لگتا ہے آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ پاکستان نے دس ارب ڈالرز کی کھانے پینے کی اشیا بیرون ملک سے منگوائی ہیں۔ ان میں گندم‘ دالیں‘ آئل اور چینی شامل ہیں۔
یہ بات ذہن میں رکھیں کہ پاکستان نے آئی ایم ایف سے صرف چھ ارب ڈالرز کا قرض لیا ہوا ہے اور اس کی شرائط پوری کرنے کے لیے ڈالر کو 170 روپے سے لے اوپر لے گئے ہیں‘ بجلی کا یونٹ جو تین سال پہلے چودہ روپے کا تھا اب چوبیس روپے سے زائد ہوگیا ہے‘ یہی حال گیس کا ہے۔ یوں سب اشیاکی قیمتیں بڑھا کر ملک میں مہنگائی کا طوفان لایا گیا تاکہ آئی ایم ایف سے صرف چھ ارب ڈالرز مل سکیں۔ اب آپ کہیں گے پھر کیا کرتے‘ اگر دس ارب ڈالرز کی اشیا نہ منگواتے تو بھوکے مرتے۔ بالکل جائز سوال ہے‘ لیکن یہ بھی پوچھنا بنتا ہے کہ کبھی یہی پاکستان اربوں ڈالرز کی گندم‘ کاٹن اور چینی ایکسپورٹ کرتا تھا۔ پاکستان کے زرمبادلہ کی کمائی کا بڑا ذریعہ زراعت تھی کہ کاٹن کی وجہ سے ٹیکسٹائل انڈسٹری ایکسپورٹ کررہی تھی۔ حالت یہ ہوچکی ہے کہ دو ارب ڈالرز کی کاٹن باہر سے خرید کر لائی گئی۔ اندازہ کر لیں جو ملک کبھی پندرہ ملین بیلز پیدا کرتا تھا اور دنیا بھر میں وہ کاٹن بیچی جاتی تھی وہ اب خود دو ارب ڈالرز کی کاٹن خرید کر لا رہا ہے کیونکہ پاکستان میں کاٹن کا رقبہ بہت کم ہوگیا ہے۔ اس کی جگہ اب کماد نے لے لی ہے کیونکہ حکمران خود شوگر ملوں کے مالک تھے۔ ان کی کاٹن فیکٹریاں یا ٹیکسٹائل ملز نہیں تھیں‘ لہٰذا انہوں نے اپنے کاروبار کو فائدہ دیا۔ شوگر پر اربوں روپوں کی سبسڈی دی اور باہر بھیج کر مال بنا لیا۔ کاٹن کا ایریا گرتا چلا گیا اور بتایا جارہا ہے کہ کاٹن کی شاید آٹھ دس ملین بیلز ہوں گی۔ یہی گندم کے ساتھ ہوا‘ کہ ہم نے چالیس لاکھ ٹن گندم روسی کسانوں سے خریدی۔ چینی بھی باہر سے خریدی جارہی ہے۔ ویسے ہمارے سمجھدار اور ہینڈسم حکمرانوں کو داد دیں کہ یہ سب گندم اور چینی دو سال پہلے تک ملک میں وافر مقدار میں موجود تھی۔ ایک سال کے اندر ہی دونوں اشیا غائب ہوگئیں۔ پتہ چلا کہ انہیں شوگر ملز ایسوسی ایشن نے بیوقوف بنایا‘ اور اُن کا ساتھ دینے والوں میں کامرس کے مشیر شامل تھے۔ اگر آپ شوگر انکوائری رپورٹ پڑھیں تو اندازہ ہوگا کہ کابینہ اور ای سی سی میں اکثریت کتنی نالائق ہے کہ انہیں شوگر ملز والے آرام سے چونا لگا گئے اور اب پاکستان اربوں لگا کر مہنگی چینی باہر سے خرید رہا ہے۔
شوگر ملز والوں نے رزاق داؤد کو کہانی ڈالی کہ ہمارے پاس بیس لاکھ ٹن چینی وافر پڑی ہے۔ باہر بھجوا دیں۔ اس پر شروع میں اسد عمر نے‘ جو اُس وقت وزیرخزانہ تھے‘ مزاحمت کی تو انہیں عمران خان نے خود کہا‘ یار جانے دو‘ انہیں کرنے دیں۔ الٹا کہا گیا کہ انہیں سبسڈی بھی دیں۔ انکوائری شروع ہوئی تو پتہ چلا کہ ملک میں ہرگز بیس لاکھ ٹن چینی وافر نہیں تھی۔ یہ سب پلان کے تحت کیا گیا۔ حکومت سے چار ارب روپے لے کر تین چار لاکھ ٹن چینی باہر بھجوا دی تو ساتھ ہی چینی کی قیمت لوکل مارکیٹ میں باون روپے فی کلو سے ستر روپے کلو تک پہنچ گئی۔ یہی مقصد تھا ان شوگر ملوں کا کہ چینی کی قیمت اوپر لے جا کر پیسہ کمایا جائے۔ شہزاد اکبر صاحب نے کہا تھا کہ اگر ایک روپے چینی کی قیمت بڑھے تو سمجھ لیں پانچ ارب روپے عوام کی جیب سے نکل کر شوگر ملوں کی جیب میں شفٹ ہوگئے اور اب قیمت باون روپے سے ایک سو باون تک پہنچ گئی ہے یوں خود اندازہ کر لیں کہ کتنے ارب عوام کی جیب سے نکال لیے گئے ہیں اور اس ڈاکے اور لوٹ مار کا ذمہ دار پہلے رزاق دائود کا شوگر ایڈوائزی بورڈ ہے جو سمری لے کر ای سی سی گیا کہ شوگر ملز کہہ رہی ہے کہ ہمارے پاس بہت وافر چینی ہے لہٰذا باہر بھیج دیں‘ پھر اس میں اسد عمر نے حصہ ڈالا اور اس کی منظوری دی۔ آخر پر خان صاحب اور ان کی کابینہ نے اس فیصلے پر مہر لگا دی کہ چینی بہت ہے لہٰذا باہر بھیج دیں۔ جب دو ماہ بعد چینی کی قیمت باون روپے سے اوپر گئی اور انکوائری کی گئی تو شوگر ملز والوں نے خود مان لیا کہ ان کے اعدادوشمار درست نہیں تھے‘ ان کا اندازہ غلط تھا کہ ان کے پاس وافر چینی ہے۔ یہ اعتراف رزاق داؤد نے خود کیا کہ انہیں غلط فگرز دے کر فیصلہ کرایا گیا۔ یوں چند شوگر ملز مالکان نے پوری حکومت اور اس کے وزیروں کو چونا لگایا۔ کابینہ میں بیٹھے وزیروں نے اپنی اور اپنے بھائیوں کی ملوں کو عوام کی جیب سے جہاں کروڑوں کی ادائیگیاں کرائیں وہیں وہ قیمت کو ایک سو باون تک لے کر اربوں کما رہے ہیں۔ یہ ہیں جناب وہ ماہرین جو نیا پاکستان بنا رہے ہیں۔
حالات سے سیکھنے کی حالت یہ ہے کہ جس ملک نے ابھی ایک سال میں چالیس لاکھ ٹن گندم اربوں ڈالر دے کر باہر سے منگوائی ہے وہاں کابینہ میں ایک سمری پیش ہوتی ہے کہ گندم بوائی کا سیزن شروع ہورہا ہے‘ بہتر ہے سو ڈیڑھ سو روپے گندم کی امدادی قیمت بڑھا دیں۔ اس پر سب سے زیادہ مخالفت شیخ رشید‘ شاہ محمود قریشی اور خسرو بختیار نے کی۔ چلیں شیخ رشید اور خسرو بختیار کی سمجھ آتی ہے لیکن شاہ محمود قریشی کا مخالفت کرنا سمجھ نہیں آیا۔ شیخ صاحب نے پنڈی سے ووٹ لینے ہوتے ہیں اور خسرو بختیار کے بھائی کی شوگر ملیں ہیں لیکن شاہ محمود قریشی تو کبھی کسانوں کیلئے لڑتے تھے۔ اب وہ بھی اس طبقے میں شامل ہو گئے ہیں جنہیں کسان کی خوشحالی بری لگتی ہے اور روسی کسانوں سے ڈالرز میں گندم خریدتے انہیں تکلیف نہیں ہوتی۔ تکلیف پاکستانی کسان کو سو روپے فی من زیادہ دیتے ہوئے ہوتی ہے۔
ایک گھنٹہ تک کابینہ اجلاس میں گندم کی سپورٹ پرائس سو روپے بڑھانے پر بحث ہوئی اور آخر پر کمیٹی بنا دی گئی کہ کسان کو سو روپے زیادہ دینے ہیں یا روسی کسان سے ڈالروں میں گندم خریدنی ہے۔ جس ملک کی کابینہ اپنے پچھلے غلط فیصلوں سے سیکھنے کی اہلیت نہیں رکھتی وہ بھلا کیسے ملک چلا پائے گی؟ اس ملک میں عوام کی جو چیخیں نکل رہی ہیں اس کی ذمہ داری اس حکومت کے دو تین غلط فیصلوں پر عائد ہوتی ہے۔ کابینہ نے غلط اعدادوشمار پر گندم اور چینی باہر بھجوا دی جبکہ ملک میں سٹاک کم تھے۔ اس طرح خان صاحب پر بھی کچھ دبائو بن گیا کہ ڈالر کواوپر جانے دیں۔ کہا گیا کہ ایکسپورٹ بڑھے گی۔ ذرا چیک کرلیں کتنی ایکسپورٹ بڑھی ہے۔ پیسے کی قدر کم کرکے سب کچھ برباد کیا گیا ہے۔ ایک طرف آپ دس ارب ڈالرز کی کاٹن‘ گندم‘ چینی اور دالیں منگوا رہے ہیں اور دوسری طرف دس ارب ڈالر سے زائد کا پٹرول ڈیزل بھی منگوا رہے ہیں تو‘ سمجھائیں مہنگائی کیسے نہیں ہوگی جب ڈالر ایک سو ستر روپے تک کا ہوگا۔ ڈالر کو روکنا ہی مہنگائی کا حل تھا‘ لیکن ایکسپورٹرز نے ڈالر گرا کر دو تین فیصد ایکسپورٹ بڑھا کر وہی ڈالرز باہر رکھے ہوئے ہیں اور ان سے بیرون ملک جائیدادیں خرید رہے ہیں۔ ہم نے روپیہ گرایا کہ اربوں ڈالرز کی ایکسپورٹس بڑھیں گی تو ملک کو استحکام آئے گا۔ اب پتہ چلا کہ اسی ڈالر کی وجہ سے مہنگائی نے سب کی چیخیں نکال دی ہیں۔
پرانا لطیفہ یاد آ گیا کہ مج (بھینس) بیچ کر کھوتا (گدھا) خریدا۔ بچے دودھ پینے سے گئے تو لید الگ سے اکٹھی کرنا پڑی۔