کل بارہ اکتوبر تھی۔ سوچتا ہوں ان بائیس برسوں میں کیا بدلا ‘جب بارہ اکتوبر 1999 ء کو نواز شریف کی حکومت برطرف کی گئی تھی؟
آج حالات دوبارہ وہیں جا کھڑے ہوئے ہیں۔ آج پھر اسلام آباد افواہوں کی زد میں ہے۔ پھر وہی سرگوشیاں سنائی دے رہی ہیں۔ پھر وہی خفیہ ملاقاتیں ہورہی ہیں۔ پھر قاصد مراسلے لے کر ایک دربار سے دوسرے دربار جارہے ہیں۔ سب کے ہونٹ سلے ہوئے ہیں۔ کوئی وزیرمشیر بات کرنے کو تیار نہیں۔ اور تو اور شیخ رشید صاحب تک اس سوال کا جواب دینے کو تیار نہیں ‘بلکہ گیند فواد چوہدری کی طرف لڑھکا دی کہ ان سے پوچھیں وہ خود بات نہیں کرسکتے۔ یہ وہی صاحب ہیں جو اپنی وزارت کے علاوہ دنیا کا ہر کام جانتے ہیں اور اس بارے میں رائے رکھتے ہیں۔ انہیں پوری دنیا کا پتا ہے لیکن اگر پتا نہیں ہے تو اپنی وزارت کا کہ باقی ملک چھوڑیں صرف اسلام آباد میں جرائم کی شرح بہت بلند ہوچکی اور اب اس شہر میں جرائم اور جرائم پیشہ ہی حکمرانی کررہے ہیں۔
سوال یہ ہے ان برسوں میں بارہ اکتوبر سے بارہ اکتوبر تک کیا بدلہ ؟ کس نے کوئی سبق سیکھا یا ایک ہی سبق سیکھا کہ طاقتور سے بنا کر رکھو‘ جس کے پاس توپیں یا بندوقیں ہیں۔ چلیں عمران خان صاحب کو تو پتا نہیں تھا کہ اقتدار کا کھیل کیسے کھیلا جاتا ہے اور اس کی کیا ضروریات ہوتی ہیں لیکن نواز شریف کو تو پورا علم تھا کیونکہ وہ پہلے دو دفعہ وزیراعظم بن چکے تھے تو تیسری دفعہ بھی وہ کچھ نہ سیکھ سکے اور وہیں سے سلسلہ شروع کیا جہاں وہ بارہ اکتوبر 1999 ء کو چھوڑ گئے تھے۔ میری نواز شریف کے بارے ایک رائے ہے کہ انہیں چوتھی دفعہ بھی وزیراعظم بنا دیں تو وہ چوتھی دفعہ بھی اپنی حکومت تڑوا کر جیل سے ہوتے ہوئے جدہ یا لندن جا بیٹھیں گے۔ جب وہ تیسری دفعہ وزیراعظم بنے تو کچھ امید تھی کہ اب کی دفعہ وہ کچھ اداروں کو ضرور مضبوط کریں گے جو کل کلاں ان کو بچا سکیں‘ لیکن ان برسوں میں انہوں نے انہی اداروں کو کمزور کیا جو ان کو بچا سکتے تھے۔ پارلیمنٹ جو اُن کا سیاسی گھرانہ تھا وہاں وہ آٹھ ماہ تک نہ گئے۔ سینیٹ آف پاکستان میں ایک سال تک نہ گئے اور سینیٹر رضا ربانی صاحب کو رولز میں ترمیم کرانا پڑی کہ وزیراعظم اور کچھ نہیں تو کچھ عرصے بعد ہاؤس کا چکر ہی لگالیا کریں۔ وہ پھر بھی ایک دفعہ نہیں گئے۔ باقی چھوڑیں کابینہ کا اجلاس چھ چھ ماہ بعد ہوتا رہا۔ وہ کابینہ جس نے ملک کے اہم فیصلے کرنے تھے۔ یوں سب کچھ ٹھیکے پر دے کر وہ خود ابن بطوطہ کی طرح دنیا کے سفر پر نکلے اور سو سے زائد ملکوں کا دورہ کیا اور پورے چار سو دن ملک سے باہر رہے۔ بیرونِ ملک سے جو تحائف وصول کیے ان کی نہ کوئی خبر ہے نہ وہ بتانا چاہتے ہیں۔ سینیٹ میں کلثوم پروین نے پوچھ لیا کہ نواز شریف کو بیرونی دوروں میں کیا کچھ ملا‘ جواب میں جنرل مشرف کا 2002ء کے آرڈیننس کی کاپی بھیج دی کہ یہ سب تحائف قومی راز ہیں‘ نہیں بتائے جا سکتے۔ وہی مشرف جو برا لگتا تھا اس کا آرڈیننس اچھا لگ گیا کیونکہ تگڑا مال چھپانے کا موقع مل رہا تھا۔ یہی کام اب خان صاحب نے تحائف پر کیا ہے۔
نواز شریف دور میں کچن کیبنٹ حکومت چلا رہی تھی۔ اسحاق ڈار‘ مریم نواز اور دو تین فیورٹ بابوز جو اُن کے کہنے پر کچھ بھی کرنے کو تیار تھے۔ایسے ہی بابوز کی ضرورت ہر حکمران کو رہتی ہے۔
یاد آیا کہ چین کے دورے میں فرمایا تھا کہ سب سے سینئر افسر کو سپہ سالار بنائوں گا۔ اب کی دفعہ ماضی کی غلطی نہیں دہرائی جائے گی لیکن جونیئر کو ہی سپہ سالار لگایا۔
اب عمران خان صاحب کی باری ہے۔آپ اُن کو وزیراعظم بننے سے پہلے ذاتی طور پر جانتے ہوں تو میں شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ آپ اب انہیں نہیں پہچان سکتے۔ کم از کم میرے لیے انہیں پہنچاننا مشکل ہے۔ اقتدار نے انہیں بھی بدل دیا ہے اور کسی کو حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔ انہیں بھی ہم عام لوگوں کی طرح ذاتی فائدہ نقصان کی پروا ہے‘ اگر نہ ہوتی تو وہ کبھی عثمان بزدار جیسے بندے کو وزیراعلیٰ پنجاب نہ لگاتے۔ عمران خان نے صرف اپنا فائدہ دیکھا یا ان کا جنہوں نے عثمان بزدار کا استخارہ نکالا تھا ورنہ آپ کوان صاحب سے ملنے کے دو تین منٹ بعد اندازہ ہوجاتا ہے کہ کس طرح کی چوائس تھی اور اس کا نتیجہ کیا نکلنا ہے۔ ایک اہم وزیر نے کہا کہ خان صاحب وزیراعظم بن کر ہر ذہین اور قابل بندے سے خوف زدہ ہیں لہٰذا انہوں نے جان بوجھ کر پنجاب اور خیبرپختونخوا میں کوئی ایسا بندہ نہیں لگایا جسے وہ چند منٹ میں برطرف نہ کرسکتے ہوں۔ انگریزی فلم Heat یاد آئی جس کا ایک ڈائیلاگ تھا کہ میں نے زندگی میں ایسا کوئی تعلق نہیں بنایا یا رکھا جسے میں چند سکینڈز میں بریک نہ کرسکوں۔یہ ڈائیلاگ خان صاحب پر فٹ بیٹھتا ہے۔
خان صاحب بھی نواز شریف کے نقش قدم پر چلے۔ انہیں بھی یہی احساس ہوگیا کہ عوام کی طاقت سے زیادہ بندوق کی طاقت سے وزیراعظم بنا اور حکومت کی جاتی ہے لہٰذا وہ بھی قومی اسمبلی اور سینیٹ سے دور رہے۔ سینیٹ میں تو مجھے یاد نہیں پڑتا کہ وہ آخری دفعہ کب گئے تھے۔ ہاں ایک کام انہوں نے ضرور اچھا کیا جو نواز شریف نے نہیں کیا تھا۔ خان صاحب نے ہر ہفتے کابینہ اجلاس بلا کر ریکارڈ قائم کیا ہے جس کو سراہنا چاہئے کہ کم از کم اس جمہوری فورم کو انہوں نے تقویت بخشی جو پہلی حکومتوں میں نہیں تھی۔ نواز شریف دور میں تو بالکل بھی نہیں تھی۔
اگرچہ انہی کابینہ اجلاسوں میں ان کی اپنی حکومتوں کے سکینڈلز بریک ہوتے رہے‘ انکوائریز ہوتی رہیں لیکن مجال ہے کسی ایک پر کوئی ایکشن ہوا ہو۔ سب اپنے یار دوست تھے جس کے ہاتھ جو لگا ‘وہ لے گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نواز شریف دوبارہ پوری قوت سے سیاسی منظر نامے پر نمودار ہوچکے ہیں۔ میں بار بار ایک بات دہراتا ہوں کہ شریف خاندان بائیس برس دوبارہ کھڑا نہیں ہوسکتا تھا لیکن خان صاحب کی گورننس اور ان کے لاڈلے بزدار نے انہیں بائیس ماہ میں دوبارہ اپنے پائوں پر نہ صرف کھڑا کیا بلکہ وہ اب عمران خان کی حکومت کے پائوں کاٹنے پر آگئے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ آج کل اسلام آباد میں ڈی جی آئی ایس آئی کے ایشو پر کشمکش کے مناظر اندرونِ خانہ چل رہے ہیں‘ خان صاحب کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں‘ نہ ہی انہیں کسی کلہاڑے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی ہی حکومت کے پائوں کاٹ ڈالیں۔ جس شاخ پر آپ بیٹھے ہوں اور اسے ہی کاٹ رہے ہوں۔ ایسے منظر دیکھنا ہو تو آج کل اسلام آباد کی طرف دیکھیں۔
کیا کریں ہر تین سال بعد اسلام آباد پنڈی کا پھڈا ہونا ہی ہوتا ہے چاہے سربراہ آپ اپنی مرضی کا رکھ لیں۔ اب کم از کم نواز شریف کہہ سکتے ہیں کہ جناب یہ الزام صرف مجھ پر ہی کیوں کہ میری اپنے ہی لگائے ہوئے آرمی چیف سے نہیں بنتی۔
بارہ اکتوبر سے بارہ اکتوبر تک وہی پرانا پھڈا ہے۔ بارہ اکتوبر 1999ء والے دن بھی یہی پھڈا تھا‘ آج بارہ اکتوبر 2021ء کو بھی وہی پھڈا ہے۔ وہی فیض صاحب والی بات کہ پاکستان کو کچھ نہیں ہوگا، یہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔