ایک لطیفہ سن لیں:
پچھلے کالم میں‘ میں نے پوری تفصیل لکھی تھی کہ کابینہ کے اجلاس میں جب چند دیسی وزیروں نے کھاد کی بلیک میں فروخت اور بحران کا معاملہ وزیراعظم کے سامنے اٹھایا کہ کسان قطاروں میں لگ کر رُل گئے ہیں تو خسرو بختیار صاحب جو انڈسٹری کے وزیر ہیں‘ نے فورا ًسب کو شٹ اَپ کال دی اور کہا کہ ملک میں تو وافر کھاد موجود ہے بلکہ پچھلے سال 30لاکھ ٹن پیدا کی تھی تو اس سال 33 لاکھ ٹن پیدا ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سب جھوٹ ہے کہ ملک میں کھاد کی کمی ہے۔اب نئی سن لیں: بدھ کے روز وزیرخزانہ شوکت ترین نے ای سی سی اجلاس کی صدارت کی اور پہلا فیصلہ ہی یہ کیا گیاکہ ہنگامی طور پر پچاس ہزار ٹن یوریا کھاد چین سے منگوائی جائے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پچھلے ہفتے کے اُس کابینہ اجلاس میں شوکت ترین بھی موجود تھے جس میں خسرو بختیار نے دعویٰ کیا تھا کہ کوئی کمی نہیں‘وافر کھاد موجود ہے۔
اتنے بڑے فورم پر فیصلہ سازی کا یہ حال ہے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے اس ملک کا۔ یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہورہا کہ اس فورم پر غلط بیانی کر کے فیصلے کرائے گئے جن کے نتائج پوری قوم نے بھگتے۔ موجودہ وزیراطلاعات فواد چوہدری نے کئی دفعہ کابینہ اجلاسوں میں کہا کہ کابینہ کو مختلف ادارے اور وزارتیں غلط فگرز دے کر غلط فیصلے کرا رہے تھے۔ انہوں نے کئی اجلاسوں میں کہا کہ جب درست ڈیٹا ہی نہیں ہوگا تو کیسے درست فیصلے کر سکیں گے۔عمران خان صاحب کی ناتجربہ کاری کا سب سے بڑا فائدہ مافیاز نے اٹھایا اور شروع کے پہلے دو سال ان سے ایسے فیصلے کرائے گئے جن کا خمیازہ ابھی تک یہ ملک اور قوم بھگت رہے ہیں۔ ضرورت سے زیادہ اعتماد نے مسائل پیدا کئے۔ انکا خیال تھا کہ اخبار پڑھ لینے‘ ٹی وی پر کچھ پروگرام دیکھ لینے یا ٹی وی انٹرویوز دینے سے گورننس سمجھ میں آگئی ہے۔وہ وزیراعظم تو بننا چاہتے تھے لیکن خود کو اس ذمہ داری کیلئے تیار نہیں کیا۔ انہیں ان برسوں میں کبھی قومی اسمبلی کے وقفہ سوالات میں نہ دیکھانہ کسی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں دیکھا گیا۔ میں نے خود اگر کچھ سیکھا تو وقفۂ سوالات اور ان کمیٹیوں کے اجلاسوں میں بیٹھ بیٹھ کر سیکھا۔ جس کسی نے اچھا سیاست دان بننا ہے یا جو ملک چلانا چاہتا ہے اُس کیلئے ضروری ہے کہ پارلیمنٹ کو سنجیدگی سے لے اور سب سے زیادہ سنجیدہ ان کمیٹیوں کو لے جہاں ہر حکومت کا کچا چٹھاکھولا جاتا ہے۔ جہاں حکومتی معاملات پر اجلاس ہوتے ہیں۔
میرے خیال میں خان صاحب جب وزیراعظم بننے کی کوشش کررہے تھے اُس وقت انہیں پارلیمنٹ میں زیادہ وقت دینا چاہئے تھا۔ انہیں کم از کم پبلک اکاؤنٹس کمیٹی‘ فارن افیئرز‘ فنانس اور پلاننگ کی قائمہ کمیٹیوں کا ممبر ہونا چاہئے تھا۔ اگروہ یہ کام کرتے تو یقین کریں بہت بہتر وزیر اعظم ثابت ہوتے۔ ان کے فیصلوں میں آپ کو میچورٹی نظر آتی۔ وہ ایسے فیصلے کم کرتے جن میں نقصان کا اندیشہ ہو۔ اس کے علاوہ وہ پاکستانی بیوروکریسی کی ورکنگ اور قا بلیت بارے بھی جان پاتے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی وہ ہے جہاں چالیس کے قریب وزارتوں کے سیکرٹری پیش ہوتے ہیں۔ اس کمیٹی میں بیٹھ کر آپ کے لیے بیوروکریٹ کی قابلیت اور نااہلی کو جج کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔
عمران خان 2002ء سے لے کر 2007 ء تک ایم این اے رہے اور پھر2013ء سے 2018 ء تک۔ یہ دس سال انہوں نے ضائع کئے۔ وہ کسی کمیٹی کے ممبر نہ بنے نہ ان میں شریک ہوئے۔ اس ناتجربہ کاری کی قیمت اب پورا ملک ادا کر رہا ہے۔ نواز شریف کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ ان کے پاس بھی حکومت چلانے کی صلاحیت کم تھی اسی لیے حکومت اسحاق ڈار کے حوالے کر کے خود دنیا کی سیر کو نکل گئے۔ بینظیر بھٹو شاید واحد وزیراعظم تھیں جو 1993ء میں وزیراعظم بننے سے چند ماہ پہلے نواز شریف دور میں فارن افیئر ز کمیٹی کی چیئر مین بن گئی تھیں۔ اسی طرح بلاول بھٹو زرداری اپنی والدہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہیومن رائٹس کی قائمہ کمیٹی کے سربراہ بنے ہیں اور ان کی سیاسی تربیت شروع ہوئی ہے کہ حکومت کیسے چلتی ہے اور فیصلے کیسے کئے جاتے ہیں۔
خان صاحب کی گورننس بارے ناواقفیت کا بڑا فائدہ ان کے اپنے وزیر اٹھاتے ہیں۔ ان دس برسوں کا نقصان اتنا بڑا ہے کہ تین سال وزیراعظم رہنے کے باوجود وہ ابھی تک اس کمی کو پورا نہیں کرسکے۔ ان کے وزیر اور بیوروکریٹس انہیں جُل دیتے رہے۔ شاید وہ اب بھی انکوائری رپورٹس نہیں پڑھتے۔ وہ ابھی بھی کابینہ اجلاس میں پیش کی جانے والی سمریاں بھی شاید ہی پڑھتے ہوں گے۔ انہیں جو بریف کر دیا جاتا ہے غالباً وہ اسے ہی حرفِ آخر سمجھ لیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہورہا ہے کہ فیصلہ سازی بہت کمزور ہے اور وہ اپنی وزارتوں کی غلطیاں یا خامیاں نہیں پکڑ پاتے۔ جب کسی وزیر کویہ پتہ ہو کہ اچھی انگریزی بول کر وہ کوئی بھی فیصلہ کراسکتا ہے تو پھر اسی طرح کے فیصلے ہوں گے جو دو سال پہلے کرائے گئے تھے جب بتایا گیا کہ ملک میں وافر گندم اور چینی موجود ہے۔ رزاق دائود صاحب نے چینی مل مالکان کے کہنے پر جھوٹے اعدادو شمار کی بنیاد پر شوگر ایکسپورٹ کی منظوری کابینہ سے لی اور جب چینی کا سکینڈل سامنے آیا تو بڑے آرام سے موصوف نے مان لیا کہ شوگر مل ایسوسی ایشن نے ان کے ساتھ جھوٹ بولا‘ غلط فگرز دے کر غلط فیصلہ کرایا اورآپ کو پتہ ہے کہ اس ایک جھوٹ کی کتنی بڑی قیمت پاکستان اور پاکستانیوں نے ادا کی ؟ صرف ایک سال میں دس ارب ڈالرز کی گندم‘ چینی‘ دالیں اور کاٹن منگوائی گئی۔ ان درآمدات پر ڈالرز خرچ ہوئے جس کے لیے پاکستان نے قرض لیا تھا۔ اب اگر ڈالر نہیں سنبھل پارہا تو اس میں دو سال قبل کئے گئے چند فیصلوں کا بڑا ہاتھ ہے ۔ ابھی تک ایک زرعی ملک گندم‘ کاٹن‘ دالیں اور چینی تک بیرون ملک سے خرید رہا ہے۔
غلط اور جھوٹی رپورٹس دے کر خان صاحب سے شاباش لینے کا سلسلہ ابھی رکا نہیں۔ پہلے رزاق دائود صاحب غلط فگرز دے کر چینی باہر بھجوا دی اور اب تیس ارب روپے کی چینی منگوائی گئی ہے۔ حماد اظہر صاحب نے بھی اپنی 'کارکردگی‘ دکھانے میں دیر نہیں کی جب گیس چھ ڈالر کے ریٹ پر مل رہی تھی اُس وقت نہیں خریدی اب چالیس ڈالرز پربھی نہیں مل رہی۔ گیس کی شارٹیج ہوگئی ہے‘ رہی سہی کسر اب خسرو بختیار نے پوری کر دی ہے۔ اگر خسرو بختیار کی بات کو مانا جائے کہ ملک میں یوریا کھاد وافر ہے تو پھر شوکت ترین نے پچاس ہزار ٹن کھاد چین سے منگوانے کا فیصلہ کیوں کیا ہے؟ اس حکومت کو بندہ کیا کہے جس کا وزیر ایک ہفتہ پہلے کہہ رہا تھا کہ یوریا کھاد کی کمی نہیں بلکہ وافر ہے اب وہی وزیر یوریا منگوا رہے ہیں۔ ان حالات میں ایک دفعہ پھر پاکستان کو ڈالر ادھار لے کر گندم روس سے منگوانا پڑے گی اور اس حکومت سے ہم دودھ کی نہریں بہانے کی امید کیے بیٹھے ہیں۔وہی شعر یاد آیا؎
میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں