چکوال کی خوبصورت پہاڑیوں میں واقع گائوں کرولی کے قبرستان میں چار سو پھیلی اداسی میں بیاسی سالہ میجر نواز ملک کو قبر میں اتارا جا رہا تھا۔
میں کچھ دیر پہلے اسلام آباد سے یہاں پہنچا تھا۔ میجر صاحب کی میت ایک ایمبولنس میں لاہور سے لائی گئی تھی۔ جس گائوں سے زندگی کا سفر شروع کیا تھا وہ وہیں ختم ہو رہا تھا۔ ساری عمر کی دوڑ بھاگ کے بعد آخر ایک دن آپ نے واپس وہیں لوٹ جانا ہے جہاں انسانی روح نے پہلی سانسیں لی تھیں۔ قبر میں اتارتے دیکھ کر مجھے میجر صاحب کی نفاست یاد آئی۔ اپنے کپڑوں پر شکن تک نہ آنے دینے والا اب مٹی میں دفن ہو رہا تھا۔
کچھ دنوں سے بیمار تھے۔ اپنے کزن یاسر نواز سے فون پر بات ہوئی تھی تو بتانے لگا: ہسپتال سے گھر لے آیا ہوں۔ میں نے کہا: میجر صاحب کو میرا سلام کہیے گا کہ فون کیا تھا۔ اب دو دن بعد کرولی میں ان کے جنازے میں شریک ہو رہا تھا۔ یاسر کے گلے لگا کہ اسے تسلی دوں تو وہ آنسوئوں سے بھری آنکھوں سے مجھے دیکھتا رہا جو رات بھر باپ کی اچانک موت سے روتی رہی تھیں۔ وہ بیٹا جو باپ کی آخری عمر میں خدمت کیلئے لندن میں اپنا کیریئر چھوڑ آیا تھا۔ کووڈ کے چند ماہ یاسر پر بھاری گزرے تھے۔ ماں باپ دونوں سخت بیمار ہوئے۔ اکیلے اسے سب کا خیال رکھنا تھا۔ کچھ دیر ہم ایک دوسرے کو تھامے کھڑے رہے۔ یاسر نے میرے کان میں سرگوشی کی کہ ابو آپ کو اپنے بچوں کی طرح پیار کرتے تھے۔
انسانی رشتے بھی عجیب ہوتے ہیں۔ پچھلے سال جوان بیٹی فاطمہ کینسر کے ہاتھوں شکست کھا گئی تو ایک بڑا جھٹکا انہیں لگا۔ عمر کے اس حصے میں جوان بیٹی کی موت ایک بڑا صدمہ تھا۔ یاسر نے ایک عجیب بات بتائی۔ کہنے لگا: کل صبح تک ابو آئی سی یو میں تھے۔ وہ ہسپتال سے رات کو دو تین گھنٹے سونے گھر آیا۔ عجیب سی بے چینی رہی۔ پتہ نہیں کب تھکا ہارا جسم نیند میں ڈوب گیا۔ نیند میں اسے اپنی مرحومہ بہن فاطمہ نظر آئی جو اپنے باپ میجر نواز کا ہاتھ پکڑ کر لے جارہی تھی۔ یاسر اچانک نیند سے جاگا تو پسینے میں شرابور تھاکہ یہ کیا خواب دیکھا ہے۔ گھڑی دیکھی تو صبح کے پانچ بجنے والے تھے۔ اسی وقت فون کی گھنٹی بجی۔ فون ہسپتال سے تھاکہ میجر نواز ملک فوت ہوگئے ہیں۔ سب کچھ ختم ہوگیا تھا۔ بیٹی باپ کو اپنے ساتھ لے گئی تھی۔ یاسر بیڈ پر کافی دیر سن بیٹھا رہا کہ وہ اس وقت سب کو گھر میں جگا کر کیا بتائے کیا ہوگیا ہے۔
یاسر کی بات سن کر مجھے یاد آیا‘ نعیم بھائی کی وفات سے کچھ دن پہلے مجھے لیہ سے بڑے بھائی سلیم کا فون آیا۔ وہ ڈسٹرب تھے۔ کہنے لگے: نعیم کو کچھ ہو جائے گا‘ اماں خواب میں میرے پاس آتی ہیں اور کہتی ہیں میں نعیم کو اپنے پاس بلاتی ہوں یہ نہیں آتا‘ اس کے بڑے بھائی ہو‘ تم اسے کہو کہ اب بس کرے اور میرے پاس آجائے۔ میں خود یہ سن کر کچھ دیر کیلئے سن ہوگیا تھا‘ لیکن سلیم بھائی کو کچھ تسلیاں دی تھیں۔ ان تسلیوں سے کچھ نہ ہوا ‘کچھ دن بعد نعیم بھائی میرے پاس ہی اسلام آباد میں فوت ہو گئے تھے۔ انسانی روحوں کا عجیب ملاپ تھا۔ ماں بیٹے کو لے گئی تھی تو بیٹی باپ کو لے گئی۔
یاسر کچھ دیر بعد سنبھلا تو کہنے لگا: ایک عجیب بات بتائوں۔ میں ان کا بیٹا ہوں۔ زندگی میں کبھی تو بندہ کسی کا گلہ کر ہی لیتا ہے۔ انسان ہے آخر۔ کبھی نہ کبھی تو منہ سے ایسا کچھ نکل جاتا ہے‘ لیکن ان تمام برسوں میں ان کے منہ سے کسی کے بارے ایک بھی برا لفظ نہیں سنا۔ کسی کی برائی نہیں سنی۔ کسی کے بارے بات کی تو اچھی بات کی۔ یہی بات بعد میں خالہ سائرہ نے بتائی‘ جب اگلے دن میجر صاحب کے قل پر لاہور گیا۔ کہنے لگیں: نواز کے منہ سے کبھی کسی کے بارے میں نیگٹو بات نہ سنی۔ دوسروں کے ترقی یا آگے جانے پر خوش ہوتے تھے۔ کبھی کسی سے حسد نہ کیا۔ میں حیران ہوا کہ واقعی ایسا انسان بھی کوئی ہوسکتا ہے جس کی بیوی اور بیٹا گواہی دے رہے ہوں وہ کبھی کسی سے نہ جیلس ہوا نہ برائی کی۔ یاسر بتانے لگا: تمہیں ٹی وی پر دیکھتے تو فخر سے آنکھیں بھر جاتیں اور کہتے‘ دیکھو کہاں ایک گائوں سے اٹھا اور اتنی محنت کی۔ خالہ بتانے لگیں: ٹی وی پر تم آتے اور دوست بیٹھے ہوتے تو انہیں خوشی سے بتاتے‘ سائرہ کا بھانجا ہے۔
میجر صاحب کی زندگی کی عجیب و غریب کہانی تھی۔ برسوں پہلے ہوش سنبھالا تو انہیں گائوں میں دیکھا تھا۔ ایک طویل قامت خوبصورت سلجھا ہوا انسان جس کے منہ سے غیر ضروری بات کبھی نہ سنی‘ لیکن حس مزاح کمال تھی۔ 1968 میں میری بڑی خالہ آمنہ نے گائوں سے اٹھ کر پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا تو بینک میں نوکری ہوئی۔ وہیں ان کی ملاقات نواز ملک سے ہوئی جو بینک میں ملازمت کررہے تھے۔ بعد میں فوج جوائن کی۔ ایک کرولی گائوں کا نوجوان اور لیہ کے دوردراز پس ماندہ گائوں کی لڑکی کہاں آکر ملے تھے۔ اندازہ کریں آج سے پچاس سال پہلے اس گائوں میں یہ خبر کیسے بم شیل کی طرح گری ہوگی کہ ہیڈماسٹر غلام حسن کی بیٹی کا رشتہ دوردراز شمالی پنجاب کی کسی ملک برادری کے لڑکے کا آیا تھا جو اس کے ساتھ کام کرتا تھا۔ اپنی اس غیرمعمولی خالہ پر کتاب لکھنے کیلئے ریسرچ شروع کی تو میرے دل میں اپنے نانا کی عزت بڑھ گئی کہ کیسے 1960 کی دہائی میں اپنی بیٹی کو لاہور سے ماسٹرز کرایا، وہیں نوکری کی اجازت دی اور بیٹی کی مرضی سے اس کی شادی کی۔ ایسا روشن خیال انسان ہمارے گائوں میں پچاس سال پہلے موجود تھا۔ 1960 کی دہائی میں بیٹی کو اپنے سکول روزانہ پانچ‘ چھ کلومیٹر پیدل لیکر جاتے اور وہ لڑکوں کے ساتھ پڑھتی تھیں کیونکہ اس وقت گرلز سکول نہ تھے۔ پورا گائوں شادی کا مخالف تھا لیکن نانا ڈٹ گئے۔ ہمارا پورا گائوں آج پڑھا لکھا ہے تو اس میں میرے نانا غلام حسن کا ہاتھ ہے۔
بدقسمتی دیکھیں‘ میجر نواز ملک سے شادی کے دو تین سال بعد 1972 میں آمنہ خالہ فوت ہو گئیں جب عمر ابھی 35 سال تھی۔ میرا نام رئوف بھی انہوں نے رکھا تھا۔ بعد میں میری چھوٹی خالہ سائرہ کی شادی ان سے کی گئی۔ یوں میری دو خالائوں کی شادی میجر نواز ملک سے ہوئی تھی۔ وہ ہر سال گائوں آتے اور کئی دن ٹھہرتے اور کئی دن محفلیں لگتیں۔ پورا گائوں اکٹھا ہوتا۔ ماموں منظور کے ڈیرے پر شغل لگتے۔ وہ انگریزی لٹریچر پڑھنے کے رسیا تھے۔ جب بھی گائوں آتے‘ اپنے انگریزی ناول ساتھ لاتے اور وہیں ڈیرے پر ایک چھپر کے نیچے چارپائی پر گھنٹوں ناول پڑھتے رہتے۔ خالہ بتانے لگیں‘ انہیں جیسل سے اتنی محبت ہوگئی تھی کہ اکثر کہتے دل کرتا ہے کہ جیسل کے قبرستان میں مجھے دفن کیا جائے۔ انہیں اپنے کرولی گائوں کے قبرستان سے زیادہ جیسل کے قبرستان میں قبروں میں لیٹے کرداروں سے زیادہ پیار اور انسیت تھی جہاں آمنہ دفن تھیں۔
میجر نواز ملک نے ہمارے گائوں کے لوگوں پر بڑے احسانات کیے۔ ان کا جہاں ہاتھ پڑا انہوں نے نوکریاں دلائیں۔ یہ نہ دیکھا‘ یہ کون ہے کیسا ہے۔ میں 80 کی دہائی میں ان کے گلبرگ لاہور والے گھر میں کزنز کے ساتھ چھٹیاں گزارتا۔ وہیں مجھے ان سے انسیت شروع ہوئی۔ انکی بیڈ ٹیبل یا تنکوں کی بنی خوبصورت چھوٹی سی بک شیلف سے انگریزی ناول چرانے شروع کیے۔ اپنی فٹنس کا اتنا خیال تھا کہ آخری دم تک وہ روز پانچ چھ کلومیٹر واک کرتے۔ زندگی کو بھرپور طریقے سے گزارا۔ رشتے داروں اور دوستوں کا بہت خیال رکھا۔ دوسروں کے بچوں کو ترقی کرتے دیکھ کر خوش ہوئے۔
میجر صاحب کی قبر پر مٹی ڈالی جا رہی تھی۔ ایک ایسے انسان کا سفر ختم ہوا جس نے عمر بھر کسی سے حسد نہ کیا، کسی کی برائی نہ کی، دوسروں کی ترقی پر خوش ہوا۔ ہم سب پر احسانات کیے۔ پہاڑوں میں گھرے اس قبرستان پر شام ڈھل رہی تھی۔ چار سو عجیب خاموشی کا راج تھا۔ اداسی کا راج تھا۔ میرے بچپن، لڑکپن اور جوانی کا ایک خوبصورت کردار غروب ہو گیا تھا۔