مونس الٰہی نے کیا زبردست بات کی ہے۔ دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ ایک تقریب میں جناب وزیراعظم موجود تھے جہاں مونس الٰہی کو بھی چند منٹ بات کرنے کا موقع ملا۔ عمران خان ناراض چہرے کے ساتھ بیٹھے مونس کو سن رہے تھے۔ مونس بھی نروس لگ رہے تھے اور آواز میں کچھ لرزش بھی شامل تھی۔ مونس کو پتہ تھا کہ وہ بڑی مشکل سے تین سال کی کوششوں اور دھمکیوں کے بعد وزیر بنے ہیں۔ شاید مونس الٰہی کو وہ لمحہ بھی یاد آرہا ہو جب ایک ٹی وی شو میں انہوں نے کہا تھاکہ عمران خان اس لیے انہیں وزیر نہیں بناتے کہ انہیں ان کی شکل پسند نہیں۔ خان صاحب کو بھی یقینا تکلیف ہورہی گی کہ انہوں نے چوہدریوں کو ساتھ ملایا‘ اہم عہدے اور وزارتیں دیں‘ مرضی کے ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او لگائے‘ ان کے خلاف الیکشن میں پی ٹی آئی کے امیدوار کھڑے نہیں کئے۔ اب جب شہباز شریف اور زرداری مل کر ان کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے پر تل گئے ہیں اور انہیں یعنی خاں صاحب کو چوہدریوں سے شدید سپورٹ کی ضرورت ہے تو انہوں نے شہباز شریف کو چودہ برس بعد اپنے گھر بلا لیا۔ چوہدری برادرز آصف زرداری سے بھی مل رہے ہیں‘ اور خان صاحب کے مخالفین کو گھر بلا کر دنیا کو میسج دے رہے ہیں کہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔ اس پر مونس الٰہی نے وزیراعظم کو کہا کہ آپ اپنی پارٹی کو کہیں گھبرائے نہیں‘ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ اس پر عمران خان کا چہرہ کھل اٹھا‘ خوشی چہرے سے عیاں تھی۔ اپنی باری پر خان صاحب نے چوہدریوں کی تعریفوں کے پل باندھ دیے اور کہا کہ انہیں چوہدریوں پر بہت اعتماد ہے۔
میں یہ سب کچھ سن کر سوچ رہا تھا کہ خان صاحب اور چوہدری ایک دوسرے کو اچھے ٹکرے ہیں۔ دونوں نے جس طرح ایک دوسرے کا حشر کیا اور آج جپھیاں ڈال کر حکومت کر رہے ہیں‘ وہ کمال ہے۔ مجھے خان صاحب کے منہ سے چوہدریوں پر اعتماد کی باتیں اور ان کی تعریفیں سن کر 2002ء کے اکتوبر‘ نومبر کے مہینے یاد آگئے جب الیکشن میں خان صاحب ایک سیٹ جیت کرآئے تھے۔ ان کا خیال تھا‘ الیکشن کے بعد مشرف انہیں وزیراعظم بنائیں گے۔ وہ پرویز مشرف کو کینسر ہسپتال بھی لے کر گئے اور مہمان خصوصی بنایا۔ پھر مشرف نے جب ریفرنڈم کرایا تو اس کی بھی خان صاحب نے کھل کر حمایت کی۔ ان کی وار آن ٹیرر کی بھی اُن دنوں حمایت کی کہ مشرف صاحب کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ خان صاحب کا خیال تھا‘ مشرف کے پاس ان کے علاوہ کسی کو وزیر اعظم بنانے کا آپشن نہیں۔ اس وقت چوہدری اور عمران خان مشرف کے کٹر حامی تصور ہوتے تھے۔ خان صاحب کو مشرف حکومت سے ریلیف بھی ملا۔ نواز شریف دور میں مسز گولڈ سمتھ پر نایاب ٹائلوں کا جو پرچہ درج ہوگیا تھا‘ مشرف کے آتے ہی وہ کیس دبا دیا گیا۔ اس لیے مشرف عمران خان کو سوٹ کرتے تھے۔ وہی بات کہ دشمن کا دشمن بھی آپ کا دوست ہوتا ہے۔ عمران خان بڑے پرامید تھے لیکن اس دن ان کو جھٹکا لگا جب پرویز مشرف نے چوہدریوں کو اہمیت دے کر خان صاحب کو کہا کہ آپ اپنی پارٹی کا (ق) لیگ سے اتحاد کرکے چند سیٹیں لے لیں‘ لیکن اس الائنس کے سربراہ چوہدری شجاعت ہوں گے۔ خان صاحب کیلئے یہ ہضم کرنا مشکل تھاکہ ان کی قسمت کا فیصلہ چوہدری برادران کریں۔ وہ تو سمجھے بیٹھے تھے کہ مشرف تحریک انصاف کو الیکشن جتوا کر انہیں سیدھا وزیراعظم بنوا دیں گے۔ مشرف نے جھنڈی دکھائی تو خان صاحب نے نیا سیاسی کھیل شروع کیا اور پارلیمنٹ کے اندر مشرف کی وار آن ٹیرر پالیسی کے خلاف تقریریں اور بعد میں ڈرون کے خلاف جلوس اور وہ سب باتیں کرنا شروع کیں جن سے مشرف کو تکلیف پہنچے۔ انہوں نے سب سے زیادہ حملے چوہدریوں پر کئے۔ وہ ان کی بینکوں سے معاف کرائی گئی بھاری رقوم کا سکینڈل سامنے لے کر آئے۔ میں خود پارلیمنٹ کیفے ٹیریا میں ہونے والی اُس پریس کانفرنس میں موجود تھا جس میں خان صاحب نے چوہدریوں کی کرپشن اور بینک لوٹنے کی دستاویزات ہم صحافیوں میں بانٹی تھیں۔ جب چوہدری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ پنجاب بنائے گئے تو عمران خان نے جلسوں میں کہنا شروع کردیا کہ پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کو وزیراعلیٰ بنا دیا گیا ہے۔ اس دوران خان صاحب کولگا‘ مشرف کو تکلیف پہنچانے کا سب سے بڑا ذریعہ نواز شریف ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے فلائٹ پکڑی اور لندن جا کر نواز شریف کے ساتھ پریس کانفرنس کی جس میں دیگر صحافیوں کے ساتھ میں بھی موجود تھا۔ اس میں انہوں نے میاں نواز شریف کو بار بار کہا کہ آپ فوراً پاکستان آئیں‘ مل کر مشرف کے خلاف تحریک چلاتے ہیں۔ اس دوران بینظیر بھٹو قتل ہوئیں تو نوڈیرو میں اس پریس کانفرنس میں بھی میں خود موجود تھا جس میں زرداری نے قاتل لیگ کہہ کر سیدھا الزام چوہدریوں پر لگا دیا‘ لیکن کچھ عرصے بعد وہی چوہدری پیپلز پارٹی کے نائب وزیراعظم بن گئے۔ اس دوران شہباز شریف اور نواز شریف واپس لوٹے تو انہوں نے بہت سے پرانے لوگوں کو پارٹی میں واپس لیا لیکن شیخ رشید‘ چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی کو معافی نہ ملی بلکہ جب شریف خاندان میں ایک فوتگی ہوئی تو چوہدری تعزیت کے لیے جانا چاہتے تھے تو انہیں منع کردیا گیا۔ اب وہی شہباز شریف برسوں بعد چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی کے گھر پہنچ گئے تاکہ ان کے دو تین ووٹ لے کر عمران خان کو ہٹا سکیں۔
مجھے یاد ہے پرویز الٰہی بڑے دکھ کے ساتھ آتے جاتے صحافیوں کو بتاتے تھے کہ عمران خان اکثر نجی محفلوں میں ان کے بارے جو کمنٹ کرتے ہیں‘ ان سے دل دکھتا ہے۔ مونس الٰہی نے خود ٹی وی شو میں کہا تھا کہ عمران خان کہتے ہیں مجھے مونس الٰہی کی شکل پسند نہیں‘ اسے وزیر نہیں بنا سکتا۔ جن مونس الٰہی کے خلاف خان صاحب نے اپنی الیکشن مہم میں نعرے لگائے‘ انہی کو اپنی کابینہ کا وزیر بنا دیا۔ وہ مونس الٰہی جنہیں خان صاحب کے کہنے کے مطابق جیل میں ہونا چاہیے تھا وہ وزیراعظم کو تسلی دے رہے تھے کہ آپ گھبرائیں مت ہم آپ کو وزیر اعظم کی سیٹ سے نہیں اتارنے دیں گے اور پھر وزیراعظم کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا کہ کرسی بچ گئی۔ جس زرداری نے بینظیر کے قتل میں سازشی کرداروں کو سزائیں دلوانی تھیں انہی کو نائب وزیراعظم بنوا دیا‘ جس نواز شریف اور شہباز شریف نے چوہدریوں کو اپنے ساتھ دھوکہ اور جنرل مشرف کی حمایت پر گھر آنے سے روک دیا وہی شہباز شریف انہی چوہدریوں کے گھر پہنچے ہوئے تھے کہ دو تین ووٹ لے لیں۔
ہمارے سیاسی اور صحافتی دانشور اس کام کو سیاسی آرٹ کا نام دیتے ہیں مگر دیہاتوں میں اسے کوئی اور نام دیا جاتا ہے۔ ہم صحافی‘ کالم نگار ان سیاستدانوںکو مہاتما بناتے ہیں جبکہ عوام کہتے ہیں کہ دیکھا میرا لیڈر کتنا چالاک‘ فرڈایا اور ہوشیار نکلا سب کو ماموں بنا دیا۔ وہ مونس الٰہی جس سے عمران خان نے این آئی سی ایل سکینڈل کے اٹھارہ لاکھ پاؤنڈ ریکور کرانے تھے وہی وزیر اعظم کو تسلیاں دے کر کہہ رہے تھے کہ نہ گھبرائیں میں آپ کے ساتھ ہوں۔ آج خان صاحب کی کرسی انہی مونس الٰہی کی مرہون منت ہے جن کی انہیں شکل پسند نہیں تھی۔ قدرت بھی تکبر بھرے‘ غرور بھرے انسان کو اسی دنیا میں کیا کیا دکھا دیتی ہے۔ مونس الٰہی نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا۔ واقعی یہ سب ایک تماشا ہی تو ہے اور ہم سب تماشبین۔ ڈگڈگی پر ناچنے والی پتلیاں۔