ان برسوں میں کئی تماشے دیکھے لیکن اب کی دفعہ کچھ نیا ہورہا ہے۔ اس دفعہ بتایا جارہا ہے کہ بہت گند پڑنے والا ہے۔ ویسے اپوزیشن جماعتیں ہی گند ڈالتی رہی ہیں۔ ہر دفعہ وہ حکومتِ وقت کے خلاف جلسے جلوس اور لانگ مارچ کر کے حکومت کو گرانے کی کوشش کرتی ہیں۔ بینظیر بھٹو‘ نواز شریف اور عمران خان سب نے لانگ مارچ کر کے دیکھے اور حکومتوں کے لیے مسائل پیدا کیے۔ خان صاحب نے تو ریکارڈ قائم کیا‘ انہوں نے چار پانچ سال مسلسل احتجاج کیا اور اس وقت تک کرتے رہے جب تک وہ نواز شریف اور ان کی بیٹی کو جیل نہیں لے گئے لیکن اب کی دفعہ نیا کام ہورہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد حکومت خود ہی سب سے زیادہ احتجاج کررہی ہے یا احتجاج کا پروگرام بنا رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان اس وقت ملک کے مختلف شہروں میں جلسے کر رہے ہیں جن میں بلاشبہ بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی ہے اور حکومت بڑی حد تک یہ تاثر قائم کرنے میں کامیاب رہی ہے کہ اب بھی لوگ حکومت سے اتنے ناخوش نہیں جتنا انہیں میڈیا یا اپوزیشن کہہ رہی ہے۔ یقینا میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے لیے بھی یہ سب کچھ حیران کن ہے کہ ایک طرف لوگ مہنگائی کا رونا روتے ہیں اور دوسری طرف جوق در جوق جلسوں میں شریک ہوتے اور عمران خان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔ اپوزیشن الگ حیران ہے کہ وہ عمران خان اور ان کے وزیروں کو طعنے دیتے تھے کہ سڑکوں پر نکل کر دکھائیں۔ اب جب وزیر اعظم نکلے ہیں تو بڑی تعداد میں لوگ انہیں سننے نکل آئے ہیں۔ ان جلسوں سے پی ٹی آئی کو بڑا حوصلہ ملا ہے کہ حالات اتنے بھی خراب نہیں جتنے وہ سمجھ بیٹھے تھے۔دوسری طرف اپوزیشن کا خیال ہے کہ ہر حکومت اتنے بڑے جلسے کراسکتی ہے کیونکہ لوکل انتظامیہ بندوبست کر لیتی ہے۔ اپوزیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ لوگ جلسوں میں آتے ہیں لیکن ووٹ نہیں ڈالتے‘ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں جتنے ضمنی انتخابات ہوئے ان میں زیادہ سیٹیں اپوزیشن نے جیتی ہیں۔
ان جلسوں سے متاثر ہوکر اب حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اسلام آباد میں دس لاکھ بندے اکٹھے کیے جائیں اور تحریک عدم اعتماد سے ایک دن پہلے بڑا شو کیا جائے تاکہ سب کو پیغام پہنچ جائے کہ حکومت بہت مقبول ہے۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن اگلا مرحلہ زیادہ خطرناک ہے۔ فواد چوہدری صاحب اور عامر کیانی کی پریس کانفرنس نے مجھے کچھ حیران کیا ہے۔ چلیں فواد چوہدری ایک تگڑ اوزیر ہے اور اس کی بات کچھ بنتی ہے کہ وہ کسی اپنے ایم این اے کو چھپی چھپی دھمکی دے لیکن مجھے حیرت عامر کیانی پر ہوئی ہے جو خود اس وجہ سے وزارت سے ہٹا دیے گئے تھے کہ چالیس ارب روپے کا ادویات سکینڈل سامنے آگیا تھا۔ وہ وزیر جسے خود نااہلی یا بدعنوانی کی وجہ سے وزارت سے چھ ماہ بعد ہی ہٹا دیا گیا وہ قومی اسمبلی کے ارکان کو دھمکی دے رہا ہے۔کیانی صاحب کے اس نئے منصوبے کے تحت تمام ارکانِ اسمبلی اس دس لاکھ کے مجمع سے گزر کر ہی تحریک عدم اعتماد میں ووٹ ڈالنے جائیں گے اور واپسی بھی اسی مجمع سے ہوگی۔ مطلب ایک پل صراط ٹائپ ماحول ڈی چوک میں بنایا جائے گا۔ ایک تنے ہوئے رسے پر چل کر تحریک انصاف کے لوگوں کو اسمبلی جانا ہوگا۔ مطلب ایک سیدھی دھمکی کہ اگر کسی نے ''پھنے خاں ‘‘بننے کی کوشش کی تو واپسی پر اس کی خیر نہیں ۔ یہ دھمکی وہ دے رہے ہیں جو خود اربوں روپے کے سکینڈل پر وزارت صحت سے برطرف کر دیے گئے تھے۔ اگر اس ملک میں کوئی انصاف ہوتا تو عامر کیانی آج تحریک انصاف کے سیکرٹری ہونے کے بجائے مقدمات کا سامنا کررہے ہوتے۔
حکومتوں کو گند ڈالنا سوٹ نہیں کرتا لیکن یہ پہلی حکومت ہے جو خود اسلام آباد میں بڑا گند ڈالنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ نواز لیگ کے خواجہ آصف نے بھی کہا ہے کہ اگر یہ بات ہے تو پھر ہم بھی اپنے ورکرز کا جلسہ یہیں اسلام آباد میں رکھ لیتے ہیں۔ مولانا پہلے ہی اپنی فورس کو بلا کر بڑا تماشا دکھا چکے ہیں۔ یوں اسلام آباد ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک خطرناک صورت حال کی طرف بڑھ رہا ہے۔ خان صاحب کا خیال ہے کہ دھمکیاں دیتے جائیں گے اور تشدد کا خطرہ بڑھے گا تو شاید طاقتور حلقے گھبرا کر اپوزیشن کو کہہ کر تحریک عدم اعتماد واپس کرا لیں۔ اس لیے وہ زیادہ زور جلسے جلوسوں پر دے رہے ہیں تاکہ ان حلقوں کو یہ پیغام چلا جائے کہ وہ اب بھی عوام میں اتنے مقبول ہیں جتنے ساڑھے تین سال پہلے تھے۔
خان صاحب کے پاس سب قانونی اور آئینی حل موجود ہیں۔ انہیں ڈی چوک پر جلسے جلوس کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ اگر کسی ایم این اے یا وزیر کو بغاوت کی سزا دینا چاہتے ہیں تو قانون کے مطابق دلوا سکتے ہیں۔ وہ اپنے ارکان کو نااہل قرار دلوا سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ قانونی راستہ اختیار کیوں نہیں کرتے؟ وہ ڈی چوک پر اپنے حامی اکٹھے کر کے پارلیمنٹ کو کیوں ڈرانا چاہتے ہیں؟ قانون اور آئین نے ایسے ارکان کے لیے ایک طریقہ متعین کررکھا ہے لیکن وہی بات کہ اس ملک میں آئین اور قانون پر عمل کرنے کو بزدلی سمجھا جاتا ہے‘ لہٰذا جو مزہ قانون توڑنے یا بڑھکیں مارنے میں ہے وہ بھلا قانون پر عمل میں کہاں ہے۔
اب اندازہ کریں خان صاحب جیسا بندہ‘ جس کی سیاست کی بنیاد ہی اس پر قائم ہوئی تھی کہ وہ قانون کی بالادستی کو یقینی بنائیں گے‘ بھی پارلیمنٹ کے اندر قانونی‘ آئینی لڑائی لڑنے کے بجائے ڈی چوک میں اپنے حامی بٹھا کر جنگ جیتنا چاہتے ہیں۔دوسری طرف بہت سے لوگ حیران ہیں کہ شریف خاندان کیسے تیار ہوگیا کہ پنجاب میں سب کشتیاں جلا کر پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ ماننے پر راضی ہوجائے یا پھر زرداری صاحب کو سب اختیارات دے دے کہ وہ جو اپوزیشن پارٹیوں میں پاور شیئرنگ کریں گے انہیں قبول ہوگا؟
شہباز شریف کا چوہدریوں کے گھر جانا اور اب حمزہ شہباز کا جہانگیر ترین کے گھر جانایہ ظاہر کرتا ہے کہ شریف خاندان کسی بھی قیمت پر اپنا یہ آخری موقع ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ نواز شریف کے لندن سے واپس آنے کا یہ آخری حربہ ہے کہ شہباز شریف وزیراعظم بنیں تاکہ نواز شریف کو مقدمات میں ریلیف ملے‘ اور اگلے الیکشن میں نواز شریف الیکشن مہم میں شریک ہوں۔ اگر اگلے الیکشن سے پہلے نواز شریف پاکستان نہیں آتے تو نواز لیگ کیلئے الیکشن جیتنا مشکل ہو جائے گا۔ ویسی ہی صورتحال پیدا ہورہی ہے جیسی بینظیر بھٹو کو درپیش تھی جب 2007 ء میں انہوں نے پرویز مشرف سے این آر او کر لیا تھا ۔ اُس وقت بینظیر بھٹو پر بھی ایسے ہی تنقید ہوئی تھی ‘جیسے آج نوازشریف پر ہورہی ہے کہ انہوں نے مقتدرہ سے ہاتھ ملا لیا ہے۔ بینظیر بھٹو کے پاس بھی یہی آپشن تھا کہ پرویز مشرف سے ہاتھ ملا لیں اور نواز شریف کو بھی ان حالات میں یہی راستہ نظر آرہا ہے کہ واپسی کی خاطر جو کمپرومائز کرسکتے ہیں کر لیں۔ لوگوں کی یادداشت بڑی کمزور ہوتی ہے۔انہوں نے دو تین دفعہ کمپرومائز کیے اور ہر دفعہ زیادہ ووٹ لیکر اقتدار میں واپس آئے۔ انہیں پتہ ہے کہ اس بار کمپرومائز بھی فائدہ دے گا۔
عمران خان یہ سب سمجھتے ہیں کہ ان کے پرانے طاقتور دوست ان سے ناراض ہیں اور ان کے مخالفین ساتھ مل کر کچھ ساز باز کررہے ہیں‘ لہٰذا وہ جلوس نکال رہے ہیں۔ان کے جلوس نکالنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے برسوں پہلے کہا تھا: اگر دس‘ بیس ہزار بندے سڑکوں پر نکل آئیں تو طاقتور لوگ ڈر جاتے ہیں۔ وہ ویڈیو اب بھی یوٹیوب پر مل جائے گی۔
خان صاحب کا یہ کہنا کہ وہ ٹماٹر آلو کی قیمتیں کم کرنے نہیں آئے تھے‘ یہ جملہ بھی اپنی جگہ کلاسیک ہے۔ ویسے کچھ بھی کہیں جتنا اس قوم کو خان صاحب سمجھے ہیں اور سمجھ کر اسے برتا ہے اس پر ان کو داد تو بنتی ہے۔