آج کل پرانی کتابوں سے خریدی گئی ایک کتاب پڑھ رہا ہوں جس کا نام ہے : Jinnah as a Parliamentarian۔یہ کتاب قائداعظم کی پارلیمانی زندگی کے بارے ہے اور انہوں نے لیجسلیٹو اسمبلی میں جو کردار ادا کیا تھا ‘ اس کا احاطہ کرتی ہے۔ اس اہم کتاب کو آئی اے رحمن‘ محمد جعفر اور غنی جعفر نے ایڈٹ کیا ہے اور یہ جنوری 1977ء میں چھپی تھی۔اس کتاب میں قائداعظم کی لیجسلیٹو اسمبلی میں پیش کی گئی ہر موشن اور اس پر تقریر کا بیک گرائونڈ دیا گیا ہے جو اُس دور کے انگریزوں اور ہندوستانی لیڈروں کے درمیان جاری کشمکش اور ماحول کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔
اُس وقت ہندوستانی قوم پرستوں کو ایک ایشو پر شدید شکایت تھی کہ ہندوستان کے پڑھے لکھے لوگوں کو انگریز سول سروس میں اہم اور بڑے عہدوں پر تعینات نہیں کرتے۔اس پراسمبلی میں موشن پیش کی گئی اور اس پر بحث میں قائداعظم نے بھی شرکت کی کہ ہندوستانیوں کے ساتھ یہ امتیازی سلوک کیوں کیا جارہا ہے کہ انہیں سول سروس کے اعلیٰ عہدوں سے محروم رکھا جارہا ہے‘ ہر جگہ گورے افسران ہی تعینات ہیں‘ ہندوستانیوں کو انتظامیہ میں صرف نچلے لیول کے عہدے دیے جاتے تھے۔ اس پر قائداعظم نے اپنی تقریر میں کہا کہ انگریزوں کو اپنی سول سروس میں اصلاحات کی سخت ضرورت ہے۔
دراصل یہ پالیسی کہ ہندوستانیوں کو سول سروس کے اعلیٰ عہدوں سے دور رکھیں ‘ Lord Cornwallisنے بنائی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستانی اس قابل نہیں کہ انہیں اہم سول عہدے دیے جائیں کہ یہ ملک یا کمپنی چلا سکیں۔ لارڈ کا تو یہ بھی کہنا تھا کہ ہندوستانیوں پر بھروسا بھی نہیں کیا جاسکتا ‘ اس لیے انہیں چھوٹے موٹے کام دیے جائیں۔ مطلب تھا کہ حکومتیں‘ ملک یا کمپنی چلانا ہندوستانیوں کے بس کی بات نہیں۔
یقینا یہ ایسی پالیسی تھی جو ہندوستانیوں کے لیے قابل ِقبول نہ تھی‘ لیکن کیا کریں انسانی تاریخ میں جب کوئی قوم کسی اور قوم کی غلام بنتی ہے تو یقینا حملہ آوروں کی نفسیات کچھ اور ہوتی ہے۔ وہ خود کو دوسروں خصوصاً محکوم قوم سے بہتر سمجھتے ہیں۔ اگرچہ بعد میں اس پالیسی میں کچھ تبدیلیاں بھی کی گئیں لیکن پھر بھی بڑے عہدے ہندوستانیوں کو نہیں دیے جاتے تھے اور بات وہی تھی کہ ان پر انہیں بھروسا نہیں تھا یا یوں کہہ لیں کہ انگریز انہیں اس قابل نہیں سمجھتے تھے کہ وہ ایک ضلع چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘ صوبہ یا ملک چلانا تو دور کی بات تھی۔
خیر قائداعظم نے اس موضوع پر جو بات کی‘ تو اسی سے بعد میں انڈین سول سروس کے دروازے ہندوستانیوں پر کھلے اور انہیں گوروں نے ٹرینڈ کرنا شروع کیا تا کہ جب وہ یہاں سے واپس چلے جائیں تو یہ خود پر حکمرانی کے قابل ہوسکیں۔ اگر دیکھا جائے تو ہندوستان کو آزاد کرانے کی سب تحریکوں کے لیڈرز وہی ہندو اور مسلمان تھے جو لندن سے پڑھ کر لوٹے تھے۔خیر ‘جو مسلمان اور ہندو افسران گوروں کے دور میں سول سروس میں بھرتی ہوئے اور ان کے ساتھ سرو کیا ان کی اپروچ اور آج جو بھرتی ہورہے ہیں ان کی اپروچ میں فرق ہے۔ اُس دور میں ICS افسر بننا کتنا بڑا اعزاز تھا‘کتنا بڑا بھروسا تھا‘ کتنی بڑی ذمہ داری تھی‘ اُس دور کے افسران کی لکھی کتابیں پڑھیں تو اندازہ ہوجاتا ہے۔ آج تو خیر کوئی بیوروکریٹ اس قابل نہیں رہا کہ وہ اپنی آپ بیتی لکھ سکے۔ اگرچہ چند ایک نے لکھی ہیں اور وہ پڑھنے کے قابل بھی ہیں۔ حالیہ دنوں سابق بیوروکریٹ شکیل درانی نے آپ بیتی لکھی ہے اور بہت شاندار ہے جبکہ ابھی مارکیٹ میں ایک اور نئی آٹو بائیوگرافی آئی ہے''Diplomatic Footprints‘‘ جوسابق سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری صاحب نے لکھی ہے جو امریکہ میں پاکستان کے سفیر بھی رہے۔ ابھی اس کتاب کے ڈیڑھ سو صفحات پڑھے ہیں اور مجھے کہنے دیں کہ انہوں نے واقعی ایک شاندار کتاب لکھی ہے جو سول افسران کو پڑھنی چاہیے۔ ایک اور آپ بیتی جس کا مجھے بے تابی سے انتظار ہے وہ مشہور افسانہ نگار اور سابق بیوروکریٹ طارق محمود نے لکھی ہے۔ میرے پبلشر دوست محمد افضال صاحب نے وعدہ تو جولائی کا کیا تھا لیکن اب نومبر آ گیا مگر کتاب ابھی نہیں چھپی۔ سوچا گلہ کر لوں۔ خیر اس پر کسی وقت پھر بات کریں گے۔ ذکر ہورہا تھا وہ بیوروکریسی کہاں گئی جو انگریز دور کی تھی؟
آج سنتے ہیں پنجاب میں ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او اور دیگر افسران کی پوسٹنگ کی بولیاں لگ رہی ہیں۔ کبھی یہ سوچا جا سکتا تھا کہ صاحب بہادر بننے کے لیے آپ کو دوسروں کی چونچ گیلی کرنی پڑے گی؟پاکستانی حکمرانوں نے جان بوجھ کر بیوروکریسی کو تباہ کیا یا یوں کہہ لیں کہ بیوروکریسی بھی اسی رنگ میں ڈھلتی چلی گئی اور بار بار انگریز کی اس بات کو درست ثابت کیا کہ آپ ہندوستانی بیوروکریٹس پر اعتماد نہیں کر سکتے۔ مان لیتے ہیں کہ پاکستان کو اچھے سیاسی حکمران نہیں ملے؛ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ پالیسی حکمران بناتے ہوں گے لیکن ان پر عمل درآمد بیوروکریٹس کرتے ہیں۔ آپ کسی ضلع میں چلے جائیں اور اس کی حالت دیکھ لیں‘ اندازہ ہو جائے گا کہ وہاں تعینات ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کو اس ضلع سے کتنی دلچسپی ہے۔ حیران ہوتا ہوں جو دلچسپی ہزاروں میل دور سے آئے گورے افسران کو اس خطے اور لوگوں سے تھی وہ ہمارے افسران کو کیوں نہیں؟ اگر گوروں کی اس خطے کے لیے تشویش کا ثبوت چاہیے تو کسی وقت Strangers in India پڑھ لیں جس کا اکثر میں ذکر کرتا رہتا ہوں۔ ہمارے سول افسران میں انگریز افسر گرین لین جیسی commitment کیوں نہیں رہی جو انہی ہندوستانیوں کے غم میںاپنے کمشنر سے لڑتا رہتا تھا۔
لوگ ناراض ہو جائیں گے لیکن کیا کریں کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے لوگ بیوروکریسی کو اس لیے جوائن نہیں کرتے کہ انہوں نے پبلک سروس کرنی ہے یا وہ عوام کی ترقی چاہتے ہیں‘ انہیں سرو کرنا چاہتے ہیں یا معاشرے کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ میں نے سی ایس ایس کرنے والے جن دوستوں سے پوچھا تو 99 فیصد کے ذہن میں سی ایس ایس کا تصور طاقت ‘ پیسہ اور معاشرے میں بڑے سٹیٹس کا تھا۔ عوام کی خدمت ان کی ترجیحات میں نہیں تھی۔
یقینا اچھے افسران بھی ڈی ایم جی اور پولیس گروپ میں ملتے ہیں جنہوں نے سزائیں بھگتیں لیکن سرنڈر نہیں کیا۔ مان لیا کہ اس ملک کو اچھی سیاسی قیادت ہی چلا سکتی ہے لیکن کیا کریں جب حکمران لین دین کے بعد افسران کو پوسٹنگ دیں گے تو پھر یہی کچھ ہوگا۔ ابھی آپ کالعدم تحریک لبیک کا جلوس دیکھ لیں۔ آپ کو کوئی بڑا افسر نظر نہیں آیا جو لیڈ کرتا۔ چیف سیکرٹری‘ سیکرٹری داخلہ‘ آئی جی پولیس سب غائب تھے۔ لگتا تھا سب کچھ ایس ایچ او کے ذمے تھا۔ پولیس اور ڈی ایم جی عہدوں کے فوائد سب بڑے افسران کی قسمت میں ہیں جبکہ گولیاں کھانا‘ لاٹھیاں کھانا یا تشدد کا سامنا کرنا ہو تو چھوٹے اہلکار سامنے کر دو۔ آپ کو اس بحران میں کوئی ایک بھی بڑا افسر لیڈ کرتا نظر نہیں آیا۔ خیر چُوری کھانے والے ان افسران سے کیا گلہ جب بحران کے دنوں میں جناب وزیراعظم خود ہی غائب ہوگئے اور لگتا تھا ملک آٹو پائلٹ پر چل رہا ہے۔ سب حکمرانی کی عیاشیاں کرنا چاہتے ہیں لیکن حکمرانی جو ذمہ داری اور قربانی مانگتی ہے وہ دینے کو تیار نہیں‘ تو پھر ان معاشروں میں انارکی ہی پھیلتی ہے۔ ویسے جو حالت ان چوہتر سالوں میں بھارت اور پاکستان کی ہوچکی ہے کبھی کبھار تو لگتا ہے گورے لارڈ کورن والس نے ہندوستانیوں کے بارے درست ہی کہا تھا۔