وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت کابینہ اجلاس کی کچھ باتوں کا پتہ چلا ہے تو یوں لگا کہ ہم جو غلط کام پندرہ بیس سال پہلے کررہے تھے وہ آج بھی جاری ہیں۔ برسوں پہلے شوکت عزیز کے ایک غلط فیصلے کی قیمت پاکستانیوں نے بھگتی اور اب بھی بھگتیں گے۔حیران ہوتا ہوں کہ ہمارے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ ہم اتنے گھامڑ کیوں واقع ہوئے ہیں؟
پندرہ برس پہلے شوکت عزیز غلط فیصلے کررہے تھے تو آج عمران خان کررہے ہیں۔ شوکت عزیز چونکہ پاکستانی عوام کو جوابدہ نہیں تھے ‘نہ انہوں نے الیکشن لڑنے تھے‘ نہ دوبارہ وزیراعظم بننا تھا لہٰذا وہ افورڈ کرسکتے تھے کہ جو مرضی کریں۔ کیا عمران خان بھی یہی سمجھتے ہیں کہ انہوں نے دوبارہ وزیراعظم کا الیکشن نہیں لڑنا ‘لہٰذا وہ بھی شوکت عزیز والا راستہ چنیں؟
جب شوکت عزیز وزیراعظم کی پوسٹ سے ہٹے تو میں نے انگریزی اخبار میں ایک سٹوری دی تھی کہ وہ بہت جلد پاکستان چھوڑنے والے ہیں اور پھر کبھی نہیں لوٹیں گے۔ میں نے سوال اٹھایا تھا کہ حکمران جماعت اب کس کو جلسے جلوسوں میں لا کر عوام کے آگےSale کرے گی کہ وہ ان کا مستقبل کا وزیراعظم ہے کیونکہ شوکت عزیز تو اڑنے والے ہیں۔ وہ کھاپی کر‘ پیٹ بھر کر توشہ خانہ کے کروڑوں روپوں کے گفٹ بیگز میں بھرکر فلائٹ پکڑنے والے ہیں۔ اس پر شوکت عزیز بڑے ناراض ہوئے اور انہوں نے باقاعدہ میرے اخبار کے مالک کو فون کر کے شکایت کی تھی کہ ان کے رپورٹر نے ''فیک نیوز‘‘ دی اور انہیں بدنام کرنے کی سازش کی گئی۔ ان کا فرمانا تھا کہ وہ نہ صرف الیکشن لڑیں گے بلکہ دوبارہ وزیراعظم بھی بنیں گے۔ فرمایا: یہ ان کے سیاسی کیریئر کے خلاف سازش ہے کہ وہ پاکستان چھوڑ کر لندن جارہے ہیں۔ ان کی آواز میں اتنا اعتماد تھا کہ میرے اخبار کے مالک بھی گھبرا گئے۔ٹھیک ایک ہفتے بعد خبر آئی کہ شوکت عزیز پاکستان سے چلے گئے ہیں۔ پندرہ برس ہونے کو ہیں انہوں نے دوبارہ یہاں قدم نہیں رکھا۔
اگست‘ ستمبر 2007 ء کے دنوں کی بات ہے کہ وزارتِ زراعت کی ایک سمری شوکت عزیز کی کابینہ میں گئی اور درخواست کی گئی کہ گندم کی بوائی کا موسم آنے والا ہے‘ لہٰذا گندم کی شارٹیج پوری کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کسانوں کو گندم کا ریٹ زیادہ دیا جائے۔ یہ سمری دو تین دفعہ کابینہ اجلاس میں پیش ہوئی۔ ہر دفعہ مسترد ہوئی۔ شوکت عزیز اور ان کے وزیروں نے کسانوں کو پچاس روپے فی من اضافہ بھی نہ دیا۔ ایم کیو ایم کے وزیروں کے علاوہ شیخ رشید نے بھی گندم کی امدادی قیمت میں اضافے کی مخالفت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پچاس روپے کسان کو زیادہ ملے تو شہروں میں تباہی آ جائے گی۔ ان کا شہری ووٹر بھوک سے مر جائے گا۔ آٹے کے قیمت بڑھ جائے گی۔ وہ الیکشن ہار جائیں گے۔ شوکت عزیز نے ایم کیو ایم اور شیخ رشید کے حق میں فیصلہ کیا اور یوں گندم کی امدادی قیمت نہ بڑھائی گئی۔اس کے باوجود حکمران جماعت الیکشن ہار گئی۔ اس ایک فیصلے کا نتیجہ یہ نکلا کہ گندم کی کاشت کم ہوئی۔ پاکستان میں شارٹیج ہوئی اور اگلے دو سال میں پاکستان نے تین چار ارب ڈالرز کی گندم کینیڈا‘ امریکہ اور آسٹریلیا کے کسانوں سے مہنگے داموں خریدی۔ کئی بڑے لوگوں اور پارٹیوں نے امپورٹ میں پیسہ بنایا۔ اللہ بھلا کرے یوسف رضا گیلانی کا جنہوں نے وزیراعظم بننے کے بعد گندم کی امدادی قیمت میں بڑا اضافہ کیا جس سے ہر سال گندم کی بمپر کراپ ہونے لگی اور 2010 ء سے2019ء تک پاکستان نے گندم باہر سے منگوانا تو دور الٹا ایکسپورٹ کی۔
شوکت عزیز کے ایک غلط فیصلے کی قیمت تین چار ارب ڈالرز پڑی۔ برسوں بعد وہی کام عمران خان کی کابینہ میں منگل کے روز ہوا جب سیکرٹری انچارج زراعت طاہر خورشید ایک سمری لے کر کابینہ میں گئے کہ گندم کی بوائی ہونے والی ہے لہٰذا گندم کی امدادی قیمت سو‘ ڈیڑھ سو روپے بڑھا دیں۔ وزیرزراعت فخر امام کی منشا بھی اس میں شامل تھی۔ سیکرٹری زراعت کے ذہن میں تھا کہ پاکستان پچھلے ایک سال سے گندم امپورٹ کررہا ہے اور اب تک تقریباً چالیس لاکھ ٹن گندم روسی کسانوں سے مہنگے داموں خرید چکا ہے جس پر اربوں ڈالرز خرچ ہوئے ہیں۔ جو قیمت پاکستانی کسانوں کو دی گئی اس سے ایک ہزار روپے زیادہ روسی کسانوں کو دیے گئے۔ یوں جو پیسہ پاکستانی کسان کما سکتے تھے وہ روسی کسانوں کی جیبوں میں گیا‘لہٰذا بہتر ہے کہ وہ پیسہ پاکستانی کسانوں کو دیا جائے اور ڈالرز بھی بچائے جائیں۔مگر خان صاحب نے وہی راستہ لیا جو شوکت عزیز نے لیا تھا۔ شیخ رشید نے بھی پندرہ برس پرانی کہانی دہرا دی۔ شیخ صاحب فرمانے لگے کہ خان صاحب کوئی بھی حکومت مخالف تحریک دیہات سے نہیں چلتی‘ سب تحریکیں شہروں سے اٹھتی ہیں اور حکومتیں الٹ دیتی ہیں لہٰذا آپ شہروں پر فوکس کریں‘ گندم کی قیمت نہ بڑھائیں۔ سب سے زیادہ حیران کن ردعمل ہمارے کسانوں کے سابقہ چیمپئن شاہ محمود قریشی نے دیا۔ وہ بھی گندم کی قیمت بڑھانے کے حق میں نہ تھے۔ ان کا ساتھ خسرو بختیار نے دیا جن کی اپنی شوگر ملیں اور بھائی کی فلورملیں ہیں۔ انہیں خطرہ پڑ گیا کہیں گندم کا رقبہ شوگر کے رقبے کو نہ کھا جائے اور وہ جو اربوں روپے کی سبسڈیاں لے رہے ہیں وہ ماری نہ جائیں۔تاہم حیرانی کی بات ہے کہ شہروں کے وزیر اسد عمر‘ شوکت ترین‘ رزاق دائود نے کہا کہ سپورٹ پرائس 1950 فی من کردیں تاکہ امپورٹ نہ کرنی پڑے لیکن زمیندار لابی اس حق میں نکلی کہ گندم کی امدادی قیمت نہ بڑھائی جائے جبکہ شیخ رشید کے علاوہ شہری لابی کا کہنا تھا کہ مہنگائی بڑھنے کی وجہ سے کسان کو ریلیف دینا ضروری ہے۔
کسانوں کے نمائندہ وزیر ہی کسانوں کے دشمن نکلے۔ اس پر خاصی بحث ہوتی رہی تو کسی وزیر نے ڈرایا کہ پھر ابھی اعلان نہ کریں کیونکہ وزیراعظم نے ریلیف پیکیج کا اعلان کرنا ہے اور اگر سپورٹ پرائس بڑھ گئی تو سارا کریڈٹ ختم ہو جائے گا۔ اس پر فیصلہ ہوا کہ گندم کی امدادی قیمت بڑھانی ہے یا نہیں اس کا فیصلہ اس ہفتے کے آخر تک موخر کر دیں۔
بات وہی ہے کہ اپنے کسانوں کو 2000 روپے فی من نہیں دینا لیکن روسی‘ کینیڈین‘ امریکی اور آسٹریلوی کسانوں سے 3000 روپے فی من میں ‘ڈالروں میں ادائیگی کر کے‘ گندم لے لینی ہے۔ شہری بابوز بھی خوش رہتے ہیں کہ گندم کی قیمت نہیں بڑھی لہٰذا آٹا سستا ملے گا۔ انہیں یہ نہیں پتہ کہ مہنگی گندم ان کی جیب سے ہی خریدی جاتی ہے۔ یوں شوکت عزیز ہوں یا عمران خان‘ وہ غیرملکی کسانوں کو اربوں ڈالر دے دیں گے لیکن اپنے کسان کو پیسہ دیتے وقت وہ شیخ رشید کی دھمکی سے ڈر جائیں گے کہ ووٹ نہیں ملیں گے یا دیہاتی کسان پرامن لوگ ہیں‘ وہ تحریکیں نہیں چلاتے لہٰذا انہیں رگڑتے رہو۔
پھر ہم کہتے ہیں کہ غیرملکی اقوام نے ہم پر قبضے کر کے ہم پر ہزاروں سال راج کیسے کیا‘ یا گورے ہمیں اس قابل کیوں نہیں سمجھتے تھے کہ ہمیں بھی انگریز سرکار چلانے کے لیے اعلیٰ عہدے دیے جائیں؟
ویسے میرا ماننا ہے کہ ہندوستان پر کئی قوموں نے حملے کیے‘ قبضے کیے‘ قتل و غارت کی ‘ لوٹ مار کی لیکن انگریزوں سے بہتر کسی نے ہمیں نہیں سمجھا‘ پرکھا یا جانا ۔اس لیے وہ ہندوستانیوں کو اہم عہدے نہیں دیتے تھے کہ جیسے ان کے آنے سے پہلے انہوں نے اپنے فیصلوں اور نالائقی سے ہندوستان کو برباد کیا ویسے ہی یہ انگریز سرکار کو بھی لے ڈوبیں گے۔