کچھ پرانی کتابیں آن لائن خریدی تھیں۔ صبح بنڈل دیکھ کر دل خوش ہوا۔ کراچی کے دوستوں راشد اشرف اور ڈاکٹر پرویز حیدر نے زندہ کتابوں کے سلسلے شروع کر رکھے ہیں اور وہ کمال کتابیں چھاپ رہے ہیں جو آئوٹ آف پرنٹ ہوچکی ہیں۔ ''یہ قافلے اجالوں کے‘‘بھی اسی طرح کی کتاب ہے۔ شخصی خاکے ہیں اور مجھے خاکوں کی کتابیں پسند ہیں۔ خاکے ڈاکٹر محمود احمد کاوش نے لکھے ہیں۔ فہرست میں ڈاکٹر خیال امروہوی کا نام پڑھ کر رک گیا۔ میں ڈاکٹر خیال کا لیہ کالج میں شاگرد تھا۔ وہ فارسی پڑھاتے تھے۔ میرے بھائی بھی انکے شاگرد رہے تھے۔ ایک خاموش طبع فقیر انسان۔ اپنی دنیا میں کھوئے رہتے۔ نعیم بھائی تو ان سے اتنے متاثر تھے کہ بہاولپور میڈیکل کالج پہنچ کر اپنا نام ڈاکٹر نعیم خیال رکھ لیا تھا۔ لیکن اس خاکے کو پڑھ کر بہت اداس ہوں۔ کبھی سوچتا ہوں‘ اچھا ہوا میں استاد یا لیکچر نہیں بناکہ آپ کے ہاتھوں دنیا بھر کے کامیاب لوگ پڑھ کر نکلتے ہیں اور کوئی مڑ کر نہیں پوچھتا: آپ کس حال میں ہیں‘ آپ کو تلخ زندگی میں ہماری مدد کی ضرورت تو نہیں؟
ڈاکٹر خیال کا اصل نام سید علی مہدی تھا۔ دس دسمبر 1930 کو ریاست حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ والد وکیل تھے۔ بچپن عیاشی میں گزرا۔ رئیس امروہوی اور جون ایلیا ان کی سگی پھوپھی کے بیٹے تھے۔1949 میں جامعہ عثمانیہ حیدرآباد سے ایم اے فارسی کیا۔ حیدر آباد ریاست کے سقوط بعد پاکستان آئے۔ کراچی‘ حیدرآباد، لاہور سے ہوتے آخر لیہ کو مستقل ٹھکانہ بنا لیا۔ پاکستان آنے کے بعد ان کے خاندان نے سخت مصائب کا سامنا کیا۔ اسی معاشی بدحالی کے دور میں والدین چل بسے۔1956 میں پاکستان آئے تھے اور اگلے آٹھ برس مختلف سکولز وغیرہ میں کام کیا۔ 1964 میں حکومت نے فارسی کا عارضی لیکچرر لگا دیا۔ ایران سے پی ایچ ڈی کی۔ ڈاکٹر خیال امروہوی نے ساری عمر انقلاب کا نعرہ لگایا، غریب مزدور کی بات اور لیہ کی کئی نسلوں کو متاثر کیا۔ عمر بھر اپنے قلم سے استحصالی طبقات کے خلاف جدوجہد اور مزاحمت کی۔ ایوب خان کے دور میں ان کی طویل نظم ''گونج‘‘ ضبط کر لی گئی تھی۔ دو شعر ملاحظہ فرمائیں:
شراب ختم ہوئی، اس کا ذکر کیا کرنا
کہ اب ہے شغل ہمارا خدا خدا کرنا
سوزش قلب ہی کیا کم تھی جلانے کے لیے
وہ بھی آپہنچا دہکتے ہوئے رخسار کے ساتھ
اس دوران 1985 میں ڈاکٹر محمود احمد کاوش کو اپنی شاعری کیلئے کسی بڑے شاعر سے اصلاح لینے کی ضرورت پڑی تو انہوں نے ڈاکٹر خیال سے خط و کتابت شروع کی جنہوں نے لیہ میں ''دبستانِ خیال‘‘ قائم کیا ہوا تھا۔ ڈاکٹر خیال نے ایک دن ڈاکٹر کاوش کو لکھا کہ نارووال میں ایک نوجوان ''ملک صاحب‘‘ کسی اسسٹنٹ کمشنر کے ریڈر ہیں۔ ان سے میرے حوالے سے ملیں۔ وہ جا کر ملے تو ''ملک صاحب‘‘ نے ایک اور کہانی سنائی‘ جس سے ڈاکٹر خیال کی عظمت بڑھ جاتی ہے۔ ملک صاحب کے بقول بچپن میں باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ سوتیلے باپ نے سکول کے بجائے ایک ہوٹل پر پانچ روپے ماہوار پر ملازم رکھوا دیا۔ 1964 میں شکر گڑھ میں کالج بنا تو خیال صاحب وہاں فارسی کے استاد لگ گئے۔ ایک دن وہ کھانا کھانے ہوٹل آئے اور انہیں کھانا سرو کیا تو مجھ سے پوچھا: تم پڑھتے کیوں نہیں؟ یہ سن کر آنکھوں میں آنسو آگئے۔ پوری بات بتائی تو کہا: پڑھنا چاہتے ہو؟ ہوٹل والے سے کہا کہ اس کی پانچ روپے تنخواہ میں دے دوں گا خیال صاحب اس لڑکے کو اپنے ساتھ کرائے کے گھر لے گئے اور اسے پڑھاتے رہے۔ 1965 کی جنگ ہوئی تو سرحدی علاقہ چھوڑ دیا اور اس بچے کو ساتھ لے کر ملتان چلے گئے۔ خیال صاحب کی شادی ہوگئی تو بھی اس بچے کو ساتھ رکھا۔ ایران پی ایچ ڈی کرنے گئے تو بھی اپنی بیوی اور ایک بچے سمیت ساتھ لے گئے۔ اپنے بچوں کی طرح پالا اور تعلیم دلوائی۔
ڈاکٹر خیال کی ساری عمر مالی مشکلات میں گزری۔1990 میں ریٹائر ہوئے۔ قلیل پنشن تھی‘ 1997 میں صرف 1519 روپے۔ آنکھ میں موتیا اتر آیا۔ لکھنا پڑھنا مشکل ہوگیا۔ اس کا حل آپریشن تھا مگر سکت نہ تھی۔ ڈاکٹر کاوش کو پتہ چلا تو یاد دلایا کہ جس بچے کو اولاد کی طرح پالا پوسا تھا وہ اب اہم عہدے پر ہے‘ اسے مشکل گھڑی میں کام آنا چاہئے۔ جواب میں ڈاکٹر صاحب نے تین چار خطوط میں جو جملے لکھے پڑھ کر آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ 5 جون 1997 کو لکھے گئے خط میں تحریر کیا ''وہ نوجوان ملک صاحب اب ضلع سرگودھا میں سول جج ہیں۔ مراسلت بہت کم ہوتی ہے کیونکہ وہ اب جج ہیں۔ غریب استاد کو کون پوچھتا ہے‘‘۔ اگلے خط میں لکھا ''آنکھ کا موتیا آپریشن کیلئے تیار ہے۔ ملک صاحب سول جج سرگودھا کو ضرور لکھیں۔ کیا اسی دن کیلئے ہم غریب پروری اور انسان دوستی کا ثبوت دیتے چلے آئے ہیں۔ خدا کسی پر برا وقت نہ لائے۔ اچھے دنوں میں آدمی کو اپنی اوقات یاد رکھنی چاہئے اور حسب توفیق نیکی کا بدلہ نیکی سے دینا چاہئے۔ مجھے وضاحت کی کیا ضرورت ہے۔ آپریشن کیلئے پانچ دس ہزار درکار ہیں۔ اب ڈی سی لیہ سے کہوں گا۔ درحالیکہ اولاد بھی برسرروزگار ہے اور جج صاحب جیسے لوگ بھی موجود ہیں لیکن پریشانی بدستور ہے۔ لعنت دنیا پر نہیں، ہم اپنے آپ کو لعنت کے لائق تصور کرتے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر کاوش نے جج صاحب کو سرگودھا خط لکھا لیکن اس خط کا جواب نہ آیا‘ البتہ ملک صاحب ڈاکٹر خیال کو ملنے لیہ گئے جس کا علم ڈاکٹر صاحب کے ایک خط مورخہ 28 نومبر 1997 سے ہوا۔ ڈاکٹر خیال نے لکھا ''جج صاحب چند ماہ قبل بچوں کو لے کر آیا تھا۔ پھر کہہ گیا کہ سرگودھا میں میرے سفید موتیا کا آپریشن کرائے گا۔ اس کے بعد خاموش ہے۔ اب یہیں لیہ کرائوں گا۔ میں نے اپنی زندگی بحیثیت مسلمان اور بحیثیت سوشلسٹ نیکی کے مفہوم غرض یا مطلب سے تعلق نہیں رکھا۔ جب بھی جس سے بھی جیسی بھی کوئی خدمت ممکن ہوتی ہے کر گزرتا ہوں۔ خدا نے گنجے کو ناخن ہی نہیں دیے وگرنہ ساری دنیا کو سیراب کرتا (فرعون کی طرح نہیں) بلکہ انسان کی طرح۔ ہر چیز سے بے نیاز رہتا ہوں۔ کوئی پڑھے نہ پڑھے، سمجھے یا نہ سمجھے، میرا کام تعلیم دینا ہے۔ جج صاحب کا دماغ اس کی بیوی نے خراب کیا وگرنہ وہ ایسا آدمی نہ تھا۔ مجھے نہ شکوہ نہ شکایت۔ نہ جانے کتنے شاگرد اچھے عہدوں پر چلے گئے۔ راہ میں مل جاتے ہیں تو دعا سلام ہوجاتی ہے۔ خدا کا ارشاد ہے‘ تعاونوا علی البروالتقوی۔ مجھ جیسے سر تا پا گناہگار کی حیثیت کیا اور مجھ سے نیکی کی کیا امید؟ سفر آخرت قریب ہے۔ شاید یہی جذبہ وہاں بھی کچھ کام آجائے۔ اگر نہ آسکا اور وہاں بھی کچھ نہ ملا تو سمجھیں گے بقول غالب ہم بھی کیا یاد کریں گے خدا رکھتے تھے‘‘۔
اس سے زیادہ 1987 میں لیہ کالج کے اپنے فارسی کے استاد بارے نہ پڑھا گیا۔ دل دکھ سے بھر گیا۔ نعیم بھائی کو کیوں پتہ نہ چلا‘ وہ ان کے 1970 کی دہائی میں لاڈلے شاگرد اور اب وہ خود آئی سرجن تھے۔ اگر نعیم بھائی آج زندہ ہوتے تو یہ سب پڑھ کر خود کو معاف نہ کرپاتے کہ ڈاکٹر خیال جیسے عظیم استاد کو جب بڑھاپے میں آئی سرجن کی ضرورت تھی تو ان کے اپنے شاگرد سرجن کو پتہ نہ چلا۔ ہوٹل پرکام کرتے جس بچے کو پال پوس کر بڑا کیا، اس کی زندگی بدلی، وہ جج بن کر بھی ان کے بڑھاپے اور مشکل وقت میں کام نہ آیا۔ عجیب سی اداسی اور افسردگی نے گھیرا ڈال دیا ہے۔ ڈاکٹر خیال امروہوی کا ہی شعر یاد آیا۔
انسان سے محبت کی سزا کتنی کڑی تھی
نفرت کے طمانچے میرے رخسار تک آئے