ذہن میں ایک خیال آیا اور اس پر میں خود ہی مسکرا پڑا۔ جو کچھ اسمبلی میں ہوتا رہا اس پر افسردہ ہوا کہ پارلیمنٹ زوال پذیر ہے؟ فوراً ہی خیال آیا‘ جس پر مسکرا پڑا‘ کہ اسمبلی پر عروج آیا ہی کب تھا کہ اب زوال آگیا ہے؟
اپنے مہربان ایاز امیر کا کالم پڑھا تو کچھ سکون آیا کہ ہم بھی کن زمانوں کی بات کرتے ہیں۔ اسمبلی کے وہ دن ہوا ہوئے جب کچھ بچی کھچی سیاسی کلاس موجود تھی۔ جب کچھ اچھی تقریریں سننے کو مل جاتی تھیں۔ کوئی ایک آدھ پڑھا لکھا پارلیمنٹیرین کھڑا ہو کر ہمارے جیسے رپورٹرز کو مجبور کر دیتا تھا کہ خاموشی سے سب کچھ سنیں۔ ہنگامے پہلے بھی اسمبلی میں ہوتے تھے لیکن کوئی ایک آدھ سلیقے کی بات بھی سننے کو مل جاتی تھی۔ مشرف کے این آر او کے خلاف روزانہ شاندار تقریریں سننے کو ملتی تھیں بلکہ ان بیس برسوں میں اگر بہتر تقریریں ہوئیں تو وہ 2002 سے2007 تک کی پارلیمنٹ کا دور تھا۔ سب پڑھے لکھے اور کام کے سیاستدان اپوزیشن میں تھے۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف جلاوطن تھے۔ ایک کے بعد ایک اعلیٰ تقریر سننے کو ملتی۔ پھر کچھ تقریریں دو ہزار آٹھ کی اسمبلی میں سننے کو ملیں خصوصاً جب سوات کو طالبان کے حوالے کرنیکا فیصلہ ہوا‘ اور باقاعدہ قانون سازی کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس روز جو دہشت میں نے حکومتی اور اپوزیشن ممبران کے چہروں پر دیکھی‘ ویسی پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ وہی ایم این ایز جو عام لوگوں کیلئے تمکنت کی علامت تھے طالبان کے ترجمان کی دھمکی پر ڈھیر ہو چکے تھے۔ مسلم خان نے دھمکی دی تھی اگر کسی نے اس بل کے خلاف ووٹ دیا تو اس کا حشر کر دیا جائے گا۔ پورے ہائوس پر خوف اور دہشت کی فضا طاری تھی۔
اس فضا میں ایک آواز ابھری اور وہ تھی چکوال کے ایم این اے ایاز امیر کی۔ انہوں نے اس دن جس طرح بہادری کے ساتھ طالبان کے خلاف کیس پیش کیا اور ریاست کی کمزوریاں گنوائیں وہ شاید عرصے تک مجھے نہ بھولیں۔ ایک اکیلی لیکن توانا آواز جس نے ذاتیات کو پس پشت ڈال کر اس معاشرے اور ریاست کی بات کی تھی۔ایاز امیر کی اس دن شاندار اور نہ بھلائی جانے والے تقریر مجھے ہمیشہ کے لیے ان کا فین بنا گئی۔ اس تقریر کے کچھ عرصے بعد میں نے امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی ایک شاہکار کتاب Profiles in courage پڑھی جس میں کینیڈی نے امریکی تاریخ کے ان بہادر سیاسی کرداروں پر لکھا تھا‘ جنہوں نے اپنی زندگیاں اور سیاسی کیریئرز دائو پر لگا کر ایسے کام اور کانگریس میں ایسی تقریریں کیں جنہوں نے ان کے کیریئر تباہ کیے لیکن وہ امریکہ کا مستقبل سنوار گئے۔ مجھے وہ کتاب پڑھ کر اندازہ ہوا تھا کہ انسانی کردار اور ساکھ کتنی اہم خوبیاں ہوتی ہیں۔ ان امریکی کرداروں کی ذاتی اور سیاسی زندگیاں تباہ ہوئیں۔ انہیں عوامی نفرت اور ردعمل کا سامنا تک کا کرنا پڑا لیکن انہوں نے اپنے کردار پر داغ نہ لگنے دیا کہ تاریخ میں انہیں بزدل اور بے ایمان سیاستدان یا کمزور کردار کے حامل انسان کے طور پر یاد نہ رکھا جائے۔ اگر میں کبھی اس طرح کی کتاب پاکستان پر لکھتا تو ایاز امیر کی اس روز کی گئی تقریر کی روشنی میں انہیں پہلے نمبر پر رکھتا کہ مشکل اور بدترین حالات میں جب پارلیمنٹ میں وزیراعظم سے لے کر کابینہ اور اپوزیشن تک سب دبکے بیٹھے ہوں تو کیسے اپنی ذاتی زندگی اور سیاسی مستقبل کو دائو پر لگا کر ایک اعلیٰ تقریر کی جاسکتی ہے جو آپ کو برسوں یاد رہے۔
سوچتا ہوں‘ ان پچھلے تین برسوں میں اب تک کوئی ایسی بات یا تقریر کی گئی ہے جسے میں دس برس بعد بھی یاد رکھوں جیسے آج ایاز امیر کی تقریر دس برس بعد بھی میرے دل اور دماغ پر سوار ہے؟ کوئی ایک تقریر، کوئی ایک جملہ جس سے لگا ہو اس پارلیمنٹ میں کچھ ذہین لوگ بیٹھے ہیں؟ میں کوشش کرتا ہوں تو میرے سامنے غیرسنجیدہ ماحول‘ جس کی یادیں گالی گلوچ سے بھرپور ہیں‘ ابھرتا ہے۔ اس پورے ہائوس میں اپوزیشن سے لے کر حکومتی بینچوں تک کوئی ایسا چہرہ آنکھوں کے سامنے نہیں ابھرتا جس کو دیکھ کر ستائش کرنے کو دل چاہے، جس کو سننے کیلئے میں صبح سویرے اپنی نیند ادھوری چھوڑ کر تیار ہوں اور اجلاس شروع ہونے سے پہلے ہی پریس گیلری میں جاکر بیٹھ جائوں کہ کوئی سوال یا جواب یا لفظ مس نہ ہو جائے۔
ان گزرے برسوں میں جس کلچر نے سب سے زیادہ ترقی کی‘ وہ گالی گلوچ اور خوشامدی کلچر ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کوئی ایم این اے تقریر کرنے کیلئے کھڑا ہو اور وہ اپنے سیاسی لیڈر کی خوشامد میں زمین آسمان کے قلابے نہ ملائے اور مخالف کے لیڈر کو گالی نہ دے۔ اب یہی کلچر سیاستدان ٹی وی شوز میں لے آئے ہیں۔ اب جب تک عمران خان، بلاول اور نواز شریف کی تعریفوں کے پل نہیں باندھے جائیں گے‘ ان بیچاروں کے منہ سے کوئی جملہ ادا نہیں ہوگا۔ مان لیا ہم سب اپنی اپنی تعریف سننا پسند کرتے ہیں‘ لیکن کب تک اور کتنی؟ ایک دن میں چالیس ٹی وی پروگرام ہوتے ہیں اور ان میں ایک ایک پارٹی کے چالیس ارکان شریک ہوتے ہیں اور وہ مسلسل اپنے لیڈروں کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں۔ اسی طرح وہ پارٹی اجلاسوں میں ان کی تعریفیں کرتے ہیں، پھر ترجمانوں کے اجلاس میں ان کی تعریفیں کی جاتی ہیں، رہی سہی کسر اسمبلی کے اجلاس میں پوری کی جاتی ہے کہ ان کا لیڈر کتنا مہان ہے۔ یہ مہان لیڈران تھکتے نہیں ہر وقت اپنی تعریف یا خوشامد سن کے؟
یہ نارمل رویہ نہیں ہے اور نارمل لوگ حکمران بھی نہیں بنتے۔ نارمل لوگ اچھے فالورز یا خوشامدی تو بن سکتے ہیں لیکن حکمران نہیں۔ اسمبلی میں جب اپنی اپنی پارٹیوں کے لیڈروں کی خوشامدوں کا مقابلہ شروع ہوتا ہے تو سوچتا ہوں‘ آخر ایک انسان کتنی تعریف اور کتنی خوشامد اپنے اندر ڈائجسٹ کرسکتا ہے۔ جمہوریت خوشامد سے زیادہ تنقید پر چلتی ہے۔ اس خوشامدی کلچر کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب کوئی تنقیدی لفظ سننے کو تیار نہیں۔ جو تنقید کردے وہ آپ کی پارٹی اور نظروں سے گرجاتا ہے۔
قومی اسمبلی آج کل روز جانا ہوتا ہے۔ کچھ خبر کی تلاش میں‘ کچھ پرانے دنوں کی یاد میں۔ بیس برس پہلے پارلیمنٹ کی رپورٹنگ شروع کی تو بہت کچھ سیکھا۔ ان بیس برسوں میں کیا کیا اعلیٰ تقریریں سننے کو ملیں اور قائمہ کمیٹیوں کے اندر سے کتنے بڑے بڑے سکینڈلز برآمد ہوئے اور کیسے کیسے افسران کمیٹیوں کو بریفنگ دیتے تھے جبکہ ہمارے جیسے رپورٹرز پن ڈراپ خاموشی میں سب کچھ سنتے‘ نوٹس لیتے جاتے اور پھر ان بریفنگز کی دستاویز کو پانے کے لیے کوشاں رہتے۔اسمبلی میں ایک پرانے واقف کار سے ملاقات ہوئی تو ان سے یہی کہا کہ ایک دور ہوتا تھا پبلک اکائونٹس کمیٹی کی دھوم ہوتی تھی۔ جس دن پی اے سی کا اجلاس ہونا ہوتا‘ اس دن پوری پارلیمنٹ ایکٹو نظر آتی تھی۔ لگتا تھا آج کوئی اہم کام ہے۔ پوری بیوروکریسی سہمی سہمی نظر آتی تھی کہ آج ان کا پتا نہیں کیا حشر ہوگا۔ آڈیٹر جنرل آفس کے لوگ فائلیں بغلوں میں دبائے پھر رہے ہوتے تھے اور وزارتوں کے افسران کو ایسی نظروں سے دیکھتے جیسے قصائی بکرے کو۔ کمیٹی کے ممبران بھی تیاری کرکے آتے تھے۔ ہم صحافی بھی قلم سنبھال کر پوری توجہ کمیٹی کی پروسیڈنگز پر رکھتے اور سرگوشیوں میں بات کرتے تھے۔ اب آپ لوگوں نے آخری دفعہ کب پبلک اکائونٹس کمیٹی کا نام سنا یا کوئی ایسی خبر وہاں سے نکلی ہو جس نے رولا ڈالا ہو؟ وہی پی اے سی جس سے بابوز کی جان نکلتی تھی‘ اب دم توڑ چکی ہے۔ آڈیٹر جنرل آفس کا ایک رعب و دبدبہ تھا، وہ کب کا ختم ہو چکا۔ اب تو ہر چیز کا ایک ریٹ مقرر ہے۔ جیسے پنجاب میں آج کل ڈپٹی کمشنرز جیسا اعلیٰ عہدہ ٹکے ٹوکری ہو رہا ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر جائیں یا کمیٹیوں کے حالات کا جائزہ لیں‘ زوال ہی زوال نظر آئے گا۔
پھر یہ سوچ کر مسکرا پڑتا ہوں کہ میں بھی کیا رونا لے کر بیٹھ گیا ہوں۔ اس پارلیمنٹ کو عروج آیا کب تھا کہ اب زوال کا شکار ہے؟