امریکہ میں مقیم میرے بھائی ڈاکٹر عاصم صہبائی نے اپنی فیس بک پر دو ایسی تصاویر لگا دی ہیں کہ مجھے لگتا ہے‘ ان کا امیج مجھے طویل عرصے تک ڈسٹرب رکھے گا۔ یہ تصویر ایک دس بارہ سالہ بچے اویس کی ہے جس نے ابھی دو تین دن پہلے ہی اپنے والد وارث اعوان کو کینسر کے ہاتھوں کھویا ہے جو پاکستان سے اپنا علاج کرانے ڈاکٹر عاصم پاس گئے تھے۔ اب اس فیملی نے واپس پاکستان لوٹنا ہے اور واپسی سے پہلے وہ بچہ باپ کی قبر پر آخری دفعہ گیا ہے اور قبر سے لپٹا ہوا ہے۔ اس کا باپ کی قبر چھوڑنے کو دل نہیں چاہ رہا۔ وہ قبر سے اٹھتا ہے اور پھر بیٹھ جاتا ہے۔ وہ قبر سے نہیں آٹھ پا رہا۔
اس بچے کے چہرے پر پوری دنیا کا دکھ سمٹا ہوا نظر آتا ہے۔ اگر درد کی کوئی شکل ہوتی ہے تو وہ یہی اداس چہرہ ہے۔ خاموش لیکن دکھ بھری آنکھیں۔ اگر کوئی بے بس چہرہ دیکھنا ہے تو بھی یہی دیکھ لیں۔ دس بارہ سال کا بچہ باپ کی قبر سے لپٹ کر خاموشی اسے تک رہا ہے۔ پھر ایک اور تصویر ہے جس میں وہ اپنے باپ کی قبر‘ جس کی مٹی ابھی کچی ہے‘ انگلیوں سے کھرچنے کی کوشش کررہا ہے جیسے باپ شاید اندر سے نکل آئے گا۔ میں نے بہت دکھ بھری تصویریں دیکھی ہیں لیکن یہ تصویریں کہیں دل میں کھب سی گئی ہیں۔ کوشش کررہا ہوں کہ آنکھوں سے نکل جائیں۔ کئی دفعہ اپنی آنکھوں کو مل کر دیکھا، پانی سے دھویا بھی لیکن تکلیف ہے کہ جانے کا نام نہیں لے رہی۔
کبھی سوچتا ہوں خدا نے بھی کیا کیا لوگ اس دنیا میں بھیجے۔ ان کے اندر کیسی کیسی روح بھردی۔ ڈاکٹر عاصم صہبائی کو میں کبھی نہ سمجھ سکا۔ جب امریکہ جارہا تھا تو عامر متین نے کہا تھا: اگر انسانی شکل میں کسی فرشتے کو ملنا ہو تو ڈاکٹر عاصم سے مل لو۔ ان دنوں نعیم بھائی کی جدائی کا زخم تازہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب سے ملا تو لگا‘ نعیم بھائی ابھی یہیں کہیں موجود ہیں۔ چھ ماہ تک ڈاکٹر صاحب نے اپنے گھر مجھے اور میری بیوی کو رکھا۔ اللہ کی مہربانی سے مکمل علاج کیا۔ چھ ماہ بعد میرے دونوں بچوں کو ان کی ماں صحت مند کرکے حوالے کی‘ جسے پاکستانی ڈاکٹر لاعلاج قرار دے چکے تھے۔ جب میں نے یہ کہانی اپنے کالم میں لکھی تو ان بہت سارے لوگوں نے رابطہ کیا جو کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔ ان سب کو ایک امید نظر آئی کہ میری بیوی کی طرح وہ بھی ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ میں نے ڈاکٹر عاصم صہبائی کو ہر مریض کی رپورٹس بھیجنا شروع کیں۔ انہوں نے ہر رپورٹ کا جواب دیا‘ اور علاج بھی بتایا۔ اکثر ڈاکٹر صاحب کہتے کہ جس آنکالوجسٹ سے وہ علاج کرا رہے تھے وہ اس کے ساتھ بات چیت کرکے علاج میں مدد دینے کو تیار ہیں‘ لیکن مجال ہے کوئی پاکستانی آنکالوجسٹ تیار ہوا ہو۔ سب نے اسے اپنی توہین سمجھاکہ امریکی ڈاکٹر انہیں بتائے گا کہ کینسر کا علاج کیسے کرنا ہے۔ کینسر کے کئی مریض ایسے ہی پاکستانی ڈاکٹروں کی انا کی بھینٹ چڑھ گئے۔ بعض کا خیال تھا‘ وہ امریکہ جاکر علاج کرا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم نے کبھی کسی کو انکار نہ کیا۔ انہوں نے تین ایسے مریضوں کی زندگی کو اللہ کے کرم سے دو تین سال بڑھا دیا جن کے بارے میں پاکستانی ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ دو ہفتے بھی زندہ نہیں رہیں گے۔ ڈاکٹر عاصم نے دن رات کام کیا اور دو تین ہفتوں کو دو تین سالوں تک لے گئے۔ ڈاکٹر صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ مریض کو مریض سمجھ کر نہیں بلکہ اپنے گھر کا فرد سمجھ کر ٹریٹ کرتے ہیں۔ خود خرچ کرتے ہیں‘ ان کیلئے فنڈز ریزنگ کرتے ہیں‘ ان مریضوں کے بچوں کو ان کے پاس بلا لیتے ہیں۔ کمیونٹی کے تعاون سے انکی مدد کرتے ہے۔ اور پھر کسی روز گہرا زخم اپنے دل پر کھاتے ہیں اور کئی دن افسردہ رہتے ہیں‘ لیکن پھر نئے سرے سے نئے مریض کی زندگی بچانے پر لگ جاتے ہیں۔ انکے پاس اکثر وہ مریض پہنچ پائے‘ جو کینسر کی آخری سٹیج پر ہوتے ہیں لیکن وہ انہیں علاج اور دعائوں سے زندگی کی طرف واپس لے آتے ہیں۔
لیکن جب موت کا فرشتہ ڈاکٹر صاحب کے ہاتھوں سے مریض کو چھین کر لے جاتا ہے تو پھر وہ خود بھی روتے ہیں اور دوسروں کو بھی رلاتے ہیں۔ پاکستان سے تین مریض گئے جن میں اوکاڑہ کا عبدالرحمن، ایک بچوں کی ماں اور اب وارث اعوان۔ ان تینوں کو یہاں ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا‘ لیکن انہیں ایک امید ڈاکٹر عاصم صہبائی تک لے گئی۔ انہوں نے پڑھ رکھا تھا کہ میری بیوی کو بھی ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا تو ڈاکٹر عاصم نے اسے ٹھیک کر دیا تھا۔ یہی امید لے کر ایک دن اوکاڑہ سے عبدالرحمن میرے پاس آیا تھا اور اس کا رابطہ ڈاکٹر صاحب سے ہوا۔ عبدالرحمن نے بتایا تھاکہ پاکستانی ڈاکٹر نے اسے کہا تھاکہ اس کے پاس دو تین ہفتے باقی بچے ہیں‘ وہ کیوں اپنے علاج پر باپ کے پیسے خرچ کرا رہا ہے۔ وہ ڈاکٹر عاصم کے پاس گیا تو اللہ کی مہربانی سے دو تین سال مزید زندہ رہا۔
ایک دن ڈاکٹر صاحب نے ایک افسردہ کر دینے والی تحریر اپنی فیس بک وال پر شیئر کی‘ جس میں انہوں نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا تھا۔ اس دن انہوں نے خود سے چند سخت سوالات پوچھے تھے۔ وہ سوالات جن کے جوابات ہمیشہ اس کے یار دوستوں‘ رشتے داروں اور گھر والوں نے پوچھے تھے لیکن ڈاکٹر صاحب نے کبھی کسی کو جواب نہیں دیا تھا۔ مجھے ذاتی طور پر علم تھاکہ انہیں کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان مریضوں کو پاکستان سے بلوا کر انکا علاج کرنے میں۔ ان کے پیارے ناراض بھی ہوئے جن پر ڈاکٹر صاحب جان چھڑکتے ہیں۔ سب کا یہی گلہ تھاکہ وہ کیوں اپنی ذات اور گھریلو لائف پر کمپرومائز کرکے یہ سب مشکلات اٹھا رہے ہیں۔ وہ ایک ہسپتال میں کام کرتے ہیں اور ان کا کام اس ہسپتال کے مریضوں کا خیال رکھنا ہے‘ جس کی انہیں تنخواہ ملتی ہے۔ وہ کیوں الٹا اپنی تنخواہ سے خرچ کرتے ہیں جب بعض کیسز میں پتہ ہے مریض زندہ نہیں رہیں گے۔
ڈاکٹر عاصم صہبائی نے اس دن فیس بک پر خود سے یہ سوال پوچھا تھا کہ میں ایساکیوں کرتا ہوں؟ مجھے پتہ ہے وہ شاید نہ بچ سکیں۔ کیا مجھے اس لیے ان کا ساتھ نہیں دینا چاہئے کہ وہ زیادہ زندہ نہیں رہیں گے؟ ان کی امیدیں ختم کر دیں؟ ڈاکٹر صاحب نے پھر اس کا جواب خود دیا کہ میں اس لیے کرتا ہوں کہ اللہ کی مہربانی اور جدید علاج سے ان مریضوں کے زندگی کے کچھ برس بڑھ جاتے ہیں۔ وہ دو تین سال مزید اپنے بچوں کے ساتھ گزار لیتے ہیں۔ وہ اپنی پسندیدہ فلمیں دیکھ لیتے ہیں۔ وہ دنیا میں مزید کچھ دن گھوم پھر لیتے ہیں۔ وہ کتابیں پڑھ لیتے ہیں جو ان برسوں میں پڑھنا چاہتے تھے۔ وہ اپنے بچوں کو اپنی موت کے لیے تیار کر لیتے ہیں۔ ان کے اندر ایک امید جاگتی ہے کہ شاید وہ کینسر کو شکست دے دیں گے۔ وہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے دن گزارتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو گلے لگا کر رات کو انہیں بیڈ ٹائم سٹوریز سناتے ہیں۔ وہ زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ زندگی اور موت کے مابین جاری اس کشمکش میں ڈاکٹر عاصم انکے ساتھ ہوتے ہیں۔ وہ ان کی خوشی اور غم میں شریک ہوتے ہیں۔ وہ ان کے گھر کا فرد بن جاتے ہے۔ انہیں لگتا ہے‘ ڈاکٹر عاصم کے ہوتے ہوئے انہیں کچھ نہیں ہوگا۔
مجھے پتا ہے ڈاکٹر عاصم صہبائی پر کیا گزرتی ہوگی جب اس کا کوئی مریض موت کے ہاتھوں ہار جاتا ہے۔ ان کے اندر کئی قبریں بن چکی ہیں لیکن جو قبر وارث کی بنی ہے وہ شاید بڑے عرصے تک کچی ہی رہے گی۔ اس قبر سے لپٹے وارث کے بیٹے کی یہ تصویر شاید برسوں تک آنکھوں سے اوجھل نہ ہو سکے گی۔ ایک بچے نے اب پاکستان لوٹنا ہے۔ باپ امریکہ میں دفن کیا گیا ہے۔ بچہ قبر نہیں چھوڑ رہا۔ جس باپ کے ساتھ وہ امریکہ آیا تھا‘ وہ اب اس کے ساتھ واپس نہیں جا رہا۔ قبر اسے دور نہیں جانے دے رہی کہ پتا نہیں وہ کب دوبارہ پاکستان سے امریکہ باپ کی قبر پر جا سکے۔
اس بچے کو باپ کی قبر سے لپٹے دیکھ کر لگا‘ قبریں قبرستان نہیں انسانی دلوں میں بنا کرتی ہیں۔