ویسے وزیراعظم عمران خان اور ان کے وزیروں نے کیا خوب قسمت پائی ہے کہ بندے کو رشک آتا ہے۔ ابھی دیکھ لیں‘ وزیراعظم خود بتا رہے ہیں کہ قوم ابھی مزید مہنگائی اور بجلی‘ پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے لیے تیار رہے کیونکہ آئی ایم ایف نے جو پانچ شرائط رکھی تھیں انہیں پورا کرنا ہے۔ اس وقت اسلام آباد میں پٹرول پمپوں کے باہر گاڑیوں کی طویل قطاریں لگی ہوئی ہیں کیونکہ ہڑتال کی کال ہے۔ لوگ گھنٹوں سے قطاروں میں ذلیل ہورہے ہیں لیکن کسی کے ذہن میں یہ ایشو نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ انہیں اس بات کی فکر بھی نہیں ہے کہ نہ صرف پٹرول کی قیمت بڑھنے والی ہے بلکہ مل بھی نہیں رہا۔ وہ اس بات سے بھی اب لاپروا ہوچکے ہیں کہ گیس کی قیمتوں میں 170 فیصد تک اضافے کے خدشہ کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ڈی اے پی کی بوری دس ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ کسانوں کو بجلی کا ریٹ چھ روپے فی یونٹ کے بجائے اس وقت اٹھارہ روپے میں پڑ رہا ہے۔ گھریلو بجلی کا یونٹ چھبیس روپے تک پہنچ گیا ہے۔ کوئی پروا نہیں بلکہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں کئی انکشافات کیے گئے۔ ایک وفاقی وزیر نے سرائیکی علاقے میں ایک نئی شوگر مل خرید لی ہے۔ جس ملک میں چینی ایک سوبیس روپے فی کلو مل رہی ہو اور بقول شہزاد اکبر اگر ایک روپیہ فی کلو قیمت بڑھے تو چینی مالکان کو پانچ ارب روپے کا فائدہ ہوتا ہو اور تین سال میں چینی کی قیمت میں تقریباً سو روپے تک اضافہ ہوا ہو‘وہاں شوگر ملز پیسہ کمانے کی بہترین مشین ثابت ہوتی ہے۔ شوگر ملز کے کاروبار میں اتنا پرافٹ ہے کہ راتوں رات لوگ ارب پتی بن گئے۔ کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف ہوا کہ چینی کا کاروبار چالیس‘ پچاس خاندانوں کے قبضے میں ہے تو اس پر خواجہ آصف نے کہا کہ چالیس ‘پچاس نہیں بلکہ پانچ‘ دس خاندان ہیں۔ اب اندازہ کریں صرف پانچ ‘دس خاندان چینی سے ان تین سالوں میں کتنے ارب روپے کما چکے ہوں گے۔ یہ تو ابھی کچھ بھی نہیں ‘ اسی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ گاڑیاں بنانے والے بڑے بڑے ادارے عوام سے اربوں کما رہے ہیں۔ ایک تو گاڑیوں کی قیمت بڑھ گئی اوپر سے اون کے نام پر سات لاکھ روپے تک کا ریٹ چل رہا ہے۔ پہلے گاڑیوں کی قیمت بڑھائی اور پھر پیسے لے کربینک میں رکھ کر اس پر پرافٹ کما رہے ہیں اور گاڑی بھی نہیں دی جارہی۔مطلب گاڑی لینی ہے تو سات لاکھ روپے زیادہ دیں۔ یہ سب باتیں پی اے سی میں بتائی گئیں۔ اگر کوئی باہر کی پارٹی نیا کار مینوفیکچر نگ یونٹ لگانا چاہے تو کار مینو فیکچرنگ کمپنیز کے تین‘ چار طاقتورمالکان اکٹھے ہوجاتے ہیں اور اسے ملک سے نکال کر دم لیتے ہیں تاکہ مارکیٹ میں مقابلہ کی فضا پیدا نہ ہو یا کوئی کوالٹی کی چیز مارکیٹ میں کم قیمت پر دستیاب نہ ہو اور وہ مرضی کا ریٹ لگاتے رہیں‘ گھٹیا میٹریل سے گاڑیاں بناتے رہیں اور اس پر بھی اون وصول کرکے مزید پیسے کماتے رہیں۔
ڈالر175 سے اوپر چلا گیا ہے۔اب جب حکومت کے گھبرانے کا وقت ہوا چاہتا تھا اس وقت مریم نواز نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے معاملے کو اتنا طول دے دیا ہے اور روز ان کی پارٹی اس پر پریس کانفرنس کررہی ہیں کہ سب چینل اور اینکرز حتیٰ کہ عوام بھی بھول گئے ہیں کہ ان کا کیا حشر ہورہا ہے اور کیسے ان کی کھال ادھیڑی جارہی ہے۔ گیس دیر سے منگوانے اور چار ڈالر پر خریدنے کے بجائے تیس ڈالر سے اوپر ریٹ پر خریدنے کو بھی لوگ بھول گئے ہیں۔ اور تو اور کابینہ کے ایک اجلاس میں وزیر خزانہ شوکت ترین نے خود تسلیم کیا کہ چینی کے ٹینڈر میں تاخیرسے پاکستان کو اربوں روپے کا نقصان ہوا کیونکہ ریٹ اوپر چلا گیا تھا۔ یہی کچھ گندم اور ایل این جی کی خریداری میں ہوا کہ بر وقت نہ خریدنے کی وجہ سے اربوں کا نقصان ہوا۔ اگر دیکھا جائے تو پچھلے چند ماہ میں پاکستانی عوام کی جیب سے اربوں روپے اضافی نکل گئے اور یہ سب اس وجہ سے ہوا کہ دو تین وزیروں اور چند بیوروکریٹس نے وقت پر فیصلہ نہیں کیا یا ای سی سی کے فیصلوں کے باوجود انہوں نے ٹینڈر جاری نہیں کیے۔ کچھ ٹینڈرز اگر جاری کیے بھی تو انہیں کینسل کر دیا اور یوں عالمی ریٹ اوپر گیا اور چند ہفتوں کے فرق سے قیمتیں کہاں کی کہاں پہنچ گئیں۔ لیکن اس سے خان صاحب اور ان کی کابینہ اور ذمہ داروں کو کیا فرق پڑنا تھا کیونکہ چینی اور گندم کا نقصان پٹرول کی قیمتیں بڑھا کر پورا کر لیا گیا۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہورہا کہ بیٹھے بٹھائے نالائقی سستی یا یوں کہیں کہ بے خوفی کی وجہ سے ایسے بڑے نقصان ہورہے ہیں۔
باقی چھوڑیں وزیرداخلہ شیخ رشید کا اعتماد ملاحظہ فرمائیں۔ انہوں نے بدھ کے روز ایک پریس کانفرنس کی اور ان کی حسِ مزاح اور اعتماد آسمان کو چھو رہا تھا۔ ایسے ایسے شگوفے سنائے کہ بندہ حیران رہ جائے حالانکہ ایک دن قبل سینیٹ کی داخلہ کمیٹی میں خاتون سینیٹر نزہت صادق نے ایف ٹین سیکٹر میں اپنے گھر ہونے والی لرزہ خیز مسلح ڈکیتی کی تفصیلات سنائی تھیں تو سب شاک میں تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ایف ٹین میں ان کے گھر کے قریب ہی اب تک دس گھروں میں مسلح ڈاکے پڑ چکے ہیں۔ انہیں یقین تھا کہ کبھی ان کے گھر بھی یہ ڈاکا پڑے گا۔ وہ اور ان کا خاوند ذہنی طورپر اس کے لیے تیار تھے اور گھر میں کچھ پیسے بھی رکھ چھوڑے تھے تاکہ جب ڈاکو گھر آئیں تو کچھ نہ کچھ ان کے ہاتھ لگے ورنہ انہوں نے سن رکھا تھا کہ پیسے نہ ملنے پر ڈاکو گھر والوں کو مارنا شروع کردیتے ہیں۔ اندازہ کریں کہ اسلام آباد کی ایک خاتون سینیٹر یہ سب سینیٹ کمیٹی میں بتا رہی تھیں اور بتاتے بتاتے ان کی آواز بھرا گئی اور پوری کمیٹی صدمے کی حالت میں تھی۔
اسلام آباد میں روز کوئی نہ کوئی بڑی واردات ہورہی ہے۔ ڈاکے مارے جارہے ہیں۔ سینیٹر نزہت صادق نے ایف آئی آر میں بھی لکھوایا کہ ڈاکو پشتو زبان میں بات کررہے تھے؛ اگرچہ گھر والوں سے اردو میں بات کررہے تھے۔یہ بھی پتہ چلا ہے کہ کچھ افغان گینگز اسلام آباد میں ایکٹو ہیں۔ ہر پندرہ دن یا ایک ماہ بعد پانچ چھ جرائم پیشہ افغان بارڈر یا قبائلی علاقوں کے راستے آتے ہیں اور اسلام آباد میں گھر لوٹ کر نکل جاتے ہیں ‘ دس پندرہ دن بعد پھر آتے ہیں۔ ای الیون سیکٹر کے بارے کہا جا رہا ہے کہ یہ ایسے لوگوں کا گڑھ بن چکا ہے۔ شہریوں کو لوٹتے ہیں اور وہاں جا کر چھپ جاتے ہیں۔ ایک نوجوان کو اسلام آباد کے ایک بڑے شاپنگ مال کے سامنے گن پوائنٹ پر روکا گیا اور اسے اتار کر اس کی نئی گاڑی لے گئے۔ یہ سب کچھ اسلام آباد میں ہورہا ہے اور شیخ رشید صحافیوں کو چٹکلے سنا رہے ہیں جبکہ کپتان حسب ِعادت قوم کو سمجھا رہا ہیں کہ وہ عظیم کرکٹر کیسے بنے۔ کپتان نے سوچا ہوگا کہ انہیںریٹائرڈ ہوئے تیس سال گزر گئے‘ شاید قوم بھول گئی ہو‘لہٰذا یاد دہانی کرا دوں۔ رہی سہی کسر مریم نواز کی پریس کانفرنس نے پوری کر دی کہ وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھ کر وہ کیسے میڈیا اشتہارات کنٹرول کرتی تھیں۔ بیس فیصد شرح مہنگائی کے ہاتھوں قوم اپنی کھال اترتی بھول کرآڈیو ٹیپس میں مصروف ہے اور خان صاحب ہر روز اپنی عظمت ِرفتہ کی کہانیاں سنا رہے ہیں ۔ حکمرانوں کی خوش قسمتی اور عوام کو بیوقوف بنانا اور کسے کہتے ہیں؟