میڈیا کے خلاف نئے قوانین لائے جارہے ہیں‘ اس پر مجھے نہ کوئی افسوس ہے اور نہ ہی میں حیران ہوں۔ عمران خان صاحب سے اگر کوئی توقعات تھیں بھی تو وہ ان کے الیکشن جیتنے کے فوراً بعد‘ حلف اٹھانے سے پہلے ہی ختم ہو گئی تھیں۔ کسی بھی انسان کے ساتھ ایک تجربہ ہی کافی ہوتا ہے‘ ہاں آپ کی آنکھوں پر پٹی بندھ جائے تو اور بات ہے۔ جس طرح خان صاحب نے عمرے پر جاتے ہوئے‘ اسلام آباد ایئرپورٹ پر بیٹھ کر اپنے دوست زلفی بخاری کا نام ای سی ایل سے نکلوایا تھا‘ اس نے مجھے اور کچھ دوستوں کو یقینا حیران کیا تھا۔ وہی عمران خان جو قانون کی حکمرانی کے نعرے مارتے مارتے وزیراعظم کی کرسی تک پہنچ گئے توانہوں نے حلف لینے سے پہلے ہی وہی کام کیا جس کے خلاف انہوں نے بیس سال تک محنت کی تھی۔ وہ شریفوں اور زرداریوں کو برا بھلا کہتے تھے کہ وہ اپنے دوستوں کیلئے قوانین کی دھجیاں اڑاتے تھے‘ اب وہی کام وہ خود کررہے تھے۔ میری امیدیں اسی دن ٹوٹ گئی تھیں۔ رہی سہی کسر اس واقعے کے ایک ماہ بعد پوری ہوگئی جب اینکرز سے پہلی ملاقات میں عمران خان پاک پتن پولیس پر گرجتے برستے رہے کہ انہوں نے کیوں رات کو ننگے پائوں چلتی ایک خاتون کو روک کر پوچھ لیا کہ خیریت تو ہے۔ اس پر اُس ضلع کی پوری پولیس فورس کو نشانِ عبرت بنا دیا گیا۔ ایک گھنٹہ تک خان صاحب مانیکا خاندان کا جارحانہ انداز میں دفاع کرتے رہے اور ہم سب حیرانی سے دیکھتے رہے۔
اب اگر وہ چاہتے ہیں کہ میڈیا کو ہتھکڑیاں ڈال دی جائیں تو میں نہ ہرٹ ہوں نہ ہی مجھے کوئی ان سے گلہ ہے۔ ہاں اُس عمران خان سے گلہ ضرور ہے لیکن وزیراعظم عمران خان سے کوئی گلہ نہیں۔ میرا اسلام آباد میں بائیس سال کا تجربہ یہ کہتا ہے کہ یوسف رضا گیلانی واحد وزیراعظم تھے جنہوں نے میڈیا کے اپنے خلاف بے پناہ کمپین کے باوجود میڈیا کے خلاف نہ کوئی کارروائی کی نہ ہی کبھی کسی کو کہا کہ ان کے خلاف قانون لائو۔ باقی چھوڑیں یہاں تو چوہدری شجاعت حسین صرف چالیس دن کیلئے وزیراعظم بنے تو انہوں نے محض ایک قانون میں تبدیلی کرائی جو میڈیا کے خلاف تھا اور اس میں جرمانے کے علاوہ جیل کی سزائیں بھی ڈال دی گئیں‘ بعد میں ان سزائوں کو کم کیا گیا ۔ اگر چالیس دن کا وزیراعظم بھی صرف ایک ہی قانون اسمبلی سے پاس کرانا چاہتا تھا جو میڈیا کے خلاف تھا تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ جسے تین سال وزیراعظم بنے ہوچکے ہوں وہ دل میں کیا کچھ نہ سوچ کر بیٹھا ہوگا۔اس لیے عمران خان اگر اپنے تین سال پورے ہونے پر میڈیا کیلئے پچیس کروڑ روپے جرمانے کا قانون پاس کرانا چاہتے ہیں تو ان کا بنتا ہے۔ وہ اگر ایک ایک صحافی کو دس دس کروڑ جرمانہ کرنا چاہتے ہیں تو بھی سمجھ میں آتا ہے۔ بھلا کون بادشاہ سلامت یہ برداشت کرے گا کہ اس پر تنقید ہو یا اس کے اردگرد بیٹھے حواریوں کے کرتوتوں کو رپورٹ کیا جائے۔ تنقید کرنا بہت آسان لیکن تنقید کو برداشت کرنا بہت مشکل ہے خصوصاً جب آپ وزیراعظم ہوں۔
تاہم مجھے پارلیمنٹ میں دھرنے پر بیٹھے صحافیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیلئے نواز لیگ کے بڑے لیڈروں کو دیکھ کر ہنسی آ گئی۔ میڈیا کو سیدھا کرنے کے جتنے قوانین نواز شریف نے بنائے‘ مقدمے ٹھوکے‘ صحافیوں کوگھروں سے اٹھوا لیا‘ اس کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔ نواز شریف کا پہلا دورِ حکومت ہو یا دوسرا یا تیسرا‘ انہوں نے اپنے مخالف صحافیوں کا جینا حرام کیے رکھا۔ میر شکیل الرحمن اور ملیحہ لودھی پر بغاوت کے مقدمے درج کرائے‘ نجم سیٹھی کو رات کو گھر سے اٹھوا لیا۔ اس دوسرے دور میں وہ امیر المومنین بننا چاہتے تھے اور اس کیلئے قانون سازی بھی کرا رہے تھے کہ پرویز مشرف نے تختہ الٹ دیا۔ نواز شریف کے تیسرے دور میں کیپٹن صفدر کو قائمہ کمیٹی کا سربراہ بنوا کر وہ سائبر لاز بنوائے جن کو جواز بنا کر عامر میر اور شفقت عمران کو گرفتار کیا گیا۔ یہ نواز شریف حکومت کے بنائے قوانین ہیں۔ اس کے بعد جو پیمرا کو چینلز کے خلاف استعمال کیا گیا وہ اپنی جگہ الگ تاریخ ہے۔ آج انہی نواز شریف کی پارٹی مگرمچھ کے آنسو بہانے دھرنے میں پہنچی ہوئی ہے۔ حیرت تو ان صحافیوں پر بھی ہے جو نواز شریف کو پاکستانی میڈیا کو دبانے کے مشورے دیتے تھے یا ساتھ دے رہے تھے‘ وہ بھی آج کے قوانین کی مذمت کررہے ہیں۔ جب ہمارے جیسے صحافی نواز شریف حکومت کی سختیاں اور سزائیں بھگت رہے تھے تو یہی صحافی نواز شریف کا حوصلہ بڑھا رہے تھے۔ نواز شریف دور میں ہی قائمہ کمیٹی کے سامنے نئے قوانین لائے گئے جن میں تجویز دی گئی تھی کہ صحافیوں کو پانچ سے دس سال قید کی سزا کے علاوہ پانچ کروڑ جرمانہ جبکہ ٹی وی چینل مالکان کو پچاس کروڑ روپے جرمانہ کریں۔ان صحافیوں کی اکثریت نواز شریف حکومت کی گود میں بیٹھی تھی اور ان قوانین پر تالیاں بجا رہی تھی۔
اب عمران خان صاحب وہیں سے شروع کررہے ہیں جہاں نواز شریف چھوڑ گئے تھے۔ ہاں یہ رعایت خان صاحب نے میڈیا سے پرانے تعلقات کی بنیادپر ضرور کی ہے کہ نواز شریف دور کے پچاس کروڑ جرمانے کو پچیس کروڑ کر دیا۔ جیل کی سزا ختم کر کے صحافیوں کے لیے الگ عدالتیں بنانے کا فیصلہ کیا۔ ساتھ میں اپیل کا حق بھی چھین لیا گیا۔ ان عہدوں پر‘ جنہوں نے صحافیوں کو سزائیں دینی ہیں‘ عہدیدار بھی حکومت خود لگائے گی۔ جج‘ جیوری اور ہینگ مین کا رول حکومت نے خود ادا کرنا ہے۔
صرف پیپلز پارٹی یہ دعویٰ کرسکتی ہے کہ اس نے اپنے پانچ سالہ دور میں میڈیا کے خلاف قانونی کارروائیاں نہیں کیں یا نئے قوانین نہیں بنائے ورنہ نواز شریف اور اب عمران خان ایسے قوانین کے شوقین ہیں۔ بہت سے لوگ میری اس بات سے چڑتے ہیں کہ میں خان صاحب کے دور کے قوانین کی سیدھی مذمت کرنے کے بجائے اس میں نواز شریف کو کیوں لے آتا ہوں تو ان کیلئے عرض ہے کہ سب حکمرانوں کو غلام میڈیا چاہئے ہوتا ہے جو اُن کے حق میں طبلہ بجائے‘ ان کیلئے ڈھول بجائے ‘ صرف تعریف کرے‘ ان کی عیاشیوں یا کرپشن پر بات نہ کرے۔ یہ سب لوگ نام تو جمہوریت کا لیتے ہیں لیکن اندر سے سب ڈکٹیٹر ہیں اور ایسے نظام سے متاثر ہیں جہاں کسی کو آواز نکالنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ عمران خان اکثر چینی نظام کی بات کرتے ہیں اور اس طرح کی پاورز چاہتے ہیں۔ وہ چینی نظام کو فالو کر کے وزیراعظم نہیں بننا چاہتے لیکن پاورز چینی نظام کی چاہتے ہیں۔جہاں تک فیک نیوز کی بات ہے یہ سب سے زیادہ یہی سیاستدان پھیلاتے ہیں۔ کبھی ان کو چینلز پر شوز میں سن لیں۔ کوئی صحافی فیک نیوز دے گا تو اس پر کئی قوانین لگتے ہیں۔ پیمرا میں کیس چلتا ہے۔ اگر ثابت نہ کرسکے تو نقد جرمانے کے علاوہ شو بھی بند ہوسکتا ہے‘ لائسنس کینسل ہوسکتا ہے‘ عدالتوں سے سزائیں مل سکتی ہیں۔
خان صاحب کو نواز شریف کے انجام سے کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ سدا اقتدار کی مالک خدا کی ذات ہے۔ کبھی نواز شریف کا طوطی بولتا تھا۔ قدرت دیکھیں وزیراعظم کی کرسی سے اتار کر سیدھا جیل لے جایا گیا۔ وہ نواز شریف جو میڈیا کے خلاف قوانین لا رہے تھے آج انہی نواز شریف کی تقریر پاکستانی ٹی وی چینلز پر نہیں چل سکتی۔ خان صاحب بھی جج‘ جیوری اور جلاد بننا چاہتے ہیں تو ان کی مرضی۔ وہ بھٹو اور نواز شریف سے زیادہ طاقتور وزیراعظم نہیں ہیں۔ دونوں وزرائے اعظم کو جنہوں نے بانس پر چڑھایا تھا انہوں نے ہی ایک کو پھانسی دی اور دوسرے کو عمر قید دے کر جلاوطن کیا۔ باقی خان صاحب کرنی آپ نے اپنی مرضی ہے‘ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔ میڈیا کو اتنی سانس لینے کے لیے چھوڑ دیں کہ کل کلاں نواز شریف جیسی صورتحال کا آپ کو سامنا ہو تو کم از کم آپ کی تقریر تو نشر ہوسکے۔