سوچتا ہوں میری اگر زبان اور لکھے میں اثر نہیں رہا تو کس کا قصور ہے؟ دنیا کا جو میری بات نہیں سمجھتی یا پھر میرے ساتھ کوئی مسئلہ ہوگیا ہے کہ کوئی سیریس نہیں لیتا؟
یہ سب باتیں میرے ذہن میں اس وقت آنا شروع ہوئیں جب قومی اسمبلی میں پی ایم ایل این کے خواجہ آصف نے حسبِ روایت ایک دھواں دھار تقریر کی اور پھر سیاستدانوں کو اچھے اچھے مشورے دینا شروع کیے۔ سیاسی پارٹیوں میں اکثر لوگ ایسے پائے جاتے ہیں کہ ان کی باتیں سن کر لگتا ہے کہ انہیں آکسفورڈ یا کولمبیا یونیورسٹی میں سیاسیات کا پروفیسر ہونا چاہئے۔ ایسی ایسی اکیڈیمک باتیں کریں گے کہ آپ کو یقین آ جائے گا کہ ان سے بہتر اور اچھا بندہ ہی کوئی نہیں‘ لیکن دھیان رہے کہ یہ سب اکیڈیمک باتیں وہ اس وقت کرتے ہیں جب سے وہ اپوزیشن کی سیاست کر رہے ہوں۔اس کیٹیگری میں نواز لیگ سے خواجہ آصف اور شاہد خاقان عباسی سرفہرست ہیں تو پیپلز پارٹی سے قمرزمان کائرہ ہیں۔ اچھی باتیں کرتے ہیں لیکن صرف اپوزیشن کے دنوں میں۔ اگرچہ کائرہ صاحب کا کریڈٹ ہے کہ اب بھی حکومت کے دنوں میں اکیڈیمک گفتگو کر لیتے ہیں لیکن خواجہ آصف اس فیلڈ میں بہت ماہر ہیں۔ میں ان کا بڑا فین رہا ہوں‘ لہٰذا ان کو قریب سے فالو کیا ہے‘ ان کی ایک ایک بات کو غور سے سنا اور سمجھا ہے۔ کبھی وہ میرے پسندیدہ تھے لیکن پھر ان کی جماعت اقتدار میں آگئی اور خواجہ صاحب اسی رنگ میں رنگے گئے۔
میرے لیے یہ نئی بات تھی کہ سیاستدان جو باتیں کرتے ہیں ان کو سیریس لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ خواجہ آصف نے برسوں پہلے جس دن قومی اسمبلی میں دھواں دھار تقریر کی تھی‘ اس دن میرا دل جیت لیا تھا۔ انہوں نے اپنے والد صاحب کا نام لے کر معافی مانگی تھی کہ انہیں جنرل ضیا کی حمایت نہیں کرنی چاہئے تھی چاہے انہیں بھٹو پر کتنا ہی غصہ کیوں نہ تھا۔ یہ بڑی بات تھی کہ ایک بیٹا برسوں بعد قوم سے باپ کی کسی غلطی پر معافی مانگ رہا تھا۔آج کے دور میں کون اپنے باپ کو غلط کہتا اور معافی مانگتا ہے۔ انہوں نے غیر جمہوری حکومتوں پر شدید تنقید کی اور بتایا کہ کیسے سیاستدانوں نے جمہوریت کا قتل کرنے میں ان حکمرانوں کی مدد کی ۔ خواجہ آصف اس دن موج میں تھے اور کھل کر بولے اور کمال بولے۔ پھر کیا ہوا‘ کچھ برس بعد وہی خواجہ آصف ایک جنرل کی مدد لینے کے لیے فون کررہے تھے کہ انہیں ہرایا جارہا ہے لہٰذا بچایا جائے۔ اب یہ خواجہ آصف کا امتحان تھا کہ وہ بے شک دھاندلی سے الیکشن ہار جاتے لیکن سروِنگ جنرل کو فون نہ کرتے‘ جس کا انکشاف بعد میں اسی جنرل نے سیاستدانوں کے ساتھ ایک ملاقات میں کیا کہ خواجہ آصف نے انہیں الیکشن والے دن فون کر کے مدد مانگی تھی۔اس دن مجھے احساس ہوا کہ کسی بات پر بات کرنا کچھ اور ہوتا ہے اور جب وقت آتا ہے تو پھر دل سے نہیں ذہن سے سوچا جاتا ہے۔ خواجہ آصف اپوزیشن کے دنوں میں دل اور وزیر بن کر دماغ سے سوچتے ہیں اور یہی ان کی کامیابی ہے۔
میں سمجھتا ہوں سیاست ‘ پارلیمانی احتساب اور پارلیمنٹ کا جنازہ 2013ء کے بعد نکلنا شروع ہوا جب نواز لیگ اقتدار میں آئی۔ نواز شریف حکومت اپنے سمدھی اسحاق ڈار کے حوالے کر کے خود ابن بطوطہ اور مارکو پولو کی طرح دنیا کی سیاحت پہ نکل گئے۔ وہی پارلیمنٹ‘ جس میں دوبارہ داخل ہونے کے لیے 1999ء سے 2013ء تک‘ چودہ برس انتظار کیا تھا‘ اس سے وزیراعظم کا ووٹ لے کر ایسے بھولے کہ مڑ کر خبر نہ لی۔ آٹھ ماہ تک وہ اسمبلی نہیں آئے‘ ایک سال سینیٹ بھی نہ گئے۔ کابینہ اجلاس چھ چھ ماہ تک نہ بلایا گیا۔ پارلیمنٹ کی وقعت زیرو کر دی گئی لیکن مجال ہے کبھی میرے مہربان خواجہ آصف کاسیاسی ضمیر جاگا اور انہوں نے اسمبلی ارکان کو یاد دہانی کرانے کی کوشش کی ہو کہ کیسے وہ سب پارلیمنٹ اور اداروں کو کمزور کررہے ہیں۔وہ وزیراعظم کو کچھ کہنے کی جرأت تو نہیں رکھتے تھے لیکن چلیں کچھ کھسر پھسر ہی کر لیتے کہ ہم کیوں پارلیمنٹ اور سیاست کو تباہ کررہے ہیں‘ کیوں اداروں کی بے توقیری کررہے ہیں‘ کیوں ہم موقع دے رہے ہیں ان قوتوں کو جو پہلے ہی سیاست اور سیاستدانوں کو بدنام کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں؟
انہی نواز شریف صاحب نے دنیا بھر کے سو سے زائد دورے کیے‘ جن میں بیس سے زائد دورے لندن کے تھے ‘ سینکڑوں مہنگے تحائف اکٹھے کیے اور جب سینیٹر کلثوم پروین نے 2017 ء میں ان تحائف کی تفصیلات مانگیں تو جواب دیا گیاکہ نواز شریف کو ملنے والے تحائف قومی راز ہیں۔ اب وہی بہانہ وزیراعظم عمران خان نے کیا ہے کہ انہیں ملنے والے مہنگے تحائف حساس نوعیت کے ہیں اور ان کے بتانے سے قومی سکیورٹی کمپرومائز ہوجائے گی۔ اس معاملے میں نواز شریف اور عمران خان میں کوئی اختلاف نہیں کہ تحائف کی تفصیلات نہیں بتانی چاہئیں۔ تحائف پر دونوں سیم پیج پر ہیں۔
یہی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے ساتھ کیا گیا کہ اس اہم ادارے کا سربراہ خورشید شاہ کو لگا کر تباہ کر دیا گیا۔ خود ہی سیاستدانوں نے وزیر بن کر اپنی حکومتوں میں کرپشن کی‘ آڈٹ پیرے بن کر انہی کے سامنے آئے اور سب جماعتوں کے ارکان نے آپس میں ہی طے کر کے پیرے سیٹل کر دیے۔خورشید شاہ کے دور میں یہ تباہی عروج پر تھی۔ پیپلز پارٹی دور کے آڈٹ پیرے پیپلزپارٹی کے ہی وزیر کی سربراہی میں سیٹل ہوئے۔جب یہ سب ہورہا تھا تو خواجہ آصف وہاں ہاؤس اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں موجود تھے لیکن اس وقت ان کے اندر کا باغی دل سے نہیں‘ دماغ سے سوچ رہا تھا کیونکہ وہ اس وقت وزیر تھے۔ اس وقت انہیں ان مسائل کی پروا نہیں تھی جن پر وہ اپوزیشن کے دنوں میں تقریریں کیا کرتے تھے۔اب خواجہ آصف صاحب پھر نئے سرے سے پوری تیاری کے ساتھ اسمبلی میں نمودار ہوچکے ہیں۔ انہیں یہ کام پی ایم ایل این نے سونپا ہے‘ اس میں شاہد خاقان عباسی بھی شامل ہیں ‘کہ اپوزیشن کے دنوں میں آپ نے ایک اچھے اور اصولی سیاستدان کے طور پر اپنا امیج دکھانا ہے۔ شاہد خاقان عباسی بھی وہی بیچ رہے ہیں کہ ساؤتھ افریقہ طرز پر ٹروتھ کمیشن بنائیں اور سیاستدانوں کے سب جرائم بھلا دیں۔ جس نے جو لوٹنا تھا‘ لوٹ لیا‘ اب پرانی وارداتیں معاف کرو اور نئے سرے سے نیا کھاتا کھول لو۔
خواجہ آصف کا چورن پرانا ہوچکا۔ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ ان بیس برسوں میں نئی نسل تیار ہوچکی۔ ہم جو پہلے گھاس کھا کر‘ ان کی تقریریں سن کر سر دھنتے رہے‘ اب ہم گھاس کھانا چھوڑچکے ہیں۔ اب خواجہ صاحب کی باتیں ہمارے دل پر اثر نہیں کرتیں۔ ان کی زبان میں وہ تاثیر نہیں رہی۔ اثر ختم ہوگیا ہے۔ اب ان کی باتوں پر راتوں کی نیند نہیں اُڑتی بلکہ سن کر جماہیاں آنے لگتی ہیں۔ کبھی کبھار خود پر غصہ آتا ہے کہ ہمیں بیوقوف بنانا کتنا آسان تھا۔ ہم سمجھدار ہوگئے ہیں یا پھر خواجہ صاحب کے کردار کی وجہ سے ان کی زبان اپنا اثر کھو چکی ہے۔ شاید خواجہ صاحب کو اندازہ نہیں ہوگا کہ بندے کی باتیں اور زبان اثر کھو جائے تو کہاں کی سیاست کہاں کا اعتبار۔