"RKC" (space) message & send to 7575

کیا ہندوستانی بزدل تھے؟

کیا قدیم ہندوستان کے لوگ کمزور تھے، صلح پسند یا پھر بزدل؟
یہ سوال یا طعنے مجھے سننے پڑ رہے ہیں۔ جب سے افغانستان کی بدلتی صورتحال پر کالم لکھے ہیں‘ بہت سارے ''بہادر‘‘ دوستوں نے اظہارِ خیال شروع کر دیا ہے ہم سرائیکی علاقوں اور پنجاب کے لوگ بزدل ہیں۔ ان کے نزدیک بزدل ہی ایسے جواز دیتے ہیں یا صلح صفائی اور پرامن زندگی کے جواز ڈھونڈتے ہیں۔ بعض بتاتے ہیں‘ موت کا ایک دن مقرر ہے لہٰذا شیر کی زندگی گزارو‘ لیکن یہ نہیں بتاتے کہ اگر زندگی اتنی ہی سستی اور عام سی چیز ہے تو پھر خدا نے خود کشی کو حرام کیوں قرار دیا ہے۔ مان لیتے ہیں ہم اس خطے کے لوگ بزدل ہیں اور پہاڑوں کے اس طرف رہنے والے بہت بہادر ہیں‘ سوال یہ ہے کہ اس طرف رہنے والے بہادر کیسے بنے اور ہم قدیم ہندوستان اور آج کے پاکستان کے لوگ اتنے بزدل کیوں نکلے؟ ہندوستانی دنیا کو فتح کرکے لوٹ مار کیوں نہیں کرتے تھے، انسانی کھوپڑیوں کے مینار کھڑے کیوں نہیں کرتے تھے یا اجنبی ملکوں میں جا کر ان کی عورتوں کو غلام کیوں نہیں بناتے تھے؟ طعنہ یہ دیا جاتا ہے‘ ہندوستان یا پنجاب کے لوگ دوسرے ملکوں میں جاکر ان کے معبدوں سے سونے کے زیوارت کیوں نہیں لوٹتے تھے یا پھر واپس لوٹتے وقت ان کی خواتین کو اپنے حرم میں ڈال کر اور ان کے مردوں کو غلام یا مزدور بنا کر ساتھ کیوں نہیں لاتے تھے؟
بہادری کی اس لاجک سے اگر ہندوستانی قومیں یہ کام نہیں کررہی تھیں تو وہ لوگ یقیناً کمزور تھے۔ ڈرپوک تھے۔ وہ بزدل تھے۔ بہادر تو وہ سب جنگجو قومیں تھیں جو پہاڑوں اور صحرائوں سے اٹھیں اور انہوں نے شہروں کے شہر برباد کیے، انسانی کھوپڑیوں کے مینار کھڑے کیے، انسانی آبادیوں کی اینٹ سے اینٹ بجائی۔ ویسے یہ بھی عجب داستان ہے کہ جنہوں نے سب سے زیادہ انسانوں کا لہو بہایا وہی عظیم جنگجو کہلائے۔ جو جتنا بڑا قاتل بنا اسے اتنی ہی زیادہ عزت ملی۔ اس پر بات کرنے سے پہلے کہ ہندوستان کے لوگ بزدل کیوں تھے اگر تاریخ کو دیکھیں تو دو تین چیزیں ان حملہ آوروں اور جنگجوئوں میں آپ کو مشترک ملیں گی۔
یہ حملہ آور صحرائوں سے اٹھے یا پھر پہاڑوں سے اترے اور ان کے مسائل زیادہ تر معاشی تھے۔ ان کی بھوک نے انہیں بہادر بنا دیا۔ آپ کو میدانی یا زرعی علاقوں سے جنگجو کم ہی ملیں گے۔ یہ سب جنگجو اس لیے بنے کہ ان کے ہاں ان چیزوں کی قلت تھی جو ان کی زندگی کو سکون دے سکتی، یا انہیں سب کچھ اپنے گھر پر ہی مہیا ہوتا تاکہ وہ دوسری قوموں پر چڑھائی کرنے نہ چل پڑتے۔ اگر دنیا بھر میں ہونے والی جنگوں کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ یہ سب پاپی پیٹ کا مسئلہ تھا۔ جنگ کے بعد جو مال غنیمت ہاتھ لگتا تھا یہ اس کا لالچ اور بھوک تھی‘ جس نے کمزور لوگوں کو بھی جنگجو بنا دیا۔ اگر وہ اپنے جیسے انسانوں پر نہ جھپٹتے تو بھوکے مرتے۔ صحرائوں اور پہاڑوں میں آپ کے پاس کھانے پینے یا اچھی زندگی گزارنے کے وہ وسائل نہیں ہوتے جو کسی شہر میں یا زرعی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو میسر ہوتے ہیں۔ اسی طرح پہاڑوں میں رہنے والے کب تک پتھریلی زمین سے سر ٹکرا سکتے ہیں۔ اس لیے اگر صحرائوں اور پہاڑوں میں بسنے والوں نے شہروں پر حملے کیے، ان پر قبضے کیے تو اس میں کوئی حیرانی نہیں اور اگر عام کسان اور شہروں کے لوگ ان وحشیوں کا مقابلہ نہیں کر سکے تو اس پہ بھی حیران نہ ہوں۔ اب ان منگولوں کا مقابلہ کیسے ہو سکتا تھا جو اس دنیا سے نکلے جہاں صحرا کی مٹی کے سوا کچھ نہ تھا جبکہ سیٹل علاقوں میں رہنے والوں کے پاس کھانے پینے کو سب کچھ تھا لہٰذا ان کے پاس جنگیں لڑنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ اس لیے اکثر شہری علاقے بیرونی فوجوں کا سن کر لڑنے کے بجائے کھانے پینے کا سامان لے کر قلعے میں بند ہو کربیٹھ جاتے تھے یا پھر تاوان دے کر جان چھڑاتے۔
اس لیے اگر زرعی علاقوں یا سیٹل علاقوں کے لوگ بزدل تھے یا لڑاکے نہیں تھے تو ان کو طعنہ نہیں دیا جاسکتا۔ جس کا پیٹ بھرا ہوا ہوگا وہ کیوں لڑے گا؟ لڑائی پرآمادہ تو وہ ہوگا یا لڑنے کیلئے اپنا گھر‘ وطن چھوڑے گا جسے اپنے ہاں کھانے کو کچھ نہیں ملے گا۔ اس لیے انسانی تاریخ میں معاشی طور پر کمزور قبائل یا قوموں نے خوشحال انسانوں کی بستیوں پر حملے کیے اور لوٹ مار کی۔
اب مجھے بتائیں قدیم ہندوستان‘ جسے سات دریائوں کی دھرتی کہا جاتا تھا‘ کے لوگ کیونکر افغانستان یا سینٹرل ایشیا پر اس طرح حملے کرنے جاتے جیسے وہاں سے مختلف جنگجو اور قبائل ہندوستان پر یہ سوچ کر حملے کرتے تھے کہ یہ سونے کی چڑیا ہے؟ ہندوستان میں کھانے پینے اور اناج کی بہتات تھی اور آج بھی ہے۔ قدیم ہندوستان میں لوگ اتنے امیر تھے کہ مندروں میں سونے کے زیورات کے چڑھاوے چڑھائے جاتے تھے۔ اس لیے ان دریائوں کے کنارے رہنے والے کیونکر افغانستان جاتے تاکہ وہاں لوٹ مار کرکے اپنی بھوک مٹائیں۔ ان کے پاس چار موسم، فصلیں، جانور، سبزیاں، کھانے پینے کی فراوانی کیا کچھ نہیں تھا۔ ہندوستان کے پاس تو اتنا کچھ تھا کہ ایک سلطان محمود غزنوی نے سترہ دفعہ اس پر حملہ کیا اور ہردفعہ ہاتھیوں پر مال لاد کر اپنے ساتھ لے گیا۔ یہ بات ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دریائوں کے کنارے رہنے والے تشدد پسند یا لڑاکے نہیں ہوتے۔ انہیں کوئی insecurity نہیں ہوتی کہ ان کو کل کھانا پینا کہاں سے ملے گا۔ یہ عدم تحفظ صحرائوں اور پہاڑوں کے باسیوں کو ہوتا ہے اور اسی باعث وہ جنگجو کا روپ دھار لیتے ہیں۔ پہاڑ پر بسیرا کرنے والوں کی زندگی ٹف ہوتی ہے۔ اسے روز ماحول اور فطرت سے لڑ کر زندہ رہنا پڑتا ہے۔
ہندوستان کے پاس تو اتنا کچھ تھاکہ صدیوں دنیا بھر کی معاشی طور پر کمزور اور بھوکی قوموں کا شکار رہا۔ تاریخ میں جتنے حملے ہندوستان پر ہوئے شاید ہی کسی اور سرزمین پر ہوئے ہوں گے۔ اس کی اہم وجہ یہ تھی کہ یہ خطہ امیر تھا اور اس کی امارت کے قصے سن کر دوسری قوموں کے منہ میں پانی بھر آتا تھا۔
بعض جنگجو اور حملہ آور تو ایسے بھی تھے جو ہندوستان آئے اور یہاں کی امارت اور خوشحالی دیکھ کر یہیں سیٹل ہو گئے۔ یہیں حکمرانی کی۔ ہندوستان کا مزاج جنگجویانہ نہ تھا، جنگیں لڑنے والا نہ تھا تو اس کا گہرا تعلق اس دھرتی کی آب و ہوا، زراعت اور خوشحالی سے تھا۔ اگر یہ خطہ غریب ہوتا اور یہاں بھی لوگوں کو اس طرح بھوک اور غربت تنگ کرتی جیسے صحرائوں اور پہاڑوں میں رہنے والوں کو تنگ کرتی تھی تو شاید یہاں کے لوگ اور قومیں بھی افغانستان یا سینٹرل ایشیا کی قوموں پر حملے کرتے۔ میرے خیال میں ہندوستانی قوموں کے دشمن افغان یا سینٹرل ایشین یا دیگر قوموں کے حملہ آور نہ تھے بلکہ اصل دشمن ان کی خوشحالی تھی۔ خوشحالی انسان کو مہذب بناتی ہے۔
جن کے جنگجو ہونے کی بات کی جاتی ہے انہیں کبھی زندگی کی وہ عام خوشیاں نہ ملیں جو ہمارے لیے معمولی بات ہے۔ انہیں بھی اگر اچھی زندگی، تعلیم ملتی، ان کی فصلیں بھی سونا اگل رہی ہوتیں، سات دریائوں کے کنارے وہ بس رہے ہوتے اور پیٹ بھرے ہوتے تو وہ بھی ہندوستانیوں کی طرح قناعت والی یا ''بزدلانہ‘‘ لیکن پرسکون زندگی بسر کرتے۔ انسان کے سب مسائل پیٹ یا معاشی ہوتے ہیں‘ جن کو پورا کرنے کیلئے وہ بعد میں کسی ازم یا مذہب کا سہارا لے کر اپنی لوٹ مار، قتل و غارت یا زیادیتوں کا جواز تلاش کر لیتا ہے۔ دنیا بھر میں ہمیشہ غریب اور محروم طبقات نے غربت کے ہاتھوں تنگ آکر شہروں پر حملے کیے اور برباد کیا۔
جس دن خوشحالی ان محروم طبقات یا پس ماندہ قوموں کے گھر کا راستہ دیکھ لیتی ہے وہ بھی اتنے ہی بزدل اور کمزور بن جاتے ہیں جیسے سات دریائوں کی سرزمین پر رہنے والے ہندوستانی بن گئے تھے۔ قدیم ہندوستانیوں کی خوشحالی ہی ان کی دشمن بن گئی تھی جب دنیا بھر کی ''بہادر‘‘ قومیں اپنے گھر، وطن چھوڑ کر ان پر اپنی بھوک مٹانے کیلئے حملہ آور ہوئیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں