اتوار کے روز قومی اسمبلی میں کچھ منٹوں کے اندر ہی پاکستان کی تاریخ بدل گئی۔ ہو سکتا ہے عمران خان اور ان کے حامیوں کو لگتا ہو کہ انہوں نے بڑا معرکہ سر کر لیا ہے۔ میں عرصے سے دوستوں سے کہہ رہا تھا کہ عمران خان کو پانچ سال پورے کرنے چاہئیں تاکہ ایک ہی دفعہ اس قوم کا رومانس پورا ہو جائے‘ لیکن کیا کریں کچھ لوگوں کے سر پر کسی خوف تلوار لٹک رہی تھی۔ وہ افورڈ نہیں کر سکتے تھے کہ عمران خان وزیر اعظم کے طور پر ایک اہم اور ضروری کام سرانجام دیں۔ دوسری طرف عمران خان افورڈ نہیں کر سکتے تھے کہ ان کی جگہ بیٹھ کر شہباز شریف وہی کام شروع کر دیں جو انہوں نے 2018ء میں وزیر اعظم بن کر شریف خاندان کے خلاف کیا تھا۔ انہوں نے تقریباً پوری نواز لیگ نیب کے ہاتھوں جیل میں ڈلوا دی تھی‘ اور تو اور علیم خان کو بھی جیل میں ڈلوا دیا گیا تاکہ وہ بزدار کے لیے کوئی خطرہ نہ بنیں۔ اب جو باتیں علیم خان نے کی ہیں ان کا خطرہ یا خدشہ عمران خان کو پہلے سے تھا۔ اسی لیے ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ان کی کردار کشی کا منصوبہ ہے۔ انہوں نے کچھ نام لیے اور کہا کہ ان کے خلاف بھی مہم چل سکتی ہے۔ اب اچانک پتہ چلا ہے کہ ان ناموں میں سے ایک دو ملک سے نکل گئے ہیں۔ کسی کو سمجھ نہیں آرہی کہ ملک میں جاری ہنگامے کے دوران ان کو پاکستان سے نکلنے کی اتنی ارجنٹ وجہ کیا بنی۔ اس وجہ کا جواب علیم خان نے دیا ہے۔ علیم خان نے ان تمام باتوں کی تصدیق کی ہے جو اب تک اندرکھاتے سب کو معلوم تھیں۔ جس طرح علیم خان نے انکشافات کیے ہیں اس نے سب کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ پنجاب میں ڈپٹی کمشنر کی ایک ایک سیٹ تین تین کروڑ میں بک رہی تھی۔ ہر ٹھیکے سے کمیشن وصول کیا جا رہا تھا۔ ویسے سن کر افسوس ہوا کہ وہ کون سے ڈی ایم جی یا پی سی ایس افسران تھے جنہوں نے ڈپٹی کمشنر کی سیٹ خریدی۔ کبھی اس عہدے کی عزت تھی‘ تکریم تھی‘ کچھ رعب تھا۔ داد دیں ان کو جنہوں نے بقول علیم خان مل کر اس عہدے کو ٹکے ٹوکری بیچ دیا۔ ان سکینڈلز کی سنگینی اس وقت بڑھ جاتی ہے جب پتا چلتا ہے کہ جن کرداروں کی سفارش پر بزدار کو وزیراعلیٰ لگوایا تھا وہ عمران خان حکومت کی ختم ہوتے ہی پاکستان چھوڑ گئیں۔ احسن جمیل گجر کی گوجرانوالہ میں ہاؤسنگ سوسائٹیز کو جس انداز میں ریگولر کرایا گیا وہ اپنی جگہ الگ سکینڈل ہے۔ ایک دو افسران نے ان کا یہ کام کرنے سے انکار کیا تو انہیں عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔ جس نے یہ کام کیا اسے بعد میں بڑی پوزیشن دی گئی۔ علیم خان کے بقول وہ یہ کرپشن کہانیاں بشمول ثبوت عمران خان کو پیش کر چکے ہیں۔
یہ بات مجھے عمران خان کے چند قریبی لوگ بھی کافی عرصہ ہوا بتا چکے ہیں کہ وہ عمران خان کو تونسہ کے بزدار‘ پاک پتن کے مانیکا اور گوجرانوالہ کے گجر خاندان کی کرپشن بارے بڑے عرصے سے بتا رہے تھے۔ عمران خان سب کچھ جانتے بوجھتے بھی کرپشن برداشت کرتے رہے کیونکہ انہیں اندیشہ تھا کہ اگر بزدار نہ رہا تو پھر رہیں گے وہ خود بھی نہیں۔ اس ڈر کے نتیجے میں عمران خان کی ان قوتوں سے بھی لڑائی ہوئی جو بعد میں ان کا بوجھ اٹھانے سے انکاری ہو گئیں۔
عمران خان جہاں اینٹی امریکہ جذبات کا فائدہ اٹھا کر الیکشن لڑنا چاہتے ہیں وہیں انہیں یہ بھی ڈر ہے کہ اگر نئے الیکشن نہ ہوئے اور ان کی جگہ کوئی اور بیٹھ گیا تو بہت سے راز کھلیں گے جن کا کچھ ذکر علیم خان نے کیا ہے۔ حکومت جانے سے بہت سے افسران جو اس لوٹ مار میں شریک تھے وہ وعدہ معاف گواہ بن کر مزید مشکلات پیدا کر سکتے تھے اور عمران خان کا امیج مزید خراب ہو سکتا تھا کہ جس تبدیلی کے لیے لوگوں نے بائیس برس کوشش کی وہ دراصل تین خاندانوں کی خوش حالی کے لیے تھی۔ سب کچھ ان تین خاندانوں نے بانٹ لیا۔ ایک خوف یہ بھی ہے کہ بیرون ملک سے جو کروڑوں روپوں کے تحائف ملے‘ جن کا ریکارڈ دینے سے انکار کر دیا گیا ہے‘ ان کی تفصیلات بھی بہت ڈسٹرب کر سکتی ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیس ہوا‘ ایک صحافی نے کیس کیا کہ انہیں کابینہ ڈویژن سے وہ انفارمیشن لے کر دی جائے تو اس صحافی کو دھمکایا گیا۔ اس کے پیچھے لوگ لگا دیے گئے۔ ان توشہ خانوں کے تحائف میں ایسا کیا تھا کہ عمران خان اور ان کی ٹیم نے تہیہ کر لیا کہ کچھ بھی ہو جائے تحائف کی تفصیلات قوم کو نہیں بتائی جائیں گی۔ روایتی طور پر جو پاکستانی صدر یا وزیراعظم سعودی عرب جاتے ہیں ان کی بیگم صاحبہ کو سونے‘ ہیرے جواہرات‘ سے لاد دیا جاتا ہے۔ لاکھوں روپے مالیت کی گھڑیاں الگ سے ملتی ہیں۔ اسی سے اندازہ کر لیں کہ مشرف اور شوکت عزیز کے گھر والوں کو سعودی دوروں میں متعدد بار ہیرے جواہرات کے سیٹ ملے اور ایک ایک سیٹ کی قیمت آج سے پندرہ سال پہلے ستر ستر لاکھ روپے تھی۔ اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ عمران خان توشہ خانہ کے تحائف چھپانا چاہتے تھے کیونکہ پھر عام آدمی حیران ہو گا کہ ریاست مدینہ کا نام لینے والے کروڑوں روپے کے تحائف چپکے سے گھر لے گئے جیسے مشرف‘ شوکت عزیز‘ زرداری‘ یوسف رضا گیلانی یا نواز شریف لے گئے تھے۔ فرق کیا رہا اگر آپ نے بھی اسی طرح توشہ خانے کا مال کھانا تھا جیسے پہلے والے کھا گئے؟
میرا رپورٹنگ کا تجربہ ہے کہ پاکستانی لوگ اربوں لٹ جائیں پر ردعمل نہیں دیں گے لیکن اس طرح کی چوریوں پر حیران اور افسردہ ہوں گے کہ فلاں بندہ مفت گھڑی لے گیا یا ہیرے جواہرات کا سیٹ گھر لے گیا۔ عمران خاں کو خطرہ ان اربوں روپوں کی کرپشن سے نہیں جن کے الزامات ان کی ٹیم پر لگتے رہے ہیں یا کچھ لوگوں پر پنجاب میں چار پانچ افسران کی مدد سے کمانے کا الزام ہے۔ انہیں دراصل اس بم شیل سے زیادہ خوف ہے جو کبھی بھی تحائف کی تفصیلات باہر نکلنے پر پھٹ سکتا ہے۔ انہیں پتہ ہے کہ شہباز شریف کے وزیر اعظم یا حمزہ شہباز کے وزیر اعلیٰ بننے کی صورت میں ان کے سب قریبی لوگ مشکل میں ہوں گے۔
ویسے داد دیں شریف خاندان کو جس نے اسلام آباد پر حکومت کیلئے شہباز شریف تو پنجاب کیلئے حمزہ شہباز کو چنا۔ کچھ دن پہلے تک جو باپ بیٹا جیل میں تھے‘ مبینہ طور پر اپنے گھریلو ملازمین کے بینک اکاؤنٹس منی لانڈرنگ کیلئے استعمال کررہے تھے‘ وہ اب پورے ملک اور صوبے کے کرتا دھرتا ہوں گے۔ دونوں اس وقت کرپشن الزامات پر ضمانت پر ہیں۔ یہ بھی نیا ریکارڈ ہے کہ میگا کرپشن میں ضمانت پر باپ بیٹا اس ملک کے دو عہدے سنبھالنے والے تھے لیکن اس سے زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ عمران خان جو بائیس برس تک اس ملک میں انصاف اور میرٹ کے لیے لمبی جنگ خود بھی لڑتے رہے اور دوسروں سے بھی لڑواتے رہے‘ دھرنے کے دنوں میں ان کے کئی ورکرز نے جان کی قربانی بھی دی‘ کئی گھر ایک نئے دن کی آس میں اجڑے‘ وہ سب دراصل پنجاب کے ان تین خاندانوں کے لیے قربانی دے رہے تھے جنہوں نے ان بیالیس ماہ میں خوب ہاتھ مارا‘ جس کی تصدیق کوئی اور نہیں تحریک انصاف کے علیم خان خود کر رہے تھے جو سینئر وزیر رہے۔
اگر اس ملک میں تبدیلی آئی تھی تو وہ تونسہ کے بزدار‘ پاک پتن کے مانیکا اور گوجرانوالہ کے گجرخاندان کے لیے آئی۔ گوجرانوالہ کا خاندان تو دبئی اور امریکہ بھاگ گیا ہے۔ باقی دو نے ابھی فیصلہ کرنا ہے۔ ایک پوری نوجوان نسل تونسہ‘ پاک پتن اور گوجرانوالہ کے ان خاندانوں کو ارب پتی بنانے کے کام آئی۔ یہ خاندان سب تبدیلی کو کھا کر نکل گئے اور بے چارے پی ٹی آئی ورکرز سڑکوں اور سوشل میڈیا پر اپنی حکومت کے اپنے ہی ہاتھوں برطرف ہونے کا جشن منا رہے ہیں۔