھاکہ اکائونٹ سے پیسے نکل گئے ہیں‘ لیکن اصل اداکاری فارن آفس اور اس کے اصلی نسلی تے وڈے بابوز نے کی تھی جب انہوں نے رو رو کر آسمان سر پر آٹھا لیا تھا کہ ان کی تنخواہیں اٹھا کر براڈ شیٹ لے گئی ہے‘ حالانکہ یہی فارن آفس کے بابوز خود اربوں روپے لے کر لندن میں اپنے ہائی کمیشن اکائونٹ میں ڈلوا کر براڈ شیٹ کے موسوی کو مخبری کررہے تھے کہ پیسے ڈلوا دیے ہیں اکائونٹ میں، نکلوا لو فوراً۔ اب جب بجٹ ڈاکومنٹس نے ان سب کی اداکاری کا پردہ چاک کر دیا ہے تو ان سب کو آسکر ایوارڈ ملنا چاہئے کہ جب قوم سے جھوٹ بولنا ہو، چونا لگانا ہو، اپنے ہی لوگوں سے فراڈ کرنے ہوں تو کیسے ان حکمرانوں اور بابوز کی چھ چھوڑیں ساتویں حس تک بیدار ہو جاتی ہیں۔