کراچی سے ایک میڈیا گروپ کے مالک کا فون تھا۔ بتانے لگے کہ وہ میرے کالم باقاعدگی سے پڑھتے ہیں۔ مجھے حیران پا کر ہنس پڑے کیونکہ میرا خیال تھا بھلا کب ایک چینل اور انگریزی اخبار کے مالک کے پاس میرے اردو کالم پڑھنے کا وقت ہوگا۔ کہنے لگے: آپ کا کالم بہت عرصے سے پڑھتا ہوں لیکن''خوش نصیب ہاتھ‘‘پڑھ کر دل چاہا کہ فون کیا جائے۔ خیر‘ اُن سے آدھا گھنٹہ فون پر بات ہوئی۔اخباری گروپ اور ٹی وی چینل کے پرانے مالک ہیں لہٰذا ان کے پاس اندرونی خبریں بھی تھیں۔ مجھ سے پوچھا :اگلی دفعہ سرائیکی علاقوں کے ووٹر کا کیا رویہ ہو گا؟ کہنے لگے کہ اگلے الیکشن میں ڈیجیٹل میڈیا اور سوشل میڈیا کا اہم رول ہو گا۔ آپ کے سرائیکی علاقوں کے نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ لکھنے اور بولنے کی ضرورت ہے۔ساؤتھ میں اب بھی جاگیرداروں کا کنٹرول ہے‘ شہروں میں لوگ کھل کر ووٹ ڈالتے ہیں‘ وہ آزادی شاید دیہات میں لوگوں کو میسر نہیں۔اگر گائوں میں ایک کو نواز لیگ کا ٹکٹ مل گیا تو دوسرا پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف کا لینا چاہے گا۔ وجہ نظریات نہیں ہوتے۔ ان نوجوانوں کو کہیں کہ وہ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پر توجہ دیں۔ کہنے لگے یوٹیوب کلچر تیزی سے عام ہو رہا ہے۔ لوگ مرضی سے جب چاہیں اپنا پسندیدہ شو کسی وقت اپنی سہولت کے مطابق دیکھ سکتے ہیں۔
بولے کہ جس ہاتھ کی بات آپ کررہے ہیں کہ اسے سر پر رکھوانے کے لیے ہر سیاسی پارٹی بے چین ہے تاکہ اقتدار مل سکے۔ آخر اس کی ضرورت کیوں پڑتی ہے کہ وہ ہاتھ ان کے سر پر رکھا جائے؟ وہ ہاتھ کیوں یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اس نے کس کے سر پر رکھا جانا ہے۔ایسے کیوں نہیں ہوتا جیسے چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا ایک سسٹم بن چکا ہے کہ جو سینئر ہوگا وہی چیف جسٹس لگے گا۔ یوں عدالتی سسٹم بڑے اچھے طریقے سے چل رہا ہے۔ وہ دور گزر گیا جب حکومت پاکستان یا وزیر اعظم فیصلہ کرتے تھے کہ نیا چیف جسٹس کون ہو گا۔ سسٹم فیصلہ کر دیتا ہے کہ اگلا سینئر جج ہی چیف جسٹس ہوگا‘ چاہے چند ہفتوں کیلئے ہی کیوں نہ ہو۔کہنے لگے کہ یہ سسٹم آرمی چیف کی نامزدگی پر بھی لاگو ہوسکتا ہے کہ چیف جسٹس کی طرح جو بھی سینئر جنرل ہو وہی خود بخود آرمی چیف بن جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے جو افسر لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر پہنچتے ہیں ان کی قابلیت‘تربیت اور کلاس تقریباً ایک جیسی ہوتی ہے‘ وہ سب کمانڈر اور کمانڈ کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں‘لہٰذا جو بھی سینئر ہو وہ خود بخود پچھلے آرمی چیف کی ٹرم ختم ہوتے ہی نیا چیف بن جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے بڑا فرق پڑے گا اور ادارہ مضبوط ہو گا۔میں نے کہا:جب سپریم کورٹ کے کہنے پر مدتِ ملازمت کا نیا قانون پارلیمنٹ نے بنایا تھا تو ہمارے سیاسی حکمران چاہتے تو یہ قانون بھی بنا سکتے تھے‘لیکن سیاسی حکمران بڑے سیانے ہیں‘ وہ چاہتے ہیں کہ یہ اختیار ان کے پاس رہے نہ کہ چیف جسٹس کی طرح یہ اختیار بھی ان کے ہاتھ سے نکل جائے۔یہ سن کر وہ بولے: ابھی تک ان سیاستدانوں کا اپنے پسندیدہ جنرل لانے کا شوق پورا نہیں ہوا؟ ان کا اشارہ بھٹو کی طرف تھا جو جنرل ضیاکو اوپر لائے اور انہی کے ہاتھوں پھانسی لگے۔ نواز شریف بھی جنرل پرویز مشرف کو لائے اور جنرل علی قلی خان کو نظر انداز کیا، پھر جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں وہ بھی بھٹو کی طرح کے انجام سے دوچار ہوئے‘ اگرچہ پھانسی لگنے سے بچ گئے۔دو تین اور نام بھی ذہن میں ابھرے جنہیں نواز شریف سینئر ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ کچھ اور وجوہات کی وجہ سے اوپر لے کر آئے اور بعد میں انہی کے ہاتھوں مشکلات بھی اٹھائیں۔
میں نے کہا: کیا کریں ہمارے لیڈروں کی چوائس بھی مزیدار ہوتی ہیں۔ وہ ہر بندے میں اپنی برادری اور وفاداری تلاش کرتے ہیں اور یوں مار کھاتے ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ جولائی2013 ء کی بات ہے‘ نواز شریف کو تیسری دفعہ وزیراعظم بنے کچھ دن ہوئے تھے، ان کا پہلا دورہ چین کا تھا۔ میں اُس وقت دنیا ٹی وی میں تھا۔ مجھے ادارے کی جانب سے اطلاع دی گئی کہ ادارے نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ کو چین ادارے کے خرچ پر یہ دورہ کور کرنے کے لیے بھیجاجائے۔ یوں میں دنیا ٹی وی کے خرچ پر چین اس دورے کی کوریج کے لیے گیا۔ وہاں نواز شریف کی چینی قیادت سے ملاقاتیں تھیں‘ وہیں ایک شام انہیں چینی جہاز نما کشتی پر سیر کرانے لے گئے۔ ہم چند صحافی بھی ساتھ تھے۔ وہیں بات چھڑ گئی کہ اگلا آرمی چیف کون ہوگا اور کیسے اپوائنٹ کیا جائے گا کیونکہ تین چار ماہ بعد جنرل اشفاق پرویز کیانی چھ سال کی مدت کے بعد ریٹائر ہورہے تھے۔نواز شریف نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ ہمیں بتایا کہ اب کی بار اس پر سر کھپانے کی ضرورت ہی کیا ہے‘ اب تو سیدھا سا اصول فالو کیاجائے گا کہ جو سب سے سینئر جنرل ہوگا اسے ہی آرمی چیف لگا یا جائے گا۔ ہمیں لگا کہ نواز شریف نے شاید ماضی کے چند تلخ تجربات سے یہ سبق سیکھا ہے۔ شاید ان کے ذہن میں جنرل ضیاء الدین بٹ والی مثال ہو گی جب انہوں نے جنرل پرویز مشرف کو ہٹا کر ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ضیاء الدین بٹ کو لگا دیا تھا اور لمبی قیدا ور جلاوطنی بھگتی۔ اب کی دفعہ نواز شریف بڑے کلیئر تھے کہ وہ ماضی کی غلطی نہیں دہرائیں گے۔ نواز شریف کافی دیرتک ہمیں اپنی اس نئی فلاسفی کے فوائد گنواتے رہے اور ہم بھی قائل ہوتے رہے۔خیر کچھ دن بعد چین سے واپسی ہوگئی اور پھر وہی بحث چھڑ گئی کہ نیا آرمی چیف کون ہوگا۔
میرے ذہن میں نواز شریف کی چین میں بڑے یقین سے کہی گئی بات تھی لہٰذا ایک دن میجر عامر سے بات ہورہی تھی تو میں ڈٹ گیا۔ میجر عامر ہنس پڑے اور بولے: میں بتائوں نیا آرمی چیف کون ہو گا؟ میں نے کہا: میجر صاحب جو سب سے سینئر افسر ہے اسی کو یہ منصب سونپا جائے گا۔وہ بولے: آپ کو کس نے بتایا ہے؟ میں نے کہا: نواز شریف نے خود چین میں ہمیں بتایا تھا۔میجر صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری اور بولے: آپ کو خبر دے رہا ہوں آپ کے نئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف ہوں گے۔ میجر عامر نے کہا کہ یہ خبر بریک کرو۔ میں نے حیرت سے انہیں دیکھا تو بولے :اب یہ نہ پوچھنا مجھے کیسے پتا ہے۔ میں نے اصرار کیا تو بولے :جلدی جائو یہ بڑی خبر بریک کرو اور کریڈٹ لے لو۔ جب اس کا اعلان ہوگا کہ جنرل راحیل شریف کو نواز شریف نے تین چار سینئر جرنیلوں پر ترجیح دیتے ہوئے پاک فوج کی کمان سونپ دی ہے تو پھر میرے پاس آنااور میں تمہیں بتائوں گا کہ جنرل راحیل کو اس عہدے کے لیے کیوں ترجیح دی گئی۔
میں حیران ہوکر میجر عامر کے گھر سے لوٹ آیا۔ دنیا ٹی وی کے پروگرام میں ذرائع کے حوالے سے خبر بریک کی۔ دو تین دن بعد نواز شریف نے جنرل راحیل شریف ہی کو نیا چیف لگایا۔میجر عامرمجھ پر ہنس رہے تھے کہ میں چین سے کیا باتیں سن کر آیااور پھر انہوں نے مجھے وہ راز بتایا کہ انہیں کیسے پتا تھا کہ جنرل راحیل شریف ہی نئے چیف ہوں گے۔ میں حیرانی سے میجر عامر کی راز بھری باتیں سنتا رہا اور سوچتا رہا کہ تین ماہ میں ہی نوازشریف بھول گئے کہ چین میںانہوں کیاکہا تھا۔ پھر اسی دور میں نواز شریف کا ڈان لیکس سکینڈل سامنے آیا اور پرویز رشید اورطارق فاطمی کی برطرفی عمل میں آئی۔ سیاست اور سیاستدانوں کو سمجھنا ہم عام لوگوں کے بس میں نہیں۔میں نے تو اُسی دن ہاتھ کھڑے کر کے میجر عامر سے ہار مان لی تھی۔