دنیا کا کوئی بھی پروفیشن ہو اس میں خطرات ہیں۔ خطرات کی نیچر مختلف ہو سکتی ہے۔ کہیں زیادہ تو کہیں کم لیکن یہ ممکن نہیں کہ آپ کتنا ہی معمولی کام کرتے ہوں‘ اس میں تھریٹس نہ ہوں؛ تاہم بعض پروفیشن ایسے ہیں جن میں آپ جان سے جا سکتے ہیں اور جیل بھی ہو سکتی ہے۔ میڈیا بھی ان پروفیشن میں سے ایک ہے جہاں جان جانے کے خطرے کے ساتھ ساتھ آپ جیل بھی جا سکتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے تک ہندوستان اور یورپ میں جب بادشاہ حکمران تھے تو کس میں جرأت تھی کہ وہ بادشاہوں یا شاہی خاندان بارے کوئی ایک لفظ بھی کہہ سکے۔ اشرافیہ ہی عوام پر حکمرانی کرتی تھی۔ مزے کی بات ہے‘ یہ شاہی خاندان انہی عوام کے پیسوں پر عیاشی کرتے تھے جنہیں یہ جرأت نہ تھی کہ وہ ان پر کوئی سوال کر سکتے۔ مطلب جن کے اخراجات عوام اٹھاتے تھے انہیں بھی یہ حق نہ تھا کہ کوئی بات کر سکیں۔ یہ عجیب اصول تھا کہ جو آپ کے اخراجات پورے کررہا ہے وہ آپ سے کوئی سوال بھی نہیں کرسکتا۔ بادشاہ کو سب کچھ معاف تھا۔ تصور یہ تھا کہ بادشاہ، شاہی خاندان یا اشرافیہ‘ کوئی غلطی کر ہی نہیں سکتے لہٰذا سوال یا کوئی شک کرنا ان کی توہین کے برابر تھا اور اس کی سزا موت تھی۔ یوں سزائوں کے خوف سے ان بادشاہوں، شاہی خاندانوں اور اشرافیہ نے ہزاروں سال عوام پر ظلم و ستم کرکے حکمرانی کی‘ لیکن دھیرے دھیرے عوامی شعور بیدار ہونا شروع ہوا کہ جو ہمارے پیسوں پر عیاشی کرتے ہیں‘ جو ہم سے ٹیکس لے کر مزے کی زندگی گزارتے ہیں ان سے سوال کیوں نہیں پوچھا جا سکتا کہ وہ اپنا حساب بھی دیں؟ بادشاہت کیوں نہ چل سکی اور اب دنیا کے دو سو ممالک میں کیوں جمہوریت ہے؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ عوام کو یہ حق ملا یا عوام نے یہ حق لے لیا کہ جو لوگ ان سے پیسے لیتے ہیں وہ جواب طلبی کیلئے بھی تیار رہیں۔ اس وجہ سے نہیں چھپنے دیا جائے گا کہ جو چاہیں کر گزریں‘ آپ سے کچھ نہیں پوچھا جا سکتا کیونکہ آپ بادشاہ ہیں۔ آپ کے خاندان پر کوئی سوال نہیں اُٹھ سکتا کیونکہ وہ پبلک لائف میں نہیں ہیں۔
لوگ کسی کو اس کی ذاتی زندگی سے ہی بہتر جج کر سکتے ہیں کہ وہ کیسا انسان ہے۔ اگر آپ اپنی ذاتی لائف میں فیئر نہیں ہیں تو پبلک لائف میں کیسے فیئر ہوں گے۔ بل کلنٹن کو بھی مونیکا لیونسکی سکینڈل میں پرائیویسی کا بہانہ نہیں بنانے دیا گیا تھا۔ وہ ایک سپرپاور کا صدر تھا۔ برطانیہ میں شاہی خاندان کی ذاتی زندگی کے سکینڈلز دیکھنے ہوں یا وہاں کیسے میڈیا ان سکینڈلز یا شخصیات کو ہینڈل کرتا ہے تو نیٹ فلکس پر 'کرائون‘ سیریز دیکھ لیں۔ یورپ میں تو یہ تصور ہے کہ جو جتنا اعلیٰ عہدے یا ذمہ داری پر بیٹھا ہے اس پر اتنی ہی زیادہ ذمہ داری ہے کہ وہ صاف و شفاف ہو۔ امریکہ میں صدارتی امیدواروں کے بارے میں اتنا پتا چل جائے کہ اس نے کالج لائف میں ایک چرس بھرا سگریٹ پی لیا تھا تو اسے فوراً ریس سے نکلنا پڑتا ہے۔ وہاں کوشش کی جاتی ہے ایسا امیدوار سامنے آئے جس کی ایک شادی ہو، فیملی ہو، بچے ہوں اور وہ بیوی کا ہاتھ پکڑ کر امریکن معاشرے کو دکھا سکے کہ وہ ایک گھریلو انسان ہے‘ ایک نارمل بندہ ہے جس کی بیوی برسوں سے اس کے ساتھ رہتی ہے۔ نارمل لوگوں کی طرح اس کے بچے ہیں جو اس کے ساتھ رہتے ہیں اور وہ ایک ہیپی فیملی ہیں اور وہ ان کے معاشرے کا صحیح نمائندہ کہلوانے کے قابل ہے۔
انگریزوں کو لاکھ برا کہیں لیکن ایک بات کی داد دینا پڑے گی کہ انہوں نے ہندوستان میں جاری خونریزی کو ختم کیا جب انہوں نے یہ تصور دیا کہ کسی بادشاہ، شاہی خاندان یا شہزادوں کو قتل کیے بغیر بھی بادشاہ بدلے جا سکتے ہیں‘ ورنہ یورپ ہو یا ہندوستان وہاں بادشاہ اسی وقت بدل سکتا تھا جب وہ طبی موت مرے یا پھر اس کا بیٹا یا بھائی اسے درباریوں سمیت قتل کر دے یا پھر رشتے دار لمبی جنگیں لڑیں اور جو جیتے وہی سکندر۔ جمہوریت نے یہ مسئلہ حل کر دیا‘ اور کہا کہ اپنی مرضی سے پانچ برس بعد نیا بادشاہ چن لیں جو آپ کو جوابدہ بھی ہو۔
لیکن کیا کریں‘ اس خطے کے لوگوں کے اندر ہزاروں سالوں سے موجود غلامی اتنی گہری ہو چکی ہے کہ وہ اب ہمارے ڈی این اے تک سے نکلنے کو تیار نہیں۔ جمہوریت نے یورپ کی ترقی میں اضافہ کیا کہ وہاں انہوں نے کسی سیاسی لیڈر کو اتنا بڑا درجہ نہیں دیاکہ اس پر تنقید یا بات کرنا گناہ قرار دے دیا جائے۔ وہاں تو الٹا لیڈرشپ کیلئے زیادہ کڑا امتحان ہے۔ ہمارے ہاں حکمرانوں نے اس خطے کی اس غلامانہ سوچ سے فائدہ اٹھایا کہ کوئی بڑا آدمی جو گھوڑے، ہاتھی یا لینڈ کروزر پر سوار ہو‘ وہ کوئی غلط کام کر ہی نہیں سکتا۔ اس کی خوشنودی کیلئے عام لوگ کچھ بھی کر گزرنے کو تیار رہتے ہیں۔ وہ بڑے آدمی بے شک کرپٹ ہوں، غیراخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہوں یہ ہمارا غلام طبقہ ان کا دفاع کرے گا۔ ایسا انسان اس عوام کو خود سے بہتر لگتا ہے۔ خوش نصیب لگتا ہے۔ ان امیروں کی زندگی انہیں انسپائر کرتی ہے۔ وہ اپنے سے اعلیٰ انسان جیسا بننا چاہتے ہیں۔ وہ ان کا آئیڈیل ہے تو پھر وہ بندہ کچھ بھی کر گزرے وہ اس کے بارے میں کوئی غلط بات نہیں سننا چاہتے۔ وہ ان کا مرشد بن جاتا ہے۔ وہ پھر کچھ بھی لوٹ لے انہیں فرق نہیں پڑتا۔ وہ اس مالی اور اخلاقی طور پر کرپٹ ایلیٹ کے لیے جان کی بازی لگانے پر تل جائے گا۔ بیشک عام انسان اشرافیہ یا حکمران جماعت کے اس سردار سے وہ عمر بھر نہیں ملا ہوگا لیکن اس کی خاطر وہ عمر بھر کے دوستوں‘ رشتہ داروں کو چھوڑ دے گا۔ اس ہزاروں سال پرانی غلامانہ فطرت کا فائدہ ہمارے لیڈرز اٹھاتے آئے ہیں اور شاید اٹھاتے رہیں گے۔ باقی چھوڑیں‘ جب افغانستان میں غریبوں کے بچوں کا قتال ہو رہا تھا تو ان کو لڑانے والوں کے اپنے بچے کینیڈا کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ آج وہی بچے دولت میں کھیل رہے ہیں جبکہ ان غریبوں کے بچوں کی قبروں کے نشان تک نہیں ملیں گے جو افغانستان بھیجے گئے تھے۔ آج اسی غریب کو آپ یہ بات سمجھانے کی کوشش کریں تو وہ ان لڑانے والوں کیلئے لڑنے مرنے پر تل جائے گا۔
اب بھی ہمارے ہاں بہت کچھ ہورہا ہے۔ نواز شریف اپنے بچوں کے ساتھ لندن بیٹھے ہیں۔ خان صاحب وزیر اعظم ہائوس میں اور ان کے بچے بھی لندن رہتے ہیں لیکن دونوں کے حامیوں کو اگر سوشل میڈیا پر دیکھیں تو ایک دوسرے کی ایسی کی تیسی کیے ہوئے ہیں۔ آج کچھ لوگوں کو سوشل میڈیا گند لگتا ہے کیونکہ پہلے سوشل میڈیا پر ان کے حامیوں کا راج تھا۔ اب خان صاحب کے ساتھ ان کے مخالف وہی سلوک کررہے ہیں جو ان کی سوشل میڈیا ٹیمیں ان کے ساتھ کرتی تھیں‘ لہٰذا اب انہیں لگتا ہے کہ آسمان گرنے والا ہے۔ وہ اب ایسے قوانین لے آئے ہیں کہ ایف آئی اے پولیس آپ کے گھر بغیر وارنٹ گھس کر آپ کو پکڑ لے گی، آپ کی ضمانت بھی نہیں ہوگی اور سزا پانچ سال ہوگی۔ جس یورپ کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے وہاں ایسی پاورز نہیں ہیں بلکہ ہتک عزت کا سول قانون ہے‘ وہاں ہتک عزت پر جرمانے ہوتے ہیں پانچ سال جیل نہیں۔ وہ فرماتے ہیں: اچھے صحافیوں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ اب اس کا فیصلہ بھی یقینا وہی کریں گے کہ کون اچھا صحافی ہے اور کون کرپٹ۔ لگتا ہے‘ وزیراعظم کے ساتھ ساتھ اب جج، جیوری اور جلاد‘ تینوں کا کام بھی خان صاحب ہی کریں گے۔