اگر آپ نے یہ باتیں محض کتابوں میں پڑھ رکھی تھیں یا فلمیں دیکھی تھیں کہ انسان اقتدار اور پاور کے لیے کیسے اتائولا ہو جاتا ہے اور اپنے ہوں یا پرائے ان کا لہو بہانے سے بھی گریز نہیں کرتا تو آپ آج کا پاکستان دیکھ لیں۔ اَنا اور اقتدار کی اس جنگ‘ جس نے ملکی امن تک کو دائو پر لگا دیا ہے‘ کو دیکھ کر مجھے گوتم بدھ یاد آیا۔ وہ اپنے پاس آنے والے شہزادوں کو ایک کشکول دے کر گائوں گائوں بھیجتا کہ جائو بھیک مانگ کر لائو۔ گوتم بدھ کے نزدیک انسان کی دشمن اس کی اَنا ہے اور اَنا کو مطمئن کرنے کے لیے انسان اپنے جیسے انسانوں سے خود کو برتر اور اعلیٰ سمجھتا چلا آیا ہے۔ اپنی زبان‘ کلچر‘ علاقے کا غرور‘ خوبصورت ہونے کا غرور‘ رنگ و نسل کا غرور‘ قبیلے یا ذات کے برتر ہونے کا غرور۔ یہ سب تاریخ میں جنگوں کا سبب بنے۔ ہر دور میں لاکھوں لوگ اپنے غرور کی حفاظت کرتے مارے گئے۔ گوتم بدھ ان خوبصورت شہزادوں کا غرور توڑنے کیلئے انہیں گائوں گائوں بھیک منگواتا تھا‘ تاکہ وہ اپنے من کے اندر کی وحشی اَنا کو توڑیں۔ جب کسی سے مانگ کر کھائیں گے تو ان کے اندر انکساری پیدا ہو گی‘ وہ خود کو ایک عام انسان سمجھیں گے‘ بادشاہ یا شہزادہ نہیں۔ یہی حالت اس وقت پاکستان کی ہو رہی ہے‘ جہاں سب شہزادے اقتدار پر اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ان کی پہاڑ جیسی اَنا اجازت نہیں دیتی کہ کوئی اور ان کی کرسی پر بیٹھے۔ اقتدار کے لیے یہ ملک کا امن دائو پر لگا چکے ہیں۔ کوئی بھی ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔
میں ان چند لوگوں میں سے تھا جنہوں نے ہر ٹی وی شو میں کہا کہ عمران خان کو پانچ سال پورے کرنے دیں۔ قوم کو ان کا باقی کا ایک سال بھی بھگت لینے دیں‘ ایسی توبہ کریں گے کہ شاید برسوں تک خان صاحب دوبارہ حکومت میں نہ آ سکیں۔ جتنی بری گورننس ہو رہی تھی اور لوگوں کی چیخیں نکل رہی تھیں‘ ان حالات میں عمران خان اور ان کے حامی خود بہت پریشان تھے کہ ان کا کیا بنے گا۔ لیکن کیا کریں نواز شریف اور کچھ اہم حلقوں کو فکر پڑ گئی کہ اگر خان صاحب نومبر تک وزیر اعظم رہے تو ایک نئی تقرری ایسی ہو گی جس کی مدت کے دوران ہی 2023ء میں الیکشن ہوں گے اور وہ الیکشن عمران خان نے ہی جیت جانے ہیں‘ یوں وہ 2028ء تک وزیراعظم رہیں گے۔ یہ بات تو پی ٹی آئی کے وزیر دھڑلّے سے کہتے تھے کہ وہ دس سال کیلئے حکومت میں لائے گئے ہیں اور 2028ء تک کہیں نہیں جائیں گے۔ وجہ وہی نومبر والی تعیناتی تھی جس پر یہ سب حساب کتاب لگا کر بیٹھے تھے۔ اس لیے ایک نکتے پر ہی یہ اتحاد ہوا تھا کہ عمران خان کو نومبر تک نہیں چلنے دینا ورنہ نواز شریف کبھی پاکستان واپس نہیں لوٹ سکیںگے‘ نہ ہی شہباز شریف اور حمزہ مقدموں سے رہا ہوکر اعلیٰ عہدوں پر پہنچ سکیں گے۔ یوں نومبر کو ذہن میں رکھ کر جو پلاننگ کی گئی وہ اب گلے پڑ گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ نومبر میں عمران خان جو تقرر کرنا چاہتے تھے اس کا کوئی اور حل نکالا جا سکتا تھا‘ جیسے 2016ء میں ایک خفیہ ادارے کے سربراہ کو ہٹایا گیا تھا۔ کسی کو پتہ بھی نہیں چلا اور کام بھی ہوگیا۔ لیکن کیا کریں درمیان میں وہی اَنا حائل ہوگئی کہ خان کو جرأت کیسے ہوئی کہ ہمارا دیا ہوا نام مسترد کیا؟ یوں اَنا کا ایسا کھیل شروع ہوا جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اب سب گھوم رہے ہیں۔ سب اپنی اپنی اَنا کے غلام۔ ہر کسی کو پاور چاہیے‘ کوئی گھر نہیں جانا چاہتا چاہے پورا ملک جل جائے۔
میں نے کہیں سنا یا پڑھا تھا کہ یہ بے رحمانہ کھیل ہے اور اس میں کسی کیلئے رعایت نہیں ہوتی۔ لوگ تو بہن بھائیوں اور والدین تک کو قتل کراتے رہے ہیں‘ یہ تو ایک دوسرے کے سگے بھی نہیں۔ جس بے رحمی کا مظاہرہ سامنے آرہا ہے اس سے کہیں نہیں لگتا کہ ان لوگوں کو اس ملک اور یہاں کے شہریوں سے کچھ لینا دینا ہے۔ صبر شہباز شریف سے بھی نہ ہوسکا‘ صبر کرتے تو عمران خان نے سال چھ ماہ بعد مستقل فارغ ہو جانا تھا۔ صبر اب عمران خان سے بھی نہیں ہو رہا۔ وہ بھی ایک سال انتظار کرنے کو تیار نہیں کہ اگلے الیکشن میں وہ بڑے آرام سے واپس آسکتے ہیں‘ لیکن انہیں لگتا ہے کہ اگر نومبر میں وہ وزیراعظم ہاؤس دوبارہ نہ پہنچے اور اپنی مرضی کا تقرر نہ کیا تو شاید وہ عمر بھر وزیراعظم نہ بن پائیں‘ لہٰذا وہ بھی سب کچھ دائو پر لگانے پر تُل گئے ہیں۔
اب ان کے نزدیک ان کے سب مخالفین غدار بن چکے ہیں۔ وہ اپنے حامیوں کو کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ ان سے منحرف ہونے والوں کو سبق سکھائیں۔ یہ طے ہے کہ ان کی اَنا کو بڑی ٹھیس پہنچی ہے اور اب اسی اَنا کے چکر میں وہ نہ ملک کو دیکھ رہے ہیں نہ ملک کے اداروں کو اور نہ ہی بائیس کروڑ لوگوں کے مستقبل کو۔
سوال یہ ہے کہ اب یہ سب کچھ کہاں جا کر رکے گا؟ سب بہت جلدی میں ہیں اور یقین کریں جو نومبر تک کا انتظار نہیں کرنا چاہتے تھے وہ بھی جلدی میں ہیں اور جو اگلے سال تک الیکشن کا انتظار نہیں کرنا چاہتے وہ بھی بہت جلدی میں ہیں۔ عمران خان نے بائیس سال صبر کر لیا تھا لیکن اب بارہ ماہ ان سے صبر نہیں ہو رہا۔ اس کی دو تین بڑی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوںنے بائیس برس صبر کیا کیونکہ ان کا ایکسپوژر اس وقت نہیں تھا کہ وزیر اعظم بن کر بندہ کیا محسوس کرتا ہے‘ اس کی آن بان شان کیا ہوتی ہے یا بیالیس ماہ ہیلی کاپٹر پر سواری کیسے محسوس ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملکی تاریخ میں عمران خان نے جتنی طاقت انجوائے کی وہ کسی نے نہیں کی تھی۔ اقتدار سے نکلنے کے بعد یہی حشر شریف برادرز کا تھا جو اَب عمران خان کا ہے‘ وہ جب اقتدار سے نکلے یا نکالے گئے تو جیسے آج عمران خان پانی سے باہر مچھلی کی طرح تڑپ رہے ہیں شریف خاندان بھی ایسے ہی تھا جو چار چار گھروں کو کیمپ آفس ڈکلیئر کرکے برسوں سے عوام کی جیب سے کچن چلا رہا تھا۔
اتنے برسوں سے حکومتوں اور حکمرانوں کو قریب سے دیکھنے کے بعد مجھے اب کوئی شک نہیں کہ کسی کے دل میں اس ملک کی محبت نہیں‘ نہ ہی یہ عوام کے خیر خواہ ہیں۔ عمران خان اگر خیر خواہ ہوتے تو کبھی بزدار‘ مانیکا یا گوجرانوالہ کے گجر خاندان کو پنجاب پر مسلط نہ کرتے۔ بزدار کو لانا ان کا خود غرضانہ فیصلہ تھا جسے پورے پنجاب نے بھگتا‘ کرپشن اور لوٹ مار کے نئے ریکارڈ قائم کیے گئے۔ اسی طرح اگر نواز شریف کو عوام سے ہمدردی ہوتی تو وہ عمران کو پانچ سال پورے کرنے دیتے‘ لیکن بیچ میں نومبر آ گیا اور انہیں ملک و قوم سے زیادہ اپنی فکر پڑ گئی۔ شہباز شریف صاحب کو اگر ملک و قوم کی فکر ہوتی یا اس کے امیج کی تو وہ کبھی ضمانت پر ہوتے ہوئے وزیر اعظم نہ بنتے اور اگر بن بھی جاتے تو اپنے بیٹے کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ نہ بنواتے۔ ساری کہانی اپنے بندے کی ہے‘ عمران خان کا اپنا بندہ عثمان بزدار تھا‘ شہباز کا اپنا بندہ ان کا بیٹا ہے۔ سب پاور اور پیسے کا کھیل ہے اور دونوں طرف سے عوام عبداللہ کی طرح دیوانے ہوئے پھرتے ہیں‘ جنہیں دونوں پارٹیاں اور ان کے لیڈ ر لوٹ کر کھاتے ہیں اور انہی سے زندہ باد کے نعرے بھی لگواتے ہیں۔ یہ اب عوام کے بچوں کو سڑکوں پر مروائیں گے‘ اگر حالات خراب ہوئے تو۔ ان حکمرانوں کا کیا جاتا ہے جن کے اپنے بچے بیرونِ ملک ہیں۔ ان کے بچوں کو تو خراش تک نہیں آنی‘ مریں گے عوام کے بچے ‘سڑکوں پر‘ مئی کے آخر میں لانگ مارچ میں‘ اگر خدانخواستہ اس ملک میں خون خرابے کا آغاز ہو گیا۔