عمران خان اور ان کے حامیوں کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ صحافی دوست حسن ایوب خان نے اچھا کمنٹ کیا ہے کہ سمجھدار سیاستدان لانگ مارچ یا دھرنے آخری آپشن کے طور پر ا ستعمال کرتے ہیں لیکن خان صاحب نے یہ ہتھیار پہلے ہی استعمال کر کے خود کو اور فالورز کو تھکا دیا ہے۔حسن ایوب درست کہتا ہے ‘اس سے پہلے کئی سیاسی حربے ہوتے ہیں جو حکومتوں کے خلاف استعمال کیے جاتے ہیں اور حکومتوں کو تھکا کر آخری ضرب لگائی جاتی ہے‘ لیکن وہ ضرب پہلے لگا دی گئی۔ لگتا ہے ضرب حکومت کو نہیںخان صاحب اور ان کے حامیوں کو لگی ہے اور بڑے زور کی لگی ہے۔
لگتا ہے عمران خان بہت جلدی میں تھے۔ انہیں لگتا ہے کہ ان کے پاس وقت کم ہے اور فوراً سب کچھ ہو جائے۔یاد پڑتا ہے کہ میرا یہ رویہ اُس وقت تھا جب میں کالج سے یونیورسٹی اور پھر عملی زندگی میں داخل ہوا۔ کوئی بھی ایشو ہوتا تو میں بے چین ہوجاتا کہ بس ابھی ہو جائے۔ نعیم بھائی میرے مقابلے میں بڑے ٹھنڈے رہتے اور کہتے :چھوڑو یار جو مسئلہ پیدا ہوا ہے‘ اسے خود کو حل کرنے کا وقت دو۔ چلو کینٹین پر چائے پیتے ہیں۔ وہ بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال کی کینٹین پر پُرسکون‘ چائے اور سگریٹ پیتے اور ادب پر گفتگو ہوتی لیکن میں اسی مسئلے کی ٹینشن لے کر بیٹھا ہوتا۔آج تیس برس بعد میں خود کو نعیم بھائی کی جگہ رکھنا شروع ہوگیا ہوں۔ اب میں بہت سے مسائل کو سر پر سوار نہیں کرتا۔ اب مجھے ان کے پُرسکون ہونے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ ان برسوں نے مجھے سکھا دیا ہے کہ ہر وقت کی جلدی بھی اچھی نہیں ہوتی۔ بعض مسئلے وقت لیتے ہیں۔ جب وہ پیدا ہو جائیں تو انہیں کچھ وقفہ دیں۔ کئی مسائل کو زندگی موت کا مسئلہ بھی بنا کر دیکھا لیکن رزلٹ پھر بھی اپنے مقررہ وقت پر نکلا۔ دن رات ایک کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوشش نہ کرو اور گھر بیٹھ جائو۔ کوشش ضرور کرو لیکن اسے زندگی موت کا مسئلہ نہ بناؤ۔ ہر انسان روزانہ کئی مسائل کا سامنا کرتا ہے اور دو دن بعد اسے یاد بھی نہیں ہوتا کہ وہ کل پرسوں کن مسائل میں گھرا تھا۔اب میں خود کو مسائل میں گھرا پا کر panic نہیں ہوتا۔ آرام سے چائے وغیرہ پی یا لمبی واک پر نکل گیا‘ رات کو کائو بوائے فلم دیکھ لی اور سونے سے پہلے کتاب کے دو تین چیپٹر پڑھ لیے۔ کچھ دن بعد مسئلے کا کوئی حل نکل ہی آتا ہے۔ یہ بھی عجیب سائیکل ہے جب تک پچھلے مسائل حل نہ ہوں نئے پیدا نہیں ہوں گے۔ یہ سائیکل مرتے دم تک چلتا رہے گا۔
عمران خان صاحب کی عمر اب ستر برس ہورہی ہے۔ اس عمر میں تو انہیں اس بات کا زیادہ پتا ہونا چاہیے کہ زندگی میں Panic decision سے بچنا کتنا اہم ہے۔ سیاستدان تو ویسے بھی لمبی دوڑ کے گھوڑے ہوتے ہیں۔ جو سیاستدان اچھے وقت کا انتظار نہیں کرسکتا وہ کبھی اپنے مقام پر نہیں پہنچے گا۔ ہندوستانی تاریخ میں ایسا کردار دیکھنا ہو تو بادشاہ بلبن کو دیکھ لیں کہ کتنے برس اس نے انتظار کیا۔ پاک پتن میں بابا فریدؒ گنج شکر کے پاس دعا کیلئے گیا تو انہوں نے دیکھ کر کہا ‘ نوجوان تم ہندوستان کا تاج سر پر رکھنے کی خواہش لے کر آئے ہو‘ جائو صدقہ خیرات دیا کرو اور انتظار کرو۔بلبن نے انتظار کیا اور ایک دن دِلّی کا بادشاہ بن گیا۔
نواز شریف‘ زرداری‘ گیلانی شہباز شریف جیل میں رہے اور جلاوطنی بھی بھگتی۔ انتظار کیا کہ ہمارا وقت بھی آئے گا۔ اسی گیلانی کو جنرل مشرف نے سات سال نیب کی قید دلوائی‘ زرداری گیارہ برس جیل میں رہے۔ نواز شریف جلاوطن رہے‘ لیکن لوٹ کر پھر وزیراعظم بنے۔باقی چھوڑیں مہاتیر محمد بانوے برس کی عمر میں ملائیشیا کے وزیراعظم بن گئے‘ یوں دنیا بھر کے سیاستدانوں کو نئی امید دے گئے کہ ہمت نہ ہارو‘ نہ ایک دوسرے کے گلے کاٹو۔ اگر آپ صحت مند رہے تو نوے برس تک بھی امید کی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد تو عمران خان کے اندر زیادہ سکون اور امید جاگنی چاہیے۔ انہیں اپنے اندر اس جوش کو کنٹرول کرنے کی ضرورت تھی۔دنیا ہماری مرضی سے نہیں چلتی مگر خان صاحب کی تقریروں سے لگتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ہی چلانا چاہتے ہیں۔خود خان صاحب نے بائیس برس محنت کی اور انتظار کیا لیکن اب انہیں لگتا ہے کہ اب نہیں تو کبھی نہیں۔اس جلدی کا نقصان یہ ہوا کہ وہ معاملات کو سیاسی رکھنے کے بجائے ذاتی دشمنی تک لے گئے۔ اسی سوچ کی وجہ سے وہ وزیراعظم کے عہدے پر برقرار نہ رہ سکے اور اب وہ اپوزیشن بھی اس انداز میں کررہے ہیں جس میں ان کے دشمنوں سے زیادہ خود انہیں یا ان کے حامیوں کو نقصان ہورہا ہے۔
میجر عامر کہتے ہیں کہ جس محنت سے نواز شریف نے عمران خان کو کرسی پر بٹھایا اور خود جا کر اڈیالہ جیل میں بیٹھ گئے‘ وہی کام عمران خان نے کیا۔اس غیرسیاسی سوچ اور رویے کی وجہ سے خان صاحب شریف خاندان کو ان سے چھینی ہوئی کرسی واپس کر آئے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ اگر نئے الیکشن فوراً نہیں ہوتے تو عمران خان کیا کریں گے؟ کیونکہ وہ پہلا بڑا حملہ کرچکے‘ ان کا وار خطا گیا۔ حکومت مزید مضبوط ہوگئی ہے بلکہ شاید اعتماد بھی مل گیا ہے جس کی اسے سخت ضرورت تھی۔ عمران خان نے اپنی غلطی سے حکومت کو اپنے پائوں پر کھڑا کر دیا ہے۔دوسری طرف آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن کی اسلام آباد میں ملاقاتیں ہورہی ہیں۔ اصل حکومت وہ چلا رہے ہیں بلکہ وہی فیصلے کر رہے ہیں۔ مریم نواز کی سرگودھا ریلی میں نئے الیکشن کی بات پر نواز شریف کو شکایت لگانی ہو یا اسے ڈٹ جانے کا سبق دینا ہو‘ وہ آصف زرداری کر رہے ہیں۔ اب زرداری اور مولانا سوچ رہے ہیں کہ ٹھیک ہے عمران خان الیکشن مانگ رہا ہے‘ اسے دے دیں۔ تحریک انصاف کے ایم این ایز کے استعفے منظور کر کے ان سیٹوں پر نئے ضمنی الیکشن کرا دیں۔ عمران خان کے پاس دو تین آپشنز ہوں گے۔ وہ ان ضمنی الیکشنز کا بائیکاٹ کریں جیسے بینظیر بھٹو اور نوابزداہ نصراللہ نے 1985ء میں کیا تھا اور عمر بھر پچھتائے۔ یا وہ ان ضمنی الیکشن میں حصہ لیں اور ہوسکتا ہے وہ ساری سیٹیں جیت جائیں یا ہوسکتا ہے بیس تیس سیٹیں نواز لیگ بھی جیت جائے۔
عمران خان اگر سب سیٹیں بھی جیت جائیں تو بھی حکومت کہیں نہیں جائے گی۔ ضمنی الیکشن کے تین ماہ تو عمران خان ان حلقوں میں پھرتے رہیں گے اور حکومت آرام سے رہے گی۔ اس پر لوگ بھی کہیں گے کہ اگر الیکشن لڑ کر دوبارہ ہاؤس میں آنا تھا تو پھر اسمبلی سے مستعفی ہونے کی کیا ضرورت تھی؟اگر عمران خان نے ضمنی الیکشن نہ لڑا تو پھر ان کا وہی حشر ہوگا جو ایم آر ڈی پارٹیوں بشمول پی پی پی کا ضیادور میں ہوا تھا۔ بائیکاٹ کے بعد ان حلقوں میں کونسلر ٹائپ لوگ آزاد لڑے اور اسمبلی میں جا پہنچے اور پیپلز پارٹی کے حلقے ان کے ہاتھ سے ایسے نکلے کہ آج تک واپس نہیں ملے۔تو کیا عمران خان اپنی جیتی ہوئی سیٹیں نئے لوگوں کے حوالے کرنے کو تیار ہیں؟
زرداری اور مولانا کا خیال ہے کہ ان ضمنی الیکشنز سے بیس تیس سیٹیں جیت کر وہ اتحادیوں اورمقتدرہ کے دباؤسے بھی بچ سکتے ہیں اور ان کی حکومت مدت پوری کرے گی۔یوں زرداری اور مولانا عمران خان کے ساتھ وہی کرنے جارہے ہیں جو ضیا نے بینظیر بھٹو کے ساتھ کیا تھا۔ عمران خان جو الیکشن مانگ رہے ہیں وہ انہیں شاید جنرل نہیں لیکن ضمنی الیکشن کی شکل میں مل جائے۔ سوال یہ ہے کہ وہ اس الیکشن کے ٹریپ سے خود کو کیسے بچائیں گے؟وہ لڑتے ہیں تو بھی ان کا مذاق بنے گا‘ دشمن جینا حرام کر دیں گے‘ وہ ضمنی الیکشن جیت جائیں تو بھی حکومت کی اکثریت کم نہیں ہوگی ‘لیکن اگر کچھ سیٹیں ہار گئے تو بدنامی الگ ‘اور اگر نہیں لڑتے تو پی ٹی آئی کے حلقوں پر دوسرے لوگ قابض ہو جائیں گے۔
زرداری اور مولانا کپتان کیلئے نیا جال بچھائے بیٹھے ہیں۔ اب کپتان کیا کریں گے؟ ایک طرف کنواں ہے اور دوسری طرف کھائی۔