لکھنا کچھ اور تھا لیکن صبح سویرے وٹس ایپ پر اپنے پرانے دوست اور فکشن ہاؤس لاہور کے مالک ظہور احمد خان کا وائس نوٹ سننے کے بعد اب دوپہر ہوگئی ہے اور کچھ نہیں لکھ پایا۔ اس وائس نوٹ کے اندر چھپے درد اور تکلیف کی چبھن ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔
ظہوراحمد کے نوجوان بیٹے ذیشان کو لاہور میں جین مندر اور مزنگ کے علاقے کے درمیان ٹارگٹ کر کے گولی مار دی گئی۔ چھوٹا بھائی تھانے گیا کہ بھائی کے کپڑے‘ جوتے اور پوسٹ مارٹم رپورٹ رپورٹ تو دے دیں۔ تھانیدار کہنے لگا :چھوڑو بادشاہو! کیا کرنے ہیں کپڑے جوتے اور رپورٹ‘ ایک اتفاقی حادثہ ہوا‘ بندہ کراس فائرنگ میں مارا گیا‘ دو گروپ آپس میں فائرنگ کا تبادلہ کررہے تھے‘ لاہور میں دن دہاڑے‘ سڑک پر‘ آپ کے بھائی کی قسمت خراب تھی کہ وہ اس وقت وہیں قریب واقع گھر سے دوپہر کا کھانا لے کر بک شاپ پر واپس جانے لگا تو گولی لگ گئی اور مارا گیا‘ کہاں آپ اس کے جوتے‘ کپڑے اور پوسٹ مارٹم رپورٹ تھانے میں ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔اندازہ کریں ایک بھائی پر کیا گزری ہوگی جب اس کے بھائی کی گولی سے ہونے والی موت کا ذکر تھانے میں ایسے کیا جائے جیسے کسی چڑیا کا بچہ مارا گیا ۔
یہ آئی جی پنجاب کے دفتر سے تھوڑے فاصلے پر‘ لاہور کے علاقے مزنگ کا تھانہ ہے‘ کسی دوردراز علاقے کا نہیں۔
چند لوگ ظہور احمد سے تعزیت کرنے آئے اور باتوں باتوں میں دھمکیاں دے گئے کہ وہ لوگ بہت طاقتور ہیں‘آپ کن چکروں میں پڑ گئے ہیں۔ وہ گروپ ایک دوسرے کے بندوں کو قتل کرنا چاہتے تھے‘ سڑک پر گینگ وار چل رہی تھی‘ آپ کا بیٹا کراس فائرنگ میں گولی لگنے سے ہلاک ہوگیا۔ پیغام بھی دیا گیا کہ خطرناک لوگ ہیں ‘زیادہ ہوشیاری نہ دکھائیں۔ظہور احمد خان چپ چاپ سنتا رہا کہ جوان بیٹا جو پورا کاروبار سنبھال کر اپنا دو بچوں والا گھر بھی چلا رہا تھا‘ وہ پہلے ہی کھو چکا تھا‘ انصاف ملنا تو دور کی بات کہ باپ کے کلیجے کو ٹھنڈ پڑتی ‘الٹا اسے دھمکا ڈرا کر چلے گئے۔ ظہور احمد پہلے تو شاید اللہ کی رضا سمجھ کر گھر بیٹھ جاتا لیکن پھر پتا نہیں اس کی آنکھوں کے سامنے جوان بیٹا آن کھڑا ہوا۔ لہولہان ‘جو باپ سے پوچھ رہا تھا کہ اس سے بڑا نقصان کیا ہوگا جو اس کا ہو چکا۔ اب کاہے کا ڈر؟ اب زندگی سے کیا ڈرنا؟ یہ کیا بات ہوئی کہ بیٹا بھی ان لوگوں نے دن دہاڑے قتل کر دیا اور الٹا تعزیت کے نام پر دھمکیاں بھی دے گئے۔
ظہور احمد خاموش بیٹھا سوچتا رہا کہ کیا وہ اپنے جوان بیٹے ذیشان کے قتل کو ایک حادثہ سمجھ کر بھول جائے اور جو کچھ بچا ہے اس پر صبر شکر کر لے کہ اپنے پوتے پوتیوں اور دیگر بچوں کا خیال کرے؟ خود کو تسلی دے کہ اس کا بیٹا ایک غلط جگہ پر غلط وقت پر موجود تھا۔
مان لیا کہ ایک گولی کراس فائرنگ میں لگ گئی لیکن دوسری گولی تو تاک کر لگائی گئی تھی۔ مطلب جس گروہ کے بندے نے وہ گولی چلائی وہ تاک کر نشانہ لے کر ماری گئی اور اب لاہورمزنگ پولیس ملزمان کے ساتھ مل کر اسے ایک حادثے کا رنگ دے رہی تھی تاکہ انہیں قاتلوں کو نہ پکڑنا پڑے اور کسی دن کسی اور کا جوان بیٹا کھلے عام لاہور کی سڑکوں پر ان گروہوں کی گینگ وار میں مارا جائے۔
ظہور احمد کو اچانک ایک نیا حوصلہ ملا اور اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بیٹے کے قاتلوں کو ڈھونڈے گا۔ پولیس کے پیچھے پڑے گا۔ وہ قاتلوں کو تلاش کرنے اور انہیں سزا دلوانے کے لیے کسی بھی حد تک جائے گا۔بے بس ظہور احمد خان کو کچھ نہ سوجھا کہ وہ اپنی بے بسی کا کیا علاج کرے۔ وہ کیسے قاتلوں اور پولیس سے مقابلہ کرے ‘ اس نے وائس نوٹس بنا کر اپنے ان تمام دوستوں کو تفصیل کے ساتھ بھیجنا شروع کر دیے جو‘ اس کا خیال ہے‘ اس کی مدد کرسکتے ہیں۔ اور کچھ نہیں تو ان کا وہ وٹس ایپ میسج سوشل میڈیا پر پھیلا سکتے ہیں۔ شاید اسی بہانے کچھ دبائو پولیس پر پڑے اور وہ ان قاتلوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کرے جنہوں نے اس کے دو بچوں کے باپ جوان بیٹے کو دن دہاڑے قتل کر کے اب پولیس کے ذریعے کیس دبا دیا ہے‘ بلکہ الٹا اسے دھمکیاں بھی مل رہی ہیں۔یوں ایک میسج میرے نام سے ظہور احمد نے بھیجا جس کو سن کر میں کافی دیر سے سن ہوا بیٹھا ہوں۔
جب پچھلے ہفتے مجھے سوشل میڈیا کے ذریعے اس ٹریجڈی کا پتا چلا تھا تو سوچا کہ فون پر تعزیت کرنے کے بجائے خود لاہور جا کر ایک دکھی باپ سے ملوں گا۔ گلے لگ کر ان کا کچھ دکھ دور کرنے کی کوشش کروں گا۔ظہور احمد ‘ رانا عبدالرحمن اور غلام سرور سے میرا پہلا رابطہ لاہور میں 1996ء میں ہوا تھا جب میں اور خان پور کا عبیداللہ ملتان میں روزگار نہ ملنے پر لاہور آ گئے تھے اور یہاں بھی کچھ وسیلہ نہیں بن رہا تھا۔ شعیب بٹھل‘ میں اور عبیداللہ لاہور کے کوٹھا پنڈ میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔مجھے تراجم کا شوق تھا جو مجھے فکشن ہاؤس کے ان تینوں مہربانوں کے پاس لے گیا جہاں ہفتہ وار ڈاکٹر مبارک علی‘ قاضی جاوید اور ڈاکٹر کامران جیسے اعلیٰ دماغ اکٹھے ہوتے اور کیا خوب محفل جمتی اور پھر قریبی ڈھابے سے چنے کی دال اور گرما گرم روٹیاں منگوائی جاتیں۔ اس دال کا ذائقہ آج بھی میرے منہ میں موجود ہے۔وہیں میری ابتدائی بکس چھپیں جو ماریو پزو کے ناول گاڈ فادر‘ بالزاک کے ناول یوجین گرینڈ اور The Girl With the Golden Eyesکے تراجم پر مشتمل تھیں۔میں نے ظہور احمد‘ رانا عبدالرحمن اور سرور کو مسلسل محنت کرتے دیکھا کہ کیسے پنجاب اور سندھ کے ایک ایک کونے میں جا کر کتابیں بیچیں‘ اپنا نیٹ ورک بنایا‘ پھر نعیم بھائی کا ترجمہ کیا ہوا گیبرئل گارشیا مارکیز کا شاہکار ناول ''تنہائی کے سو سال‘‘ چھاپا۔
میں لاہور سے نکلا اور ادھر ادھر دھکے کھاتا اسلام آباد پہنچ گیا۔ رابطے دھیرے دھیرے ختم ہوتے گئے۔دو تین دفعہ لاہور فکشن ہاؤس گیا تو ظہور صاحب نہ تھے تو ان کے اسی بیٹے‘ ذیشان سے ملا۔ عزت دی‘ چائے پلائی اور رخصت ہوتے وقت کتابوں کا تحفہ بھی دیا۔ ذیشان سے دوبارہ ملاقات اسلام آباد بک فیئر میں ہوئی تو اس سے بہت سی کتابیں خریدیں۔اب برسوں بعد ظہور احمد کا وائس نوٹ سن کر دل کانپ کر رہ گیا ہے کہ کیسے ایک جوان بچہ مارا گیا اور تھانہ مزنگ کے سٹاف کا رویہ ایسا ہے جیسے کسی چڑیا کا بچہ مارا گیا۔ شاید اس لیے جب پولیس کو مار پڑ رہی ہوتی ہے تو عام لوگوں کے ذہنوں میں وہی نفرت ہوتی ہے جو انہیں مظلوم بن کر تھانوں میں بے عزتی کی صورت میں ملتی ہے۔
اب ایک باپ وائس نوٹ بھیج رہا ہے۔ آئی جی پنجاب رائو سردار کہیں تو وائس نوٹ بھیج دوں۔ حوصلہ کر کے سن لیں۔ پوری دینا ان کا وائس میسج سن کر رو رہی ہے۔ ایک باپ کا دکھ انہیں اپنے سینے میں چبھتا محسوس ہورہا ہے ‘لیکن اگر کوئی یہ درد محسوس نہیں کررہا تو وہ لاہور پولیس ‘ تھانہ مزنگ کا عملہ ہے۔ حیران ہوں کہ جوان بچہ دشمن کا بھی ہو تواس کی موت پر آپ دکھ میں کانپ اٹھتے ہیں اور یہاں تھانہ مزنگ کی یہ بے حسی کہ ایک بھائی کو کہہ دیا کہ کیا کریں گے اپنے مقتول بھائی کے کپڑے‘ جوتے اور پوسٹ مارٹم رپورٹ لے کر۔ بھول جائو۔
کیا واقعی ظہور احمد‘ ذیشان کی ماں‘ اس کی بیوہ اور دو چھوٹے بچے سب کچھ بھول جائیں؟ اپنے ذیشان کے لہو کی خوشبو میں لپٹے کپڑے اور جوتے بھی بھول جائیں؟