پوری عمر جن دو تین باتوں پر خود پر فخر محسوس کیا‘ ان میں سے ایک لمحہ یہ بھی تھا‘ جب میں نے ضیاالدین صاحب کے ہاتھ سے لفافہ لے کر کھولا اور اس میں سے ایک ٹائپ شدہ کاغذ نکال کر پڑھنا شروع کیا۔ ایک غیرمعمولی واقعہ کہ چیف ایڈیٹر ڈان اس طرح آپ کو کمپلینٹ کرے۔ پڑھنا شروع کیا تو مجھے لگا ہوائوں میں اڑ رہا ہوں۔ خان صاحب نے بہت مختصر لفظوں میں میری رپورٹنگ کی تعریف کی تھی۔ مجھے لگا‘ شاید مجھ سے زیادہ ان کی عزت دائو پر لگی ہوئی تھی کہ انہوں نے لاہور‘ کراچی کے بڑے رپورٹرز‘ جنہیں ریزیڈنٹ ایڈیٹرز تک نے ریکمنڈ کیا تھا‘ کو پیچھے کرکے دور دراز علاقے کے ایک گمنام نامہ نگار کو ترجیح دی تھی جسے شاید ابھی انگریزی میں اچھی طرح خبر بنانا بھی نہیں آتی تھی۔ گزرے تین ماہ میں انہوں نے میری خبروں پر نظر رکھی تھی اور اب ایک خط میرے نام بھیجا تھا۔ مجھے لگا‘ جرنلزم کا سب سے بڑا ایوارڈ مل گیا تھا۔ ڈان کے چیف ایڈیٹر احمد علی خان نے تعریفی خط بھیجا تھا۔ ضیا صاحب غور سے میرے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لے رہے تھے۔ ان کے مسکرانے کا ایک مخصوص انداز تھا جسے آپ کوئی بھی مطلب دے سکتے تھے۔ بس اتنا بولے: خان صاحب نے بھیجا تھا‘ وہ آپ کے کام سے خوش ہیں۔
چند سطروں کے اس خط نے مجھے بڑا حوصلہ دیا اور اب میں بڑی خبروں کے چکر میں پڑ گیا‘ لیکن ضیا صاحب جب بھی ناراض ہوتے‘ بہت سخت ہوتے اور اکثر وہ سب کے سامنے ہی ڈانٹتے یا مجھے دفتر بلا کر ڈانتے۔ احمد حسن علوی صاحب ایک باکمال انسان تھے۔ وہ اکثر مجھے ضیا صاحب کے کمرے سے اترے ہوئے چہرے کے ساتھ باہر نکلتے دیکھتے۔ ایک دن مجھے اپنے پاس بٹھا لیا‘ پیار کیا اور کہا: ایک گُر کی بات بتائوں؟ضیا صاحب کو صفائی نہ دیا کریں‘ وہ سب کی کلاس لیتے ہیں‘ چپ کرکے سن لیا کریں۔ اس کے بعد یہی کچھ ہوتا‘ لیکن ضیا صاحب کی اس ڈانٹ کا آنے والے برسوں میں یہ فائدہ ہوا کہ میں خبر میں غلطی کے امکانات مزید کم کرتا گیا۔ اکثر ڈانٹ خبر سے کم اس بات پر پڑتی کہ میں کسی دوسرے کولیگ کی بیٹ میں سے کوئی بڑی ایکسکلوسیو خبر نکال لاتا۔ ان کا خیال تھا‘ اس سے دوسرے رپورٹرز شکایت کرتے اور یوں ڈسپلن خراب ہوتا تھا۔ مجھے ڈان کی روایت کے مطابق چھپی ہوئی خبر کے فی سینٹی میٹر ڈھائی روپے سپیس کے مطابق پیسے ملتے۔ ہر ماہ مشکل سے آٹھ دس ہزار کما پاتا اور گھر چلانا مشکل تھا۔ نئی نئی شادی ہوئی تھی لہٰذا مشکلات بڑھ گئی تھیں۔ اب ایک ہی حل تھا کہ میں زیادہ محنت کروں‘ زیادہ خبریں تلاش کروں تاکہ سینٹی میٹر زیادہ بنیں اور مجھے کچھ پیسے زیادہ ملیں۔ ملتان میں چھ سو روپے فی ویکلی ڈائری تھی۔ کبھی چھپی کبھی نہ چھپی۔ ہر ماہ دو ڈھائی ہزار بنتے تو اسلام آباد میں ہر ماہ سات آٹھ ہزار بن جاتے۔ پھر میں زیادہ ایکسکلوسیو کرنے لگا تو اس پر کولیگز کو مسائل ہوئے کہ ان کی بیٹ کی خبریں میں کر رہا ہوں۔ اس کشمکش میں امریکہ سے شاہین صہبائی اور لندن سے ناصر ملک میرے لیے خوش قسمت بن کر لوٹے۔ دونوں وہاں ڈان کیلئے رپورٹنگ کررہے تھے اور اب واپس اسلام آباد اسی اخبار میں آگئے تھے۔ ناصر ملک کو ضیا صاحب نے چیف رپورٹر کا سٹیٹس دے کر ہم سب رپورٹرز کا انچارج بنایا۔ ناصر ملک شروع میں سختی دکھاتے لیکن دھیرے دھیرے ان کے اندر کے خوبصورت انسان اور پروفیشنل نے ابھرنا شروع کیا۔ ناصر ملک سے بھی اسی بیٹ ایشو پر کئی دفعہ جھڑکیاں کھائیں۔
شاہین صہبائی صاحب سے پہلی ملاقات یہیں ہوئی۔ ایک دن شاہین صاحب میری میز کے قریب آئے اور دیکھنے لگے‘ میں کیا ٹائپ کررہا ہوں۔ شاہین صہبائی کی شہرت اسلام آباد کے ان بڑے صحافیوں میں سے تھی جن سے واقعی حکومتیں ڈرتی تھیں۔ جن کی فائل کی ہوئی خبر یا سکینڈل یا پارلیمنٹ ڈائری کسی کو بھی ہلا دیتی تھی۔ ان کی خبروں کا بوجھ اٹھانا آسان نہ تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ان کے گھر پر حملہ ہوا۔ ان کے بچوں کے سروں پر پستول رکھ کر ڈرایا گیا۔ ان کو گھر سے اٹھانے کا منصوبہ تک بنا تاکہ ان کے قلم کو روکا جائے۔ اخبار پر دبائو اتنا بڑھ گیا تھا کہ پہلے کراچی سے نکال کر انہیں اسلام آباد بھیجا گیا اور جب انہوں نے اسلام آباد میں بھی بڑے بڑے لوگوں کی ایسی تیسی کرنا شروع کی تو انہیں امریکہ رپورٹنگ کے لیے بھیج دیا گیا جہاں سے انہوں نے حکومتوں کے لیے مسائل کھڑے کیے رکھے۔ شاہین صہبائی کی بڑی خوبی یہ تھی کہ جرنلزم میں تکلف، تعلقات یا دوستی کو حائل نہیں ہونے دیتے تھے۔ عامر متین ان کے بارے میں کہتے تھے‘ کئی بار ہواکہ جس بندے ساتھ رات کو ہم سب نے کھانا کھایا اور گپیں لگائیں‘ اگلی صبح اسی کے خلاف ان کے نام سے بڑا پیس چھپا ہوتا۔ ان کے نزدیک پہلی اور آخری ترجیح صحافت اور خبر تھی‘ تعلقات نہیں۔
شاہین صہبائی ضیاالدین صاحب سے مختلف جرنلزم سکول آف تھاٹ سے تعلق رکھتے تھے۔ شاہین صہبائی کی فلاسفی تھی کہ وہ خبر بیکار اور وقت کا ضیاع ہے جسے پڑھ کر حکومتوں کو وخت نہ پڑے یا جس کے خلاف فائل کی گئی ہے اس کی راتوں کی نیند خراب نہ ہو۔ وہ نہ طاہر مرزا تھے جو سکینڈل کے خلاف تھے اور نہ ضیاالدین صاحب جو خبر میں کمنٹ کی گنجائش پر یقین نہ رکھتے تھے۔ شاہین صہبائی سیدھا فائر مارنے پر یقین رکھتے تھے کہ اگر خبر درست ہے، دستاویزی ثبوت موجود ہیں تو پھر ڈر کاہے کا۔
شاہین صہبائی کچھ دیر کمپیوٹر پر میری خبر پڑھتے رہے۔ ان کے چہرے پر اچانک دلچسپی کے آثار نمودار ہوئے اور مجھے کہا: اس کا ثبوت ہے تمہارے پاس؟ میں نے کہا: جی سر۔ مجھے کہا: چلو پھر ہٹ جائو۔ انہوں نے میری کرسی پر بیٹھ کر خبر لکھنا شروع کر دی اور یوں لگا جیسے یہ خبر میری نہیں انکی ہے۔ وہ پوری توجہ سے خبر لکھتے اور ایڈیٹ کرتے رہے‘ دس پندرہ منٹ بعد اس پر ایک ہیڈ لائن دی اور نیچے نیوز روم کے نام لکھ دیا Edited by Shaheen Sehbai مطلب تھا کہ رپورٹر بہت جونیئر ہے لیکن میں نے ایڈیٹ کر لی ہے‘ چیک کر لیا ہے خبر درست ہے‘ اسے لگا دیں۔ اگلے دن پہلی دفعہ وہ خبر میرے نام کے ساتھ بیک پیج پر بینر کے طور پر شائع ہوئی۔
2000 ء کی گرمیوں کا موسم تھا۔ خبر فائل کررہا تھا کہ شاہین صاحب میرے پاس آئے اور پوچھا: کیا خبر ہے رئوف؟ میں کرسی سے اٹھ گیا۔ شاہین صاحب نے کچھ دیر پڑھا اور چونک گئے۔ فوراً پوچھا: اس سکینڈل کی فائل ہے تمہارے پاس؟ میں نے کہا: جی سر۔ مجھ سے وہ فائل لی اور وہیں پڑھنے بیٹھ گئے۔ کافی دیر بعد فارغ ہوئے‘ ایک گہرا سانس لیا‘ اور مجھے کہا: ایک طرف ہو جائو۔ یہ کہہ کر میری لکھی خبر ایڈیٹ کرنا شروع کر دی۔ اگلے دن وہ سکینڈل ڈان کے فرنٹ پیج پر میرے نام سے چھپا اور اس سکینڈل نے پورے اسلام آباد کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اسی سکینڈل پر مجھے پہلی دفعہ اے پی این ایس کے بیسٹ رپورٹر/ سکوپ کا ایوارڈ ملا تھا۔
جنرل پرویز مشرف نے اس سکینڈل کے چھپتے ہی ایمرجنسی اجلاس بلا لیا۔ انہیں لگا‘ ان کی معاشی ٹیم کے سربراہ شوکت عزیز نے ان سے بڑا دھوکا کیا تھا۔ جنرل مشرف کی بل کلنٹن سے پاکستان کے دورے میں ملاقات میں ہونے والی ایک خفیہ یقین دہانی کا ناجائز فائدہ اٹھایا گیا تھا۔ سکینڈل چھپتے ہی شاہین صہبائی نے مجھے کہا: رئوف اب سب کام چھوڑ دو‘ مجھے جنرل مشرف کے اس اہم اجلاس کی اندورنی خبر چاہیے۔ یہ بہت بڑا سکینڈل ہے۔ اسے تم نے مرنے نہیں دینا۔ میں نے سکینڈل کی سرکاری فائل کھولی اور ایک دفعہ پھر سینکڑوں صفحات پر مشتمل وہ خفیہ معاہدہ پڑھنے لگا جو شوکت عزیز نے جنرل مشرف کو بتائے بغیر امریکیوں سے کر لیا تھا اور اب جنرل مشرف سخت غصے میں تھے کہ ان ساتھ کیا گیا تھا۔ شوکت عزیز نے پاکستان کی نیشنل سکیورٹی دائو پر لگا دی تھی۔ (جاری)