وزیراعظم عمران خان نے جس پُراعتماد انداز سے غیرملکی ٹی وی جرنلسٹ کے ایک سوال کے جواب میں کہا Absolutely not اس سے جنرل ایوب‘ جنرل ضیا ‘ جنرل مشرف‘ ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف ایک ساتھ یاد آئے۔ان سب کو یاد کرنے کی وجوہات یقینا مختلف تھیں لیکن ان سب میں ایک چیز مشترک تھی اور وہ تھا امریکہ۔اس صحافی نے پوچھا تھا کہ پاکستان امریکہ کو افغانستان سے انخلا کے بعد خطے میں موجودگی کیلئے فضائی اڈے فراہم کرے گا؟وزیر اعظم کا جواب سب نے سُن لیا اور اس پر انہیں داد بھی دی۔ مجھے وزیر اعظم کے اس جواب سے حیرانی نہیں ہوئی۔ حیرانی ہوتی اگر وہ یہ کہتے کہ جی ہم امریکہ کو اڈے دے رہے ہیں۔ میرے نزدیک یہ کوئی خبر نہیں کہ پاکستان امریکہ کو اڈے نہیں دے گا۔ کون سا پاکستانی سیاسی وزیراعظم یہ بات آن ریکارڈ کہنا افورڈ کرسکتا ہے کہ ہم امریکہ کو پاکستان میں اڈے دے رہے ہیں؟ پاکستانی عوام کو چھوڑیں کہ ان کا اس پر کیا ری ایکشن ہوگا‘ اصل بات تو چین‘ ایران‘ روس اور سینٹرل ایشین ریاستوں کی ہے جنہیں براہ راست اس فیصلے سے شکایت پیدا ہوسکتی ہے‘ افغانستان میں طالبان کی شکایت تو بعد میں آتی ہے۔ پاکستان میں کوئی بھی سیاسی وزیراعظم اس طرح کے فیصلے افورڈ نہیں کرسکتا۔ اس کی وجہ سیاستدان خود بھی ہیں جو اقتدار میں آنے سے پہلے اینٹی امریکہ نعروں پر چلتے ہیں اور جب اقتدار میں آتے ہیں اور زمینی حقائق کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو انہیں سمجھ نہیں آتی کہ عالمی دبائو اور گھریلو مجبوریوں کے درمیان کیسے چلا جائے؟یوں ان دونوں کو بیلنس کرتے کرتے حکمران خود کہیں کھو کر رہ جاتا ہے اور پھر وہ جھوٹ کا سہارا لے کر حکمرانی شروع کرتا ہے جس میں عالمی طاقتوں کو کہا جاتا ہے کہ تم مرضی کر لو اور مقامی ووٹرز کو بتایا جاتا ہے کہ ہم نے منہ توڑ جواب دے دیا ہے۔
یہی صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب پیپلز پارٹی کے دور میں وکی لیکس سے پتہ چلا کہ وزیراعظم گیلانی امریکہ کو کہہ رہے تھے کہ تم ڈرون حملے جاری رکھو لیکن ہم مذمت کرتے رہیں گے۔بعد میں وکی لیکس سے ہی انکشاف ہوا کہ جنرل کیانی کے دور میں امریکہ کو پاکستان نے خود ٹارگٹ دیے تھے جن پر ڈرون حملے کئے گئے اور ان عناصر کا خاتمہ ہوا جو پاکستان کے دشمن تھے۔ یوں بڑی مضحکہ خیز صورت سامنے آئی۔ ایک طرف امریکہ کو خود ہی پاکستان نے اڈے دیے ہوئے تھے جہاں سے ڈرون اڑتے تھے‘ دوسری طرف وزیراعظم‘ وزرااور دیگر اہم عہدیدار ان کی مذمت کررہے ہوتے تھے۔ ایک طرف امریکہ سے ان اڈوں کے عوض اور دہشت گردی کے نام پر جنگ لڑنے کیلئے ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ کولیشن سپورٹ کے نام پر امداد لی جارہی تھی اور اُسی سانس میں امریکہ کے خلاف بیانات بھی داغے جاتے تھے۔ شاید امریکہ کو باور کرانا ہو کہ دیکھو ہمارے ہاں عوام میں کتنا شدید ردعمل ہے لیکن احسان مانو کہ ہم نے تمہیں اڈے دے رکھے ہیں۔ انہی ڈرون کے ذریعے بڑی تعداد میں پاکستان کے دشمنوں کو مارا گیا۔ بینظیر بھٹو ‘ کرنل امام‘ خالد خواجہ اور دیگر کے قاتلوں کو بھی امریکن ڈورن سے مارا گیا۔اگر وکی لیکس سامنے نہ آتیں تو ان تمام حقائق پر پردہ پڑا رہنا تھا۔
سوال یہ ہے کہ اگر حکمران یہ سمجھتے تھے کہ ڈورن پاکستان کی اپنی سلامتی کیلئے ضروری تھے تو پھر اس پر وہ اپنے عوام کو اعتماد میں کیوں نہیں لیتے تھے؟ لوگوں کو کیوں اس بات پر قائل نہیں کیا گیا کہ ایسے معاہدے ہمارے مفاد میں ہیں‘ جہاں زمینی فورسز نہیں پہنچ سکتیں وہاں ڈورن پہنچ جاتے ہیں۔ اپنے فوجیوں کی جان خطرے میں ڈالنا اب ضروری نہیں رہا۔ جو کام ایک پلاٹون نے گراؤنڈ پر جانیں خطرے میں ڈال کر کرنا ہے وہی اکیلا ڈورن کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے اپنی فوج کی تعداد کم کر لی ہے کہ اب جنگ جدید ٹیکنالوجی سے لڑی جائے گی۔
تو کیا امریکہ کو واقعی اڈے چاہئیں اور اگر پاکستان نہیں دیتا تو اس کے پاس کیا آپشن ہوں گے؟ مزے کی بات ہے پاکستانیوں کو ہی سب سے زیادہ فکر تھی کہ امریکہ افغانستان سے نکل جائے۔ اب نکلنے کی تیاری کررہا ہے تو سب سے زیادہ پریشان بھی ہم ہیں کہ وہاں خانہ جنگی کے اندیشے بڑھ جائیں گے۔ اور کچھ نہیں تو امریکی فوجوں نے وہاں افغان طالبان اور دیگر عناصر کو انگیج کیا ہوا تھا۔ اب افغانستان کے حالات کا اثر ہم پر پڑے گا۔اب ہمیں لگ رہا ہے کہ شاید امریکہ کی افغانستان میں موجودگی ہمارے فائدے میں تھی کہ پاکستان میں بڑے عرصے بعد امن ہوگیا تھا لیکن اب کوئی گارنٹی نہیں دے رہا کہ جولائی کے بعد افغانستان میں کیا ہوگا اور اس کے پاکستان پر کیا اثرات پڑیں گے۔ ابھی سے افغان بارڈر پر پاکستانی فوجی دستوں کی تعداد بڑھانے کی باتیں شروع ہو گئی ہیں۔پاکستانی سیاستدان جب ایسی صورت حال میں گھرتے ہیں اور عوامی خواہشات پر پورا اترنے کی کوشش کرتے ہیں تو پھنس جاتے ہیں۔ فوجی حکمرانوں کو ایسی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
ایوب خان کے دور میں امریکہ کو پشاور اور چٹاگانگ میں اڈے دیے گئے۔ جنرل ضیا نے افغان جنگ کے حوالے سے امریکہ کو سہولتیں دیں۔ جنرل مشرف نے تو گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد واضح طور پر کہا تھا کہ پاکستان کے پاس امریکہ کو اڈے فراہم کرنے کے سوا کوئی آپشن نہ تھا۔ ویسے دیکھا جائے تو امریکہ کو افغانستان پر حملے کرنے ہوں تو انہیں پاکستان سے اڈوں کی ضرورت نہیں۔ وہ سمندر میں موجود اپنے بحری بیڑوں سے بھی میزائل لانچ کر سکتے ہیں اور یہ کام وہ ماضی میں کر بھی چکے ہیں‘ جب افغانستان میں اسامہ بن لادن کے کیمپ پر میزائل داغے گئے تھے اور ایک آدھ میزائل بلوچستان میں بھی گرا تھا۔ ان حملوں کے لئے پاکستانی ائیرسپیس استعمال کرنے کیلئے امریکیوں نے کوئی اجازت بھی نہیں مانگی تھی۔ اب بھی وہی راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے اگر امریکہ کو اڈے نہیں ملتے۔
بلاشبہ عمران خان کے Absolutely not سے ایک دفعہ پھر امریکی پاکستان سے مایوس ہوئے ہوں گے۔ انہیں یقیناً وہ دور یاد آئے ہوں گے جب ان کی بات مان لی جاتی تھی۔ ویسے امریکن نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر تو پہلے ہی امریکہ میں بیان دے چکے ہیں کہ امریکہ کو اڈے دینے کے حوالے سے constructive بات چیت ہو چکی ہے۔ تو کیا وزیر اعظم صاحب کو اس بات چیت کا علم نہیں؟
یا شاید امریکہ جیسی طاقتوں کو یہ پیغام دینا مقصود ہوتا ہے کہ اس ملک میں وہی لوگ امریکہ کو سوٹ کرتے ہیں‘ جو ان کی بات مان لیتے ہیں اور وہ نہیں‘ جو عوامی دبائو کا سامنا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور یوں وہ امریکہ سے الجھ بیٹھتے ہیں اور ویسے consequences کا سامنا کرتے ہیں جس کا ذکر ہنری کسنجر نے بھٹو کے ساتھ آخری ملاقات میں کیا تھا۔
اپنے خان صاحب کا Absolutely not کہنا اپنی جگہ پر اہم ہے‘ لیکن ماضی کے تجربات کو اگر سامنے رکھا جائے تو نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ ہمارے ملک میں Absolutely not سے Absolutely yes تک کا سفر طے ہونے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے؟
امریکہ کے بارے ویسے بھی مشہور ہے کہ انہیں پاکستان میں جمہوریت اور اپنے مفادات میں سے ایک کا چنائو کرنا ہو تو وہ اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ کیا پتا امریکن جن کو مِس کر رہے ہوں‘ جلد ہی ان کی تلاش میں بھی نکل پڑیں۔