فون نیچے رکھا تو لگا ایک لمحے میں زندگی بدل گئی ہے۔ میرا اسلام آباد تبادلہ کر دیا گیا تھا۔ ایک عجیب سی سنسنی بدن میں دوڑتی محسوس ہوئی۔ میری نوکری گئی نہ میں بیروزگار ہوا۔ خدا کا شکر ادا کیا کہ بغیر کسی سفارش کے احمد علی خان صاحب نے میری زندگی بدل دی تھی۔ اتنا بڑا آدمی کہ انہوں نے میری خاطر لاہور کے ایڈیٹر کے ریکمنڈ کیے نام بھی مسترد کر دیے تھے۔ بعد میں پتہ چلا کہ کراچی سے پی ٹی وی کے سابق ایم ڈی آغا ناصر کی صاحبزادی‘ جو 'ڈان‘ کراچی میں لکھتی تھیں‘ بھی اسلام آباد شفٹ ہونا چاہ رہی تھیں۔ خان صاحب نے ان کا نام بھی منظور نہ کیا۔ خدا نے احمد علی خان کو میرے لیے فرشتہ بنا کر بھیجا تھا جس نے میری زندگی بدلنا تھی۔ کہاں میں نوکری سے ہاتھ دھونے والا تھا اور کہاں اچانک اسلام آباد بیورو آفس میں بہترین صحافیوں کے ساتھ کام کا موقع مل رہا تھا‘ جن کی خبریں فرنٹ پیج پر چھپتی تھیں۔ کئی دفعہ دل میں یہ بات کہیں جاگتی کہ کبھی 'ڈان‘ کے فرنٹ پیج پر میرا نام بھی کسی بڑی خبر کے ساتھ چھپے گا؟ پھر ڈر کے مارے ادھر ادھر دیکھتا کہ کسی نے میری سوچ پڑھ تو نہیں لی۔ اگرکسی نے میری سوچ پڑھ لی تو وہ میرا مذاق اڑائے گا کہ کیسے دن میں خواب دیکھتا ہے۔
اس ساری خوشی کے درمیان اچانک مجھے خان صاحب کی شرط یاد آئی کہ ملتان صرف اس وقت چھوڑ سکتا ہوں جب میں انہیں اپنی جگہ اپنے جیسا رپورٹر ڈھونڈ کر دوں کیونکہ ملتان بہت اہم سٹیشن تھا تاکہ میرے جانے کا خلا پیدا نہ ہو۔ میں حیران ہوا تھا کہ کراچی میں بیٹھے چیف ایڈیٹر کو میرے کام اور شاید اہمیت کا زیادہ ہی احساس تھا۔ وہ مجھے کہہ رہے تھے کہ پہلے اپنے جیسا کوئی رپورٹر ڈھونڈ کر دوں جبکہ لاہور کا ریذیڈنٹ ایڈیٹر مجھے نکالنے کا پروگرام فائنل کیے بیٹھا تھا جبکہ کراچی کا چیف ایڈیٹر نہ صرف میرے کام اور رپورٹنگ کا فین نکلا بلکہ درخواست میں تمام تر خامیوں اور کوئی ریکمنڈیشن نہ ہونے کے باوجود مجھے نہ صرف اسلام آباد بھیجنے کے احکامات جاری کر چکا تھا بلکہ اب وہ مجھے کہہ رہا تھا کہ میں جانے سے پہلے اپنے جیسا کوئی رپورٹر ملتان کے لیے تلاش کروں۔
ایک لمحے کے لیے میرے اندر ایک کمینی سی خوشی نے سر ابھارا کہ جب طاہر مرزا صاحب کو یہ پتہ چلے گا کہ جس نامہ نگار کو وہ نکالنے والے تھے اس کا خان صاحب نے ان سے کنسلٹ کئے یا پوچھے بغیر تبادلہ بھی کر دیا ہے تو ان کی کیا حالت ہو گی۔ مجھے پتہ تھا‘ طاہر مرزا صاحب یقینا چھت سے جا لگیں گے کہ یہ چمتکار کیسے ہوگیا کہ ان کے بھیجے گئے نام نہ صرف خان صاحب نے مسترد کر دیے بلکہ ملتان سے ایک عام سے رپورٹر کو ان کی جگہ بھیج کر ایک طرح سے ان کا مذاق اڑایا گیا۔
مجھے ڈر تھا‘ طاہر مرزا صاحب یقینا اس پر پھڈا کریں گے کیونکہ 'ڈان‘ کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ کسی ریذیڈنٹ ایڈیٹر کی سفارش کے بغیر ہی یہ کام ہو جائے؛ تاہم ایک دوست نے بعد میں تسلی دی کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا‘ جو ہونا تھا وہ ہو چکا۔ احمد علی خان صاحب کا بہت رعب اور دبدبہ تھا۔ انہوں نے فیصلہ کر دیا تھا۔ وہ طاہر مرزا صاحب کے بھی باس تھے۔
اب میں سوچنے بیٹھ گیا کہ میں ملتان میں اپنی جگہ کس کا نام احمد علی خان صاحب کو بھیجوں کہ وہ بہترین کام کرے گا۔ میرے ذہن میں ڈیرہ غازی خان سے ڈان کے نوجوان نمائندہ ندیم سعید کا نام ابھرا۔ میں اس کی خبریں شوق سے پڑھتا تھا۔ اس کی سیاسی خبریں اور کمنٹس بہترین تھے۔ مجھے اس کی خبروں میں جان اور تبصروں میں سپارک محسوس ہوتا۔ ندیم سعید ڈیرہ جیسے اہم سٹیشن پر تھا جہاں سے صدرِ پاکستان، گورنر اور کئی اہم وزیر، سردار، خان، لغاری، مزاری، کھوسے، دریشک تھے۔ ندیم سعید ان کے دبائو میں آئے بغیر آزادانہ رپورٹنگ کرتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی اس کے کریڈٹ پر بہترین خبریں تھیں۔
میں نے ندیم سعید کو فون کیا اور بتایا کہ اس کے لیے ملتان ایک بہترین موقع ثابت ہو سکتا ہے۔ ندیم کو لاہور نیوز روم میں عمران اکرم بھی پسند کرتے تھے۔ انہوں نے بھی ندیم سعید کی چوائس کو پسند کیا۔ پھر وہی ہوا‘ ملتان سے ہی ندیم سعید نے اپنا نام بنایا۔ کچھ عرصہ بعد بی بی سی والے اسے لندن لے گئے۔ پھر وہ لندن کا ہو رہا اور یوں پاکستان ایک اچھے صحافی سے محروم ہو گیا۔
یوں اب میں اپنے تئیں سب بندوبست کرنے اور ملتان سے رات بھر سفر کرنے کے بعد اس وقت اسلام آباد ڈان کے بیوروآفس میں بیٹھا ضیاالدین صاحب کا انتظار کررہا تھا۔ مجھے وہیں کرسی پر بیٹھے بیٹھے نیند بھی آ گئی لیکن کسی نے مجھے کچھ نہ کہا۔ گیارہ بجے کے قریب میری آنکھ خود بخود کھل گئی۔ اب صوفی اختر صاحب ضیا صاحب کے پی ایس موجود تھے۔ انتہائی شاندار اور خیال رکھنے والے۔ انہوں نے بتایا کہ ضیا صاحب آنے والے ہیں۔ میں واش روم گیا تاکہ منہ ہاتھ دھو کر فریش ہو جائوں۔ صوفی اختر نے چائے منگوائی‘ کچھ بسکٹ کھلائے تو مجھے احساس ہوا میں نے رات بھر سے کچھ نہیں کھایا تھا۔
اتنی دیر میں بیورو آفس کا دروازہ کھلا اور ضیاالدین صاحب تیز چلتے ہوئے اندر داخل ہوئے اور سیدھے دفتر میں چلے گئے۔ صوفی اختر نے کہا: یہی ضیاالدین صاحب ہیں۔ میں پہلی دفعہ انہیں سامنے دیکھ رہا تھا۔ ایک بارعب شخصیت کے مالک انسان جنہیں دیکھ کر آپ کا خودبخود ان کی عزت کرنے کو دل کرے۔
صوفی اختر نے اندر جا کر اندر ضیاالدین صاحب کو میرا بتایا۔ ضیا صاحب نے اندر بلوا لیا۔ اندر داخل ہوا تو ضیاالدین صاحب نے مسکرا کر استقبال کیا اور بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
مجھ سے بات نہیں ہو پا رہی تھی۔ شاید رات بھر سفر میں مجھے پتہ نہ چلا کہ یہ خبر پورے ڈان میں پھیل چکی تھی کہ خان صاحب نے کراچی لاہور کے رپورٹرکو ایڈیٹرز کی طرف سے کی گئی سفارشات مسترد کر کے ملتان کے کسی نامعلوم نامہ نگار کو اسلام آباد ٹرانسفر کر دیا تھا۔ سب حیران تھے یہ سب کیسے ہوا تھا۔ اب خان صاحب جیسے بڑے آدمی اور ایڈیٹر پر کسی سفارش کا الزام بھی نہیں لگ سکتا تھا۔
میں ضیاء صاحب کو بتانے لگا کہ مجھے احمد علی خان صاحب نے کہا تھا‘ آپ سے مل لوں۔ ضیا صاحب اپنے مخصوص انداز میں مسکرائے اور بولے: ہاں احمد علی خان صاحب کا فون آیا تھا۔ ساتھ ہی ضیا صاحب کے چہرے پر ایک نیا تاثر ابھرا اور بولے: لیکن تمہارے لاہور کے ایڈیٹر طاہر مرزا صاحب کا بھی تمہارے حوالے سے فون آیا تھا۔
وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا۔ طاہر مرزا اس بات کو ہضم کرنے کو تیار نہ تھے کہ خان صاحب نے ملتان سے بندہ سیدھا اسلام آباد بھیج دیا تھا۔ میں چپ چاپ سانس روک کر انتظار کرتا رہا کہ ضیا صاحب اب کیا فیصلہ کرتے ہیں کہ میں جوائن کروں یا واپس ملتان لوٹ جائوں۔ مجھے اندازہ نہ تھا میری وجہ سے تین ایڈیٹرز کے درمیان یہ ایشو کھڑا ہو سکتا ہے۔ میرا کیریئر دائو پر لگ چکا تھا۔
ضیاالدین صاحب کی سنجیدگی سے لگ رہا تھا معاملہ گڑبڑ تھا۔
مرزا صاحب، احمد علی خان صاحب کے غیرمعمولی فیصلے کے خلاف تو کچھ نہ کرسکے تھے لیکن اب انہوں نے بڑی سمجھداری سے میرے خلاف آخری کارڈ کھیل دیا تھا۔ میرے راستے میں ایسے کانٹے بوئے کہ جب تک میں ڈان میں رہا ان کی چبھن مسلسل محسوس کرتا رہا۔
میں حیرانی اور کچھ صدمے کی کیفیت میں ضیا صاحب کی باتیں سن رہا تھا کہ طاہر مرزا صاحب نے فون پر انہیں کیا بتایا تھا۔ (جاری)