کامران شاہد کو اپنے لیجنڈری اداکار باپ شاہد کا انٹرویو کرتے دیکھ کر روسی ادیب ترگینف کا عظیم ناول Fathers and Sonsیاد آیا۔
اس خوبصورت نوجوان سے میری پہلی ملاقات 2010ء میں C130 طیارے میں ہوئی تھی۔اسلام آباد سے صحافیوں کا ایک گروپ گوادر جارہا تھا جہاں بڑے عرصے بعد این ایف سی ایوارڈ پر چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ دستخط کرنے کیلئے آرہے تھے۔ سفر کے دوران ایک نوجوان پر نظر پڑی۔ یاد آیا یہ تو ٹی وی اینکر ہے۔ پتہ چلا کہ وہ اداکار شاہد کا بیٹا ہے۔ ایک پڑھا لکھا اور مہذب نوجوان۔ وہ لندن سے پڑھ کر آیا تھا۔ گوادر پہنچ کر ایک شام حامد میر کے ساتھ میں اور کامران شاہد رات کو واک کررہے تھے۔ حامد میر ٹاک شوز میں ٹاپ کا اینکر تھا۔کامران شاہد مسلسل ایک طالب علم کی طرح حامد میر سے سوالات کررہا تھا اور ٹی وی اینکرنگ کے حوالے سے معلومات میں اضافہ کرنا چاہ رہا تھا۔ حامد میر بھی دل کھول کر کامران شاہد کوٹپس بتا رہا تھا جبکہ میں خاموشی سے ان دونوں کی گفتگو سن رہا تھا۔ کامران شاہد نے پوچھا: میر صاحب ٹی وی اینکرنگ میں کامیابی کا کیا گُر ہے؟ حامد میر نے فوراً کہا: اچھا ٹی وی اینکر بننا ہے تو ٹی وی سکرین پر لمبے سوالات نہ پوچھیں۔ جن اینکرز کو ٹی وی سکرین پر طویل سوالات یا دانشوری کے ذریعے چھائے رہنے کا شوق ہوتا ہے وہ بہت جلد ناظرین کے دل سے اُتر جاتے ہیں۔ لوگ چاہتے ہیں آپ بس ایک مختصر سا اچھا سوال کریں اور پھر پینل میں بیٹھے مہمان سے اسکا جواب لیں۔ حامد کا کہنا تھا کہ انہوں نے آٹھ برسوں میں یہی سیکھا اور اس کا اچھا نتیجہ نکلا ۔کامران شاہد کو جتنی توجہ سے میں نے حامد میر سے ٹی وی اینکرنگ کے گُر سیکھتے دیکھا تھا اس سے بڑا متاثر ہوا‘ ورنہ اس فیلڈ میں ہرکوئی خود کو توپ اور دوسرے کو چلا ہوا کارتوس سمجھتا ہے۔ دوسرے کو اہم سمجھ کر بات پوچھنا یا مشورہ مانگنا اسے اپنی انسلٹ لگتا ہے۔
میری یہاں سے کامران شاہد کے لیے لائکنگ شروع ہوئی جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی گئی۔ سکرین پر کامران شاہد نے کئی بڑے بڑوں کو لتاڑ کر رکھ دیا‘ اگر کسی سیاستدان یا وزیر نے اس کوبچہ سمجھ کر اس پر چڑھائی کی کوشش کی تو پچھتایا۔ تاہم میرا خیال ہے جب سے کامران شاہد نے ٹی وی پروگرام شروع کیے ہیں اس کا سب سے بڑا امتحان اپنے والد شاہد صاحب کا انٹرویو تھا۔ میں خود اس انٹرویو کی پہلی قسط مس کر گیا لیکن پھر رات کو یوٹیوب پر دیکھی تو مجھ پر شدید حیرانی طاری ہوگئی۔ میں انٹرویو دیکھ کر سوچتا رہا کہ اگر میں کامران کی جگہ ہوتا تو اس طرح کا انٹرویو کرسکتا تھا؟ فوراً جواب ملا کہ میں کبھی ایسا انٹرویو اپنے والد کا نہ کرسکتا خصوصاً جب والد کی سپرسٹار فلمی زندگی سے کئی تنازعات جڑے ہوئے تھے۔ ایسے تنازعات میں بچے عموما ًباپ کے خلاف نفرت ڈویلپ کر لیتے ہیں۔ بچے کا پہلا ہیرو ہمیشہ باپ ہوتا ہے اور بہت کم خوش نصیب باپ ہوتے ہیں جو اپنے بچے کے آخری ہیرو بھی ہوتے ہیں۔ ایک باپ اور بیٹے کا ایسا تعلق جو اپنی اپنی فیلڈ میں سٹارز ہیں‘ سکرین پر پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا اور میں پہلی قسط دیکھنے کے بعد اگلے دن سب کچھ چھوڑ کر دنیا ٹی وی پر اس کی دوسری قسط دیکھنے بیٹھ گیا۔ کون سا ایسا سوال ہوگا جو کامران نے اپنے والد سے نہیں پوچھا۔
کامران شاہد یقینا ایک بڑے امتحان سے گزر رہا تھا کہ ایک طرف باپ ہے‘ اس کا ہیرو ہے‘ اس ہیرو کی زندگی سے جڑے بہت سے تنازعات اور کچھ سکینڈلز ہیں۔ اگر اس نے ان سے وہ سوالات نہ پوچھے تو سارا انٹرویو بیکار جائے گا۔دوسری طرف یہ بھی خطرہ تھا کہ وہ ان سوالات سے اپنے باپ کی اس زندگی کے وہ راز کھول رہاتھا جو آج کی نئی نسل نہیں جانتی۔ پرانے زخم پھر تازہ ہوں گے۔ اس اداکار شاہد کو 70 اور80 کی دہائی کی نسل جانتی تھی لیکن پچھلے بیس سالوں میں جوان ہونے والی نسل اب کامران شاہد کو زیادہ جانتی ہے۔کامران شاہد ایک تنے ہوئے رسے پر چل رہا تھا جہاں ایک طرف پروفیشنل ازم دائو پر لگی ہوئی تھی‘ لاکھوں آنکھیں اس پر مرکوز تھیں‘ اس کے ایک ایک سوال کا جائزہ لیا جارہا تھا اور اس کی باڈی لینگویج پر بھی توجہ تھی۔ دوسری طرف ایک باپ بیٹے کے سامنے ٹرائل پر تھا۔ اگر باپ کو بچاتا تو کامران خود زیرو ہو جاتا۔ سکرین پر برسوں کی محنت ضائع جاتی۔ لیکن پورے پروگرام میں کہیں نہیں لگاکہ کامران شاہد ایک بڑے اداکار کا انٹرویو کررہا ہے جس سے وہ دبا دبا ہو کیونکہ وہ اپنے دور کا سپر سٹار تھا یا اس کا باپ ہے جو اس کے کسی حساس سوال پر بھڑک بھی سکتا ہے۔
داد اداکار شاہد کو بھی دینا پڑے گی کہ انہوں نے بھی مشکل سوالات کے جوابات بڑے حوصلے سے دیے۔ ایک باپ اپنے بیٹے کے سامنے کٹہرے میں کھڑا تھا۔ یہ کہہ دینا آسان ہے لیکن اصل زندگی میں یہ ناممکن لگتا ہے کہ آپ ٹی وی سکرین پر باپ کا ٹرائل کریں۔ سخت سوالات پر عوام سے داد مل رہی ہے تو یاد رکھیں والد پر واہ واہ نہیں‘ تنقید ہو رہی ہوتی ہے۔ کامران نے وہ فائن بیلنس لوز نہیں کیا۔ نہ اس نے باپ کو مکمل بلڈوز کیا کہ ان کی شخصیت مسخ ہوتی اور نہ ہی اس نے اپنے پروفیشن اور اپنی ذات پر دھبہ لگنے دیا کہ یہ انٹرویو تو تھا ہی ایک فکس میچ۔
کامران شاہد کا مقام میری نظروں میں اس لیے بھی بلند ہوا ہے کہ ہمارے جیسے معاشرے میں لوگ والد کے بارے میں کوئی بات نہیں سننا چاہتے۔ آج بھی اگر سیاستدانوں یا اہم شخصیات کے والد پر کوئی تنقید ہو تو وہ پنجے جھاڑ کر پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ انکا باپ فرشتہ ہے‘ کس کی جرأت کہ اس پر بات کرے۔ باپ کا ماضی جو بھی ہو‘ اولاد کیلئے وہ فرشتہ ہی رہتا ہے۔ کامران نے اپنا بیلنس نہیں کھویا۔ صاف لگ رہا تھا کہ وہ شاہد صاحب کی بطور والد عزت ضرور کررہا تھا لیکن اس نے کسی جگہ غیر ضروری مرعوبیت نہیں دکھائی۔ جس اعتماد سے اپنے باپ کی تنازعات سے بھری زندگی کے خفیہ گوشوں کے بارے میں کھل کر سوالات کیے انہوں نے اس انٹرویو کو چار چاند لگا دیے۔
اداکار شاہد کی شادیوں کے حوالے سے کیے گئے سوالات پوچھنا کسی بھی بیٹے کیلئے آسان نہ تھا۔ کوئی اور ہوتا تو شاید اس سوال کو گول کرجاتا لیکن اس پورے انٹرویو کا کلائمیکس وہی سوال تھا جس پر شاہد صاحب نے کہا: آپ کی والدہ ہی میری اصلی بیگم صاحبہ ہیں جنہوں نے آپ کو اور مجھے پالا ہے۔ ویسے کامران شاہد کی والدہ کو بھی داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔ کسی مشہور بندے‘ جو اپنے دور کا فلمی سپرسٹار بھی ہو‘ سے شادی کرنا اور اسے نبھانا آسان کام نہیں۔ پتہ نہیں سپرسٹارز کی بیگمات اتنا حوصلہ کہاں سے لاتی ہیں جتنا کامران کی والدہ نے دکھایا۔اپنے والد کے انٹرویو کا فیصلہ کرکے کامران شاہد نے خود کو ایک بڑے امتحان میں ڈال دیا تھا۔ یہ انٹرویو اسے بنا بھی سکتا تھا اور اسے گرا بھی سکتا تھا۔ کامران خوش قسمت رہا کہ یہ انٹرویو اسے بنا گیا۔ میرے بس میں ہو تو اس انٹرویو کو یونیورسٹیز اور کالجوں میں جرنلزم کے کورس میں شامل کروں کہ ایک جینوئن صحافی اپنے باپ کے ساتھ بھی رعایت نہیں کرتا۔ ہنستے مسکراتے بھی اپنے باپ سے سخت اور ذاتی سوالات پوچھے جاسکتے ہیں‘ باپ کو بھی لاکھوں ناظرین کے سامنے رگڑا لگایا جا سکتا ہے۔ اپنے باپ کو بھی کٹہرے میں لایا جاسکتا ہے۔ یہی جرنلزم ہے۔
ٹام کروز کی شاندار فلم A Few Good Men کا وہ سین یاد آیا جب ٹام کروز ملٹری کورٹ میں بیس کمانڈر کرنل نیتھن سے لگاتار سوالات کر کے اسے رگڑ رہا ہوتا ہے تو کمانڈر غصے میں کہتا ہے :You cant handle the truth! Son‘لیکن اس انٹرویو میں باپ اور بیٹے نے اپنی اپنی جگہ اپنے اپنے کرداروں کو بڑی خوبصورتی سے نبھایا۔ کامران سے بڑھ کر کٹہرے میں کھڑے ایک باپ نے اپنے بیٹے کے چبھتے سوالات ‘ اپنی ذات سے جڑے تنازعات اور سچ کو خوبصورت طریقے سے ہینڈل کیا۔