"RKC" (space) message & send to 7575

خوش نصیب ہاتھ

وزیر داخلہ شیخ رشید کی بات نے میرے جیسے ایک آئیڈیلسٹ کو ڈپریس کر دیا ہے۔ فرمایا: یہ (نواز لیگ) چاہتے ہیں کہ جو ہاتھ عمران خان کے سر پر ہے وہ اب ان کے سر پر ہو‘ وہ ہاتھ ان کی گردن پر تو آ سکتا ہے ان کے سر پر نہیں۔
اب آپ پوچھیں گے اس میں ڈپریس ہونے والی کون سی بات ہے۔ یہ تو نارمل بات ہے‘ جس پر بڑوں کا ہاتھ ہو گا اس کے سر پر ہی ہما بیٹھے گا۔ پاکستانی تاریخ میں یہی ہوتا آیا ہے اور یہی ہوتا رہے گا۔ میرے ڈپریشن کی وجہ یہ ہے کہ ان چوہتر برسوں میں پاکستانی سیاستدان اس قابل نہیں ہو سکا کہ کسی سہارے یا سر پر ہاتھ کے بغیر حکومت بنا سکتا؟ اگر بنا بھی لی تھی تو اس سہارے کے بغیر چل کیوں نہیں پایا۔ اب حالت یہ ہے کہ ہر سیاستدان پنڈی کی طرف دیکھتا ہے۔ اکثر خفیہ ملاقاتیں کرتے ہیں۔ کسی ڈیل کی تلاش میں۔ جو عام لوگوں کو اپنی دہشت‘ دولت اور طاقت سے مرعوب کرتے ہیں وہ ان سے سر پر ہاتھ رکھوانے کے لیے پتہ نہیں کیا کیا پاپڑ بیلتے ہیں۔ مطلب‘ اگر آپ نے کسی کا گریبان پکڑنے کے قابل ہونا ہے تو پہلے اپنے سے کسی طاقتور کے پائوں پکڑنے ہوں گے۔ پہلے ایک خاندان کے بارے میں مشہور تھا کہ اقتدار میں ہوں تو گریبان اور اپوزیشن میں ہوں تو پائوں پکڑتے ہیں۔ اب اس فہرست میں کئی ناموں کا اضافہ ہوچکا ہے۔ اب سب سیاستدان اس فارمولے پر چلتے ہیں کہ اگر اپنے سے طاقتور کے پائوں اکیلے کمرے میں پکڑ بھی لیے تو کون سی قیامت آ گئی‘ کسی نے نہیں دیکھا۔ اس کے بدلے آپ پورے ملک کا گریبان پکڑ لیتے ہیں۔ اگر کسی ایک کے پائوں پکڑ کر اقتدار اور وزارت ملتی ہے تو سودا برا نہیں۔ جہاں تک غیرت، انا اور عزت کی بات ہے اس کی پروا اب کون کرتا ہے۔ سیاستدانوں کی وہ کلاس اس ملک میں پیدا نہ ہو سکی جو سیاست کو عزت اور غیرت پر چلاتی ہے۔ جس کا دائو لگا اس نے لگایا۔ خود کسی کے آگے جھک گئے تو کسی کو جھکا دیا۔
اب تو سیاست مزید خطرناک ہو گئی ہے کہ ٹھیکیداروں، بلڈرز اور ہائوسنگ سوسائٹیز کے مالکان نے سیاست اور سیاستدانوں کو اپنے کنٹرول میں کر لیا ہے۔ کوئی دور ہوتا تھا‘ بزنس مین اور تگڑے لوگ بعض سیاستدانوں کو ڈونیشن دے کر مرضی کی پالیسیاں بنواتے تھے۔ اب یہ کام ہر وہ بندہ کر سکتا ہے جس کے پاس چند ایکڑ زمین ہو اور اس پر کسی ہائوسنگ سوسائٹی کا بورڈ لگا ہوا ہو۔ وہ کسی کو بھی خرید سکتے ہیں۔ اب پوری سیاست کو وہ کنٹرول کرتے ہیں۔ اس میں اتنا پیسہ آگیا ہے کہ ٹیکسٹائل مل مالکان بھی اپنا کاروبار چھوڑ کر اب پلاٹوں کی فائلیں بیچنے پر لگ گئے ہیں۔ یوں دھیرے دھیرے سب پیسوں کے غلام بن گئے ہیں۔ جیسے کسی نے کہا تھا کہ سمارٹ لوگ گھر بناتے ہیں اور سمارٹر لوگ ان گھروں میں (کرائے پر) رہتے ہیں۔ یہی سب کچھ اب پراپرٹی ڈیلرز اورٹھیکیدار کرتے ہیں۔ وہ خود سیاست نہیں کرتے بلکہ سیاستدانوں کو خرید لیتے ہیں اور کنگ میکر کا درجہ پاتے ہیں۔
ویسے مجھے تو پاکستان کا کوئی ایسا دور نہیں ملتا جب کچھ سکون ہو یا اس ملک کو کوئی اعلیٰ قیادت ملی ہو اور ہم نے ایک معاشرے کے طور پر باعزت سفر شروع کیا ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر گزرا دور اچھا محسوس ہوتا ہے کیونکہ وہ لوٹ کر ہم پر حملہ آور نہیں ہوسکتا۔ ہم حال میں رہتے ہیں اور مستقبل کی فکر کرتے ہیں۔ پچھلے ادوار میں بھی یہی ہورہا تھا جو آج ہورہا ہے۔ اس وقت بھی یہ سیاستدان کسی نہ کسی ہاتھ کی تلاش میں تھے اور آج بھی ہیں۔
دوسری طرف آئی ایس پی آر کے ڈی جی صاحب نے پریس کانفرنس میں فرمایاکہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔ سوال یہ ہے کہ جب ملک کا وزیرداخلہ خوداسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سر پر ہاتھ کی بات کرتا ہے تو پھر اس کا مطلب ہے حکومت خود ہی چاہتی ہے کہ اس تاثر کو گہرا کیا جائے کہ پاکستان میں حکومت لینے اور چلانے کے لیے مسلسل ایک ہاتھ کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہ ہاتھ بھی بڑا سمجھدار ہے۔ کبھی کسی کے سر پر تو کبھی کسی دوسرے کے سر پر ہوتا ہے۔ کوئی دور تھا کہ یہی ہاتھ نواز شریف کے سر پر تھا بلکہ جنرل ضیاالحق نے باقاعدہ دعا دی تھی کہ ان کی عمر بھی نواز شریف کو لگ جائے جو فوراً قبول بھی ہوگئی تھی۔ ہاتھ وہی رہا لیکن سر بدلتے رہے اور باری باری سب کی باری لگی اور سیاستدانوں کو بھی چسکا لگ گیاکہ کون اب اتنی محنت کرے کہ گلی گلی‘ محلہ محلہ پھر کر لوگوں میں سیاسی شعور اجاگر کرے اور ووٹ لے کر اقتدار میں آئے۔ یوں وہ سلسلہ شروع ہوا جس کی طرف شیخ رشید اشارہ کررہے ہیں۔
یہ بات شیخ صاحب کی درست ہے کہ ان برسوں میں یہ سیاسی پارٹیاں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں بری طرح ناکام رہی ہیں۔ ان کے اندر وہ جمہوریت ہی نہیں تھی جس کا نعرہ وہ لگاتی تھیں۔ یہ یورپ طرز کی جمہوریت نہیں تھی جہاں پارٹی اپنا سربراہ الیکٹ کرتی تھی۔ یہاں سربراہ ہی پوری پارٹی الیکٹ کرتا ہے۔ خان صاحب نے بھی نواز شریف اور زرداری سے یہی سبق سیکھا کہ پارٹی کے اندر الیکشن نہیں کرانے بلکہ نامزدگیاں کرنی ہیں۔ کون اب اتنے پاپڑ بیلے اور خواہ مخواہ لوگوں کو سر پر چڑھائے۔ آسان راستہ ایک ہی ہے کہ خود کو تاحیات صدر یا چیئرمین بنا کر باقی عہدے یاروں دوستوں یا وفاداروں اور طبلچیوں میں بانٹ دو۔ خان صاحب نے بھی یہی راستہ اختیار کیا ہے۔ اس وقت اکثر وزیر کسی نہ کسی پارٹی عہدے پر فائز ہیں۔ خان صاحب ایک نئی شروعات کرسکتے تھے کہ کوئی بھی وزیر پارٹی کا عہدہ اپنے پاس نہیں رکھے گا تاکہ وزرا گورننس پر فوکس رکھیں اور پارٹی کچھ اور لوگ چلائیں۔ اس طرح وہ وزیر بھی ان پارٹی عہدے داروں کو جواب دہ رہیں گے‘ لیکن پاکستان میں سیاست اور سیاستدانوں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ سب کچھ اپنے پاس رکھنا ہے کسی سے شیئر نہیں کرنا۔ بلدیاتی نظام کی ناکامی کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ وزیر‘ ایم این ایز اور ایم پی ایز ہیں جنہیں خطرہ رہتا ہے کہ اگر لوکل لیول پر یہ لوگ ڈلیور کرنے لگے تو کل کو انہیں کون ووٹ ڈالے گا؟ یوں پورا معاشرہ ایک پسماندگی میں مبتلا نظر آتا ہے۔ پھر سیاست کو یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ یہ طاقت اور پیسے کا ذریعہ ہے نہ کہ عوامی خدمت کا‘ حالانکہ ان لوگوں کی بہتری کیلئے کام کرنے کا نام سیاست ہے جو غریب ہیں اور جو زندگی میں ترقی نہیں کر سکے۔ امریکی ناول The Great Gatsby کی ابتدائی سطریں یاد آتی ہیں جب وہ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتا ہے: بیٹا اگر کبھی زندگی میں تمہیں اپنے سے کم عقل یا کم ذہین لوگوں سے واسطہ پڑے اور ان پر غصہ آئے تو اس لمحے خود کو سمجھا لینا کہ تمہیں زندگی میں جو مواقع ملے‘ جس وجہ سے تم ان سے زیادہ ذہین ثابت ہوئے وہ مواقع انہیں نہیں ملے ورنہ وہ بھی تمہاری طرح ذہین اور سمجھدار ہوتے۔
لیکن ہمارے ہاں بالکل الٹ ہوا۔ ہم نے کمزور طبقات کے نام پر سیاست شروع کی اور بقول شیخ صاحب سر پر ہاتھ رکھنے والے کی تلاش شروع کر دی اور غریبوں کو ان کے نام پر ہی دل کھول کر لوٹا۔ یہ ہاتھ بھی بڑا سمجھدار اور سیانا ہے۔ جانتا ہے کہ کب کس کے سر پر رہنا ہے اور کب واپس کھینچ لینا ہے۔ اس کھنچا کھنچی میں ملک کی یہ حالت ہوگئی ہے۔
ویسے ہم نے بھی کیا سیاستدان پائے ہیں جو سر پر ہاتھ رکھوانے کے چکر میں دن رات ذلیل ہوتے ہیں۔ کوئی ایک بھی انکار نہیں کرتا اور باری باری سب ہی اس ہاتھ کے ہاتھوں ذلیل بھی ہو چکے ہیں لیکن کیا کریں اس ہاتھ کا نشہ ہی کچھ ایسا ہے کہ انہیں اس ذلالت کا سودا بھی منظور ہے۔
بعض ذلالتیں بھی لطف دیتی ہیں وہ محبت میں ہوں یا سر پر ہاتھ رکھوانے کے شوق میں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں