نواز شریف صاحب کی ایک بات تو اچھی ہے کہ وہ وزیراعظم بننے کے لیے ہر قسم کے پاپڑ بیلتے ہیں‘ ہررولا ڈالتے ہیں‘ جمہوریت کے نعرے مارتے ہیں‘ پارلیمنٹ میں پہنچنے کیلئے ڈیلوں سے لے کر جیلوں تک سب کچھ کر گزرتے ہیں لیکن پارلیمنٹ پہنچ کر‘ وزیراعظم کا ووٹ لے کر وہ پھر کبھی پارلیمنٹ کا رخ نہیں کرتے۔ ان کا سفری بیگ تیار ہوتا ہے اور وہ ابن بطوطہ اور مارکوپولو کی روایت پر چلتے ہوئے دنیا کے سفر پر نکل جاتے ہیں۔ پھر نہ انہیں پارلیمنٹ یاد رہتی ہے نہ جمہوریت۔ پچھلے دورِ حکومت میں نواز شریف صاحب چار سو دن تک ملک سے باہر رہے‘ سو سے زیادہ بیرون ملک دورے کیے‘ بائیس دورے لندن کے تھے جہاں خاندان رہتا ہے‘ ڈیڑھ ارب روپے ان دوروں پر خرچ ہوئے اور سینکڑوں تحائف ان کی خدمت میں پیش کئے گئے۔ ایک دن سینیٹر کلثوم پروین نے سینیٹ میں سوال پوچھ لیا کہ ان دوروں میں نواز شریف صاحب کو کتنے تحائف ملے تو وزیراعظم ہاؤس‘ جسے فواد حسن فواد صاحب چلاتے تھے‘ نے ایک نیا رُول ایجاد کیا جس کے تحت نواز شریف کو ملنے والے سب تحائف کو قومی راز ڈکلیئر کرکے ان کی تفصیلات دینے سے انکار کر دیا گیا۔ اس روایت کا سہارا لے کر عمران خان صاحب نے بھی اپنے تحائف بتانے سے انکار کردیا۔
یہ ہمارے بیوروکریٹس جب حکمرانوں کو سرو کرنے پر آئیں تو ایسے ایسے قانون گھڑ لیتے ہیں کہ لوگ حیران ہو جائیں اور ایسی ایسی تشریح کرتے ہیں کہ اسی قانون کے تحت آپ کا کام ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی ہوسکتا۔ برسوں سے ان تحائف کی تفصیلات پارلیمنٹ میں پیش ہورہی تھیں جن میں باقاعدہ بتایا جاتا تھا کہ وزیراعظم‘ وزیروں یا ان کے ساتھ جانے والے وفد ارکان کو کس ملک سے کون سا تحفہ ملا‘ اس کی مالیت کیا تھی اور وہ تحفہ ان موصوف نے دس فیصد ادائیگی کرکے خود رکھ لیا یا توشہ خانہ میں جمع کرا دیا۔ نواز شریف کے دور کچھ نیا کیا گیا اور فواد حسن فواد نے وزیراعظم ہاؤس کو ان تحائف کی تفصیلات دینے سے روکا اور کابینہ ڈویژن نے ان تحائف کو قومی راز قرار دے دیا۔
نواز شریف صاحب نے حکومت اسحاق ڈار کے حوالے کی ہوئی تھی اور خود دنیا کا سفر کرتے تھے۔ چھ چھ ماہ کابینہ اجلاس نہیں ہوتا تھا اور جب ہوتا تھا تو آپ اندازہ کر ہی سکتے ہیں کہ کیا بحث ہوتی ہوگی اور کیا فیصلے ہوتے ہوں گے۔ ایک فیصلہ تو مزے کا تھا‘ ایک چینی کمپنی کے ساتھ این ایچ اے کے چیئرمین شاہد تارڑ نے ڈیڑھ‘ دو ارب ڈالرز کا ایم او یو سائن کیا اور بعد میں انکشاف ہوا کہ سیف الرحمن نے چینی کمپنی کا نمائندہ بن کر ایم او یو پر دستخط کیے۔ مطلب شریف خاندان خود کو ہی یہ ٹھیکہ دے رہا تھا اور چینی محض فرنٹ مین کے طور پر استعمال ہورہے تھے۔ سیف الرحمن کی بیٹی کی شادی ابھی مریم نواز کے صاحبزادے جنید صفدر سے ہوئی ہے۔ جی ہاں وہی شادی جو ایک شاہی خاندان کی شادی کی طرح ہفتہ بھر منائی گی۔ اب آپ کو سمجھ آگئی ہوگی کہ یہ کنٹریکٹ کس کو اور کیوں دیا جارہا تھا۔ شریف خاندان نے ایک سمجھداری کی کہ ان دوستوں کے ساتھ رشتے کئے جو ان کے کاروباری رازوں کے امین ہیں‘ وہ اسحاق ڈار ہوں یا سیف الرحمن۔
خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی‘ میں سوچ رہا ہوں کہ نواز شریف کا ماڈل آف گورننس درست تھا جس کے تحت وہ مارکوپولو بن کر دنیا کی سیر کرتے تھے اور کابینہ اجلاس اور پارلیمنٹ سے چھ چھ ماہ دور رہتے تھے یا عمران خان ماڈل ٹھیک ہے جو ساڑھے تین سال سے مسلسل ہر ہفتے کابینہ اجلاس بلاتے ہیں اور وہاں اہم بحث اور فیصلے کیے جاتے ہیں‘ لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ مسلسل جو اجلاس ہورہے ہیں ان میں کس قسم کے فیصلے ہورہے ہیں۔ چند فیصلوں کو پڑھ اور سن کر میں ششدر رہ گیا ہوں۔ لاہور کے سرکاری سروسز انٹرنیشنل ہوٹل کی فروخت کا معاملہ کابینہ میں نجکاری کمیشن لے کر گیا تو اس کی قیمت پڑھ کر وزیراعظم عمران خان تپ گئے اور بولے کہ یہ کئی منزلہ ہوٹل تو جم خانہ لاہور کے سامنے مال روڈ پر واقع ہے اور وہ ذاتی طور پر جانتے ہیں کہ یہ کتنی مہنگی زمین ہے اور اسے کوڑیوں کے بھاؤ بیچا جارہا ہے۔ اس اجلاس میں کابینہ سیکرٹری احمد نواز سکھیرا نے بھی رولا ڈالا کہ وہ بھی لاہور میں پلے بڑھے ہیں‘ یہ لاہور کا سب سے مہنگا اور پوش ایریا ہے‘ بھلا پندرہ کنال پر واقع کمرشل لینڈ کے اس ہوٹل کی قیمت اتنی کم کیسے ہوسکتی ہے؟ اس پندرہ کنال کے ہوٹل کی قیمت ایک ارب نوے کروڑ لگائی گئی۔ اتنے میں تو ایک کنال کا کمرشل پلاٹ بھی نہیں آتا۔ عمران خان صاحب نے نجکاری کمیشن کو یہ کہہ کر روک دیا کہ اس ہوٹل کو ابھی نہ بیچیں۔ اتنی دیر میں سینیٹ کی کمیٹی نے بھی وزیراعظم کو خط لکھ دیا کہ اس ہوٹل کی فروخت میں بڑے بڑے گھپلے کئے جارہے ہیں‘ آپ اس پورے عمل کو روکیں۔ اس ہوٹل کی کچھ برس پہلے جو قیمت لگائی گئی تھی وہ موجودہ قیمت سے بہت زیادہ تھی اور وقت گزرنے کے ساتھ پراپرٹی کی قیمت بڑھتی ہے نہ کہ گھٹتی ہے‘ جیسے اس کیس میں ہورہا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ مال روڈ لاہور پر واقع اس سرکاری پراپرٹی کی قیمت اتنی کم ہوگئی۔
سب کا خیال تھا کہ خان صاحب کے ہوتے ہوئے یہ دن دہاڑے ڈاکا نہیں پڑ سکتا اور اب یہ ڈیل نہیں ہوگی‘ لیکن کمالات ہیں زمانے کے کہ صرف دو ہفتے بعد جب کابینہ کا اجلاس ہوا تو خان صاحب نے اسی قیمت پر اسی پارٹی کو وہ ہوٹل فروخت کرنے کی منظوری دے دی جس پر وہ پہلے اجلاس میں سینکڑوں اعتراضات کرچکے تھے۔ وہ پارٹی اسلام آباد میں ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کی مالک ہے۔ اب باقی کے اندازے آپ خود لگا لیں کہ جس ہوٹل کی فروخت عمران خان صاحب نے ایک ہفتہ پہلے روکی تھی‘خود ہی بغیر بحث مباحثہ کے وہ فروخت کرنے کا فیصلہ کر دیا۔ پاکستان جیسے ملکوں میں کاروباری لوگ سب سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی اربوں کی ڈیل میں کام کیسے ہوتے ہیں۔ بڑے لوگوں کی چونچ گیلی کرنا پڑتی ہے‘ حکمرانوں کے رشہ داروں‘ فرنٹ مینوں اور قریبی دوستوں کی خدمات لینا پڑتی ہیں پھر جا کر کام ہوتا ہے۔ پاکستان میں سب کو پتہ ہے کہ کوئی ڈیل پھنس گئی ہے تو اسے کیسے کلیئر کرانا ہے ۔ اس پوری ڈیل میں کس نے کیا کچھ کمایا وہ الگ ایشو ہے‘ سوال یہ ہے کہ نواز شریف کا شاہد تارڑ کے ذریعے سیف الرحمن سے دو ارب ڈالرز کے موٹروے پر ایم او یو سائن کرنے کا فیصلہ ہو یا خان صاحب کا لاہور میں پندرہ کنال پر واقع ہوٹل کی کوڑیوں کے مول فروخت پر پہلے رولا ڈال کر اسے روکنا اور پھر حیران کن انداز میں کلیئر کر دینے میں کیا فرق ہے؟ یقینا آپ کا جواب ہوگا کہ کنٹریکٹ کی مالیت اورہوٹل کی فروخت میں پیسے کا فرق ہے۔ ایک اور فرق بھی ہے کہ ایک وزیر اعظم چھ چھ ماہ کابینہ اجلاس نہیں کرتا تھا اور جب کرتا تو خاندان کو کنٹریکٹ نوازتا اور یہاں وزیر اعظم ہر ہفتے اجلاس کرتا ہے اور خود پہلے اس پر اعتراض اٹھاتا ہے لیکن اگلے ہفتے اسی پارٹی کو ہوٹل بیچ دیتا ہے۔
سمجھ نہیں آ رہی کابینہ اجلاس نہ کرنے والا وزیر اعظم ٹھیک تھا یا وہ وزیر اعظم جو ہر ہفتے اجلاس کرتا ہے؟ آپ ہی کچھ رہنمائی فرمائیں۔ خیر آپ کچھ بھی کہتے رہیں مال روڈ لاہور پر ایک بڑا ڈاکا پڑنا تھا وہ پڑ گیا۔ قوم ایک دفعہ پھر لٹ گئی اور اس دفعہ ہینڈسم وزیراعظم کے دور میں ان کے حیران کن فیصلے سے لٹی ہے۔ میں نے بھی سوچا سانپ تو نکل گیا لکیر ہی پیٹ لوں۔