حالات تیزی سے خراب ہورہے ہیں۔ لگتا ہے کھیل ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے۔ لندن سے اچھی خبریں نہیں آرہیں تو اسلام آباد میں بنی گالہ سے بھی۔
عمران خان آج کل بنی گالہ میں اپنے فین بچوں سے مل رہے ہیں جن کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر پھیلائی جارہی ہیں۔ مریم نواز کی بھی ایسی ویڈیوز سامنے آرہی ہیں جس میں وہ بچوں سے گپ شپ کرتے دیکھی جاسکتی ہیں۔ عمران خان نے تو ایک بچے کی شرٹ پر اپنے دستخط بھی کر دیئے جس کے بعد اس شرٹ کی قیمت لگنا شروع ہوگئی ہے۔ ایبٹ آباد کے اس بچے سے ملتے دیکھ کر یاد آیا کہ عمران خان کو اپنے بچوں سے ملے تقریباً چار سال ہونے کو ہیں۔ ان کی اپنے بچوں سے ملاقات آخری دفعہ اسلام آباد میں سولہ ستمبر دو ہزار اٹھارہ کو ہوئی تھی جب انہیں وزیراعظم بنے ابھی ایک ماہ ہوا تھا۔ انہوں نے بچوں کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں نہیں بلایا تھا۔ اس دن کے بعد نہ عمران خان کبھی لندن گئے‘ نہ ہی بچوں نے پاکستان کا دورہ کیا کہ باپ سے مل سکیں۔ میرا خیال ہے عمران خان حالیہ تاریخ میں شاید پہلے پاکستانی وزیر اعظم ہیں جنہوں نے برطانیہ کا سرکاری دورہ نہیں کیا۔ مشہور افسانہ نگار نیلم احمد بشیر نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا تھا: عمران خان کوچاہیے‘ کچھ دن چھٹی لے کر لندن میں اپنے بچوں کے ساتھ گزار کر آئیں‘ بہتر محسوس کریں گے۔ چار سال بڑا عرصہ ہوتا ہے جب آپ اپنے بچوں سے نہیں ملتے؛ تاہم عمران خان کا کہنا ہے کہ ان کیلئے اپنا ملک اور اس کے نوجوان اپنے بچوں سے اہم ہیں۔ وہ ملک کی خاطر قربانی دے رہے ہیں لہٰذا دو تین دن نکال کر لندن بھی نہیں جا سکتے کہ کہیں ان دو تین دنوں میں ملک کو کچھ ہو نہ جائے۔ یوں پاکستان پر وہ پہرہ دے کر بیٹھے ہیں اور لندن نہیں گئے۔ ان کے ہمدردوں کا کہنا ہے کہ دراصل دو سال تو کورونا کی وجہ سے عالمی سطح پر سب کچھ بند تھا‘ لہٰذا وہ کیسے لندن جاتے؟ بالکل ٹھیک بات‘ لیکن ذہن میں رکھیں کہ اس دوران وہ امریکہ، دوبئی، قطر، سعودی عرب، روس، ایران، ترکی اور دیگر درجن بھر ملکوں کا دورہ کر آئے تھے۔ سعودی عرب تو چار پانچ دفعہ گئے لیکن اگر نہیں گئے تو لندن نہیں گئے‘ جہاں ان کے اپنے بچے رہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ہم غلط سوچ رہے ہوں کہ انہیں کسی نے کسی وجہ سے برطانیہ جانے اور بچوں کو ملنے سے منع کر دیا ہوگا۔ کوئی اہم وجہ ہوگی۔
لیکن یہ بھی تو ممکن ہے کہ خان صاحب کے ذہن میں نواز شریف صاحب کے لندن کے وہ بائیس دورے ہوں جو انہوں نے وزیراعظم کی حیثیت سے کیے تھے۔ ان دوروں پر کروڑوں روپے عوام کی جیب سے خرچ ہوئے تھے بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ انہوں نے تو ایک موقع پر اپنے علاج کیلئے تیس‘ چالیس دن تک وزیر اعظم کیمپ آفس لندن کو ہی بنا لیا تھا۔ ان کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد سب کچھ اٹھا کر لندن لے گئے تھے اور کروڑوں روپے کا خرچہ ہوا تھا کیونکہ ماربل آرچ کے علاقے میں‘ مہنگے ہوٹل میں کمرے بک کرا کے وہاں سے دفتر چلایا گیا تھا اور افسران اور سٹاف کیلئے رہائش الگ رکھی گئی تھی‘ بلکہ اس پر بھی بس نہیں کی گئی تھی اور کئی دن تک پی آئی اے کا خصوصی جہاز ہیتھرو ایئرپورٹ پر کھڑا رہا تھا‘ جس کا کرایہ الگ سے جاتا رہا۔ جب نواز شریف نے علاج کے بعد پاکستان لوٹنا تھا تو باقاعدہ خصوصی طیارہ بھیجا گیا جس پر کروڑوں کا بل الگ سے بنا۔
اب بھی وہی کچھ ہورہا ہے کہ شہباز شریف لندن پہنچے اور اپنے ساتھ وزیروں کی ایک فوج بھی لے گئے۔ اس وقت جو ملک کی حالت ہے‘ ایسے میں ملک کے وزیراعظم اور ان کی ٹیم کا ملک سے باہر ہونا لوگوں کیلئے اضطراب کا باعث بن رہا ہے۔ ڈالر جس طرح ہاتھ سے نکل گیا ہے وہ الگ سے سب کو پریشان کررہا ہے۔ دوسری طرف عمران خان نے ٹمپریچر ہائی کیا ہوا ہے اور کوئی دن نہیں جاتا جب وہ کوئی بم شیل ڈراپ نہ کریں۔ ہر نئے دن‘ ان کا نیا بیان اور نئی تقریر ہوتی ہے‘ جو مقتدر حلقوں کیلئے مزید پریشانی لاتی ہے۔ انہوں نے جس طرح میر جعفر اور میر صادق والی گردان لوگوں کو سمجھا دی ہے‘ وہ گلی گلی زیرِ بحث ہے۔
خان صاحب نے جمعہ کے روز بنی گالہ میں ٹی وی اینکرز کو بلا کر جو باتیں کیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ معاملات کتنے بگڑ گئے ہیں۔ عمران خان وہ باتیں کر رہے ہیں جو ان کیلئے ہضم کرنا مشکل ہوگا‘ جو خان کو پاور میں لائے تھے۔ عمران خان اب یہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ انہیں استعمال کرکے باہر پھینک دیا گیا اور وہی پرانے لوگ آئے ہیں جن کی وجہ سے ملک کی یہ حالت ہوئی تھی۔ عمران خان سہیل وڑائچ صاحب کے اس انکشاف کے بعد پہلے بھی خوش نہیں تھے جو انہوں نے اپنے کالم میں دو سال پہلے شہباز شریف سے ملاقات بعد کیا تھا کہ 2018 کے الیکشن سے پہلے ان کی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل ہوگئی تھی کہ الیکشن بعد وزیراعظم بنیں گے۔ ان کے تو وزیروں کے نام بھی کلیئر ہوگئے تھے‘ لیکن نواز شریف نہ مانے تھے۔ اس پر یقینا خان صاحب کو شدید دھچکا لگا ہوگا کہ وہ تو یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ وہ اکیلے چوائس تھے لیکن انہیں تب پتہ چلا تھا کہ شہباز شریف بھی رابطے میں تھے۔ وہ پہلی بڑی دراڑ تھی۔ پھر کئی خفیہ ملاقاتوں کی خبریں سامنے آنا شروع ہوئیں تو وزیروں نے خود ہی کہنا شروع کر دیا کہ فلاں فلاں اپوزیشن لیڈر کسی بڑی شخصیت سے ملاقات کر آئے ہیں۔
عمران خان اپنی غلطی کبھی نہیں مانتے اور مانیں گے وہ اب بھی نہیں کہ جب ملازمت میں توسیع کا معاملہ اٹھا تھا تو اس وقت بھی نواز شریف اور زرداری سے رابطے کیے گئے تھے تاکہ ان کا اسمبلی میں ووٹ لیا جائے۔ جب آپ کسی کو جیل میں بیٹھے قیدی پاس ووٹ مانگنے بھیجیں گے تو قیدی یقینا اپنی رہائی یا رعایت مانگے گا۔ یوں وہاں سے نواز لیگ دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونا شروع ہوئی۔
اب عمران خان اینکرز کو بتاتے ہیں کہ عسکری قیادت عثمان بزدار کو ہٹوانا چاہتی تھی۔ درست بات ہے لیکن خود خان صاحب بھی تو دو تین یقین دہانیاں کرا چکے تھے کہ وہ انہیں ہٹا دیں گے۔ بزدار والی ضد نے ان کے تعلقات خراب کیے اور یوں خان نے دراصل شہباز شریف اور نواز شریف کا راستہ خود اس چابی سے کھولا جو انہیں اقتدار میں لے آیا ہے۔ عمران خان مانیں یا نہ مانیں لیکن انہوں نے شہباز شریف کو وزیر اعظم بنوانے کے لیے بڑی محنت کی ہے‘ جیسے کبھی نواز شریف نے عمران خان کو وزیر اعظم بنوانے میں مدد دی تھی۔ اب لاکھ سارا ملبہ امریکی سازش پر ڈالتے رہیں لیکن انہیں اندر سے سب پتا ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کی وجہ سے وزیر اعظم ہائوس سے سڑک تک پہنچے ہیں‘ سب کچھ اندرونی غلطیوں کی وجہ سے ہوا ہے اور یہ سب کچھ ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ ان کے حالات کیسے بگڑے۔
لیکن اب خطرناک بات یہ ہو رہی ہے کہ جہاں خان صاحب اپنے مخالفوں کو غدار اور میر جعفر میر صادق کی گالی دے رہے ہیں وہیں انہوں نے اینکرز کو یہ بھی کہا کہ جس طرح چوروں کو حکومت دی گئی ہے‘ اس سے بہتر تھا پاکستان کو ایٹم بم مار دیا جاتا۔ اس بیان پر سب حیران ہیں کہ خان صاحب ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں۔ ایٹم بم مارنے والی بات تو پاکستان کے دشمن بھی نہیں کرتے؛ تاہم ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ خان نے ایٹم بم والی بات اس طرح نہیں کی بلکہ استعارے کے طور پر کی تھی اور غلط سمجھا گیا ہے۔ مان لیا جائے کہ انہوں نے استعارے کے طور پر بات کی لیکن پھر بھی یہ ایک خطرناک ذہنی رجحان ہے۔
مطلب عمران خان اگر وزیر اعظم نہیں ہیں تو پھر فقط تباہی و بربادی ہے۔ عمران خان کے ایٹم بم والے جملے سے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹر یاد آیا جو ایک نوجوان نے اٹھایا ہوا تھا: خان توں آخری ایں، تیڈے بعد قیامت اے۔