ایک دوست ملنے آگیا۔ پوچھا: کیا ہورہا ہے؟میں نے کہا: خدا کا شکر ادا ہورہا ہے کہ میں سیاستدان نہیں بنا۔انسانوں پر حکومت کرنے کا شوق نہیں چرایا نہ ان کی زندگیوں کو کنٹرول کرنے کا جنون پالا‘ نہ خود کو خبطِ عظمت کا شکار پایا کہ میں انسانوں کی زندگی بدل سکتا ہوں بس وہ مجھے ذرا ووٹ دے کر کوئی بڑا عہدہ دے دیں۔میرا دوست بولا: تم سے بڑا بیوقوف کوئی نہ ہو گا۔ ذرا سوچو سیاست کتنا پرافٹ ایبل دھندا ہے‘ بڑا دفتر‘ بڑی گاڑی‘ مفت کے ہوائی اور زمینی سفر‘ مفت دوائیاں‘ الاؤنسز‘ کروڑوں اربوں کے ترقیاتی بجٹ اور اپنے ضلع میں مرضی کے ڈی پی او اور ڈپٹی کمشنر‘ ٹھیکیدار بھی مرضی کے۔ ٹی وی اینکرز اور کالم نگار دن رات آپ کو فرشتہ ثابت کریں گے‘ گن گائیں گے۔ محنت لوگوں نے کرنی ہے‘ صبح سے شام تک کام کرکے جو پیسے کمانے ہیں وہ آپ نے ٹیکس کے نام پر ان کی جیب سے نکلوا لینے ہیں۔ اور تو اور‘ پانی بھی لوگ مفت نہیں پی سکیں گے‘ جہاں پانی کی بوتل خریدیں گے وہیں ٹیکس بھی دیں گے۔ عوام کوئی بھی ایسی چیز نہیں خرید پائیں گے جس میں تمہارا حصہ نہ ہو۔ تم ہیلی کاپٹر سے نیچے نہیں اُترو گے‘ بیس بیس گاڑیوں کا پروٹوکول پیچھے پھرتا رہے گا۔ عوام بے شک پٹرول دو سو روپے فی لٹر خریدیں لیکن تمہیں مفت ملے گا۔ بجلی‘ گیس‘ فون سب کچھ فری۔ سب کے پیسے لگتے ہیں لیکن تمہیں سب فری ملے گا۔اس کا بل عوام کے بلوں میں ڈالا جائے گا۔ تمہارے فیول کا بل بھی عوام کے ٹیکسوں سے ادا ہو گا۔ تمہارا رہن سہن‘ سونا جاگنا‘ گاڑی‘ پروٹوکول اور رہائش‘ غرض سب کچھ عوام کے ذمے۔ رشتہ دار یار دوست سب کی عیاشیاں بھی عوام کے پیسوں سے چل رہی ہوں گی۔کروڑوں‘ اربوں کے ترقیاتی فنڈ سے اپنے بھائی یا بھتیجے کو ٹھیکیدار بنوا کر سارے ٹھیکے انہی کو دلانے ہیں‘ جیسے سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے ایف نائن پارک میں واقع ایک کنڑیکٹ بھائی کو لے کر دیا اور اب تک کروڑوں روپے کا بل تک نہیں دیا۔ کر لو جو کرنا ہے۔ اسلام آباد میں پچھلے سال پی ٹی آئی کے ایک بڑے بندے کو خوش کرنے کیلئے اچھی خاصی سڑکیں دوبارہ اکھاڑ کر ٹھیکہ دیا گیا اور بتایا گیا ہے کہ سوا ارب روپے کی ڈیل ماری گئی۔ جو سڑکیں پہلے بنی ہوئی تھیں ان پر دوبارہ بجری ڈال کر پیسے کھرے کر لیے گئے۔
اس کے علاوہ اور فوائد دیکھیں کہ اگر تمہیں کسی ملک سے تحائف ملیں تو وہ بھی تم رکھ سکتے ہو۔ تم نے خود ہی توشہ خانہ کے قوانین بنانے ہیں کہ یہ تحائف میں گھر لے جاسکتا ہوں۔ کل لاگت کا دس فیصد ( پھر بیس فیصد کیا گیا) ادا کر کے تم دبئی میں چودہ کروڑ میں بیچ بھی سکتے ہو جیسے عمران خان نے کیا۔ یا پھر نواز شریف کی طرح ابن بطوطہ بن کر پوری دنیا میںعوام کے پیسوں پر گھوم پھر سکتے ہو۔ ان ایک سو دوروں میں بیس دورے لندن کے تھے۔ ان ممالک کے دوروں میں جو تحائف ملے ان کو واپسی پر نواز شریف کی طرح قومی راز ڈکلیئر کر کے قوم سے چھپا کر گھر لے جاسکتے ہو۔ شوکت عزیز بھی بارہ سو تحائف گھر لے گئے تھے۔ تیس کروڑ روپے کے تحائف وہ دو تین کروڑ روپے دے کر لے گئے۔ مشرف بھی سینکڑوں تحائف لے گئے۔
تم اپنے بچوں کو بھی کاروبارِ حکومت میں سیٹ کرسکتے ہو۔ وہی بچے ٹرانسفر پوسٹنگ کرائیں گے اور مال بنائیں گے۔ وہی ''مقصود چپڑاسی‘‘ کے نام پر اربوں روپوں کی ٹی ٹی بھی لگوائیں گے‘ گھریلو ملازمین کے نام پر اکاؤنٹ کھلوا کر منی لانڈرنگ کریں گے۔ اگر کوئی ہاتھ ڈالنے لگے گا تو لندن فرار ہو جائیں گے۔ جب باپ وزیراعظم بنے گا تو اسے ملنے سعودی عرب بھی پہنچ جائیں گے اور پاکستان کے مفرور ملزم ہوتے ہوئے اعلیٰ سعودی حکام کے ساتھ اجلاسوں اور ڈنر میں بھی شریک ہوں گے۔
ایک اور کام بھی ہوسکتا ہے کہ زرداری کی طرح چالیس ارب روپے فیک اکاؤنٹس میں بھی ڈلوا سکتے ہو۔ کبھی فالودہ والا تو کبھی پاپڑ‘ ریڑھی والے کے اکاؤنٹس میں ایک دن اربوں ڈال کر دوسرے دن کسی اور اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہوتے رہیں گے۔ کسی دن کوئی پارٹی کیش جمع کرائے گی تو کوئی چیک۔ سب اکاؤنٹس کسی اور کے نام پر ہوں گے۔ بے چاروں کو یہ بھی علم نہ ہوگا کہ ان کے نام پر اکاؤنٹ کھل چکا‘ اربوں روپوں کی ٹرانزیکشن بھی ہوچکیں‘ وہ سڑکوں پر قلفیاں بیچتے پھر رہے ہوں گے۔ ایسا مذاق تقدیر کسی کے ساتھ کرسکتی ہے کہ اربوں روپے بینک میں پڑے ہوں اور آپ سڑکوں پر جوتے چٹخا رہے ہوں۔ اگر پکڑے جائیں تو زرداری کی طرح انٹرویو میں کہہ دینا کہ ہاں! میں نے یہ سب کچھ کیا ہے‘ ثابت کر کے دکھائو۔ اب کون ثابت کرے؟
ایک اور فائدہ دیکھو آپ کو الیکشن سے پہلے کوئی جانتا تک نہیں لیکن آپ بزدار کی طرح سیدھے وزیراعلیٰ لگ جاتے ہیں۔ آپ کے پاس ایک گھر تھا اور اب چار گھروں پر پولیس لگا دی جائے گی۔ ایک گھر تونسہ دوسرا ڈیرہ غازی خان تیسر ملتان اورچوتھا لاہور جہاں سینکڑوں سپاہی ڈیوٹی دیں گے۔ آپ کے دورِ حکومت میں ہر افسر بولی دے گا۔ کوئی سیٹ کسی کو نہیں ملے گی جب تک اعلیٰ حکام کی چونچ گیلی نہیں کی جائے گی۔ صرف تونسہ کے بزدار کی نہیں بلکہ پاک پتن کے مانیکا‘ گوجرانوالہ کے گجر کی بھی قسمت بدل جائے گی۔یا آپ شریف خاندان کی طرح چار چار گھروں کو کیمپ آفس ڈکلیئر کر کے عوام کی جیب سے کچن چلانا‘ سب سرکاری گاڑیاں اور سینکڑوں محافظ آپ کے آگے پیچھے‘ رائے ونڈ کی طرح گھر کی باڑ اور سڑک بھی عوامی پیسوں سے بنے گی۔ اگر کوئی آپ سے پوچھ لے کہ لندن کے فلیٹس کہاں سے خریدے تو نواز شریف کی طرح کہہ دینا کہ آپ کون ہوتے ہیں پوچھنے والے یا پھر عمران خان کی طرح کا جواب دیا جاسکتا ہے کہ میرے تحائف میری مرضی۔
اگر معاملہ سیریس ہو جائے اور آپ کو لگے کہ آپ کی حکومت جانے والی ہے اور کہیں اگلی حکومت احتساب شروع نہ کردے تو آپ ٹی وی انٹرویوز میں پہلے ہی رولا ڈال دینا کہ آپ کی بیگم‘ بیگم کی سہیلی اور آپ کے اپنے خلاف کردار کشی مہم شروع ہونے والی ہے اور بیگم کی سہیلی کو پاکستان سے باہر بھجوا دو کہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ ایک اور کام بھی کرنا ہے اس ملک میں جہاں ننانوے فیصد مسلمان رہتے ہیں سب کو لگتا ہے کہ ان کا اسلام ہر وقت خطرے میں ہے‘ ان سب کو اپنی باتوں سے (کردار سے نہیں) اپنے اچھے مسلمان ہونے کا یقین دلاتے رہنا‘وہی قاسم سوری والا ''اسلامی ٹچ‘‘۔ یہاں لوگ ''اسلامی ٹچ‘‘ سے بڑے خوش رہتے ہیں۔ آپ کتنے بڑے ڈاکے کیوں نہ مار لیں بس باتوں میں ''اسلامی ٹچ‘‘ دیتے رہیں تو یہ آپ پر جان قربان کریں گے۔
ایک اور بات یاد رکھو‘ اس قوم کو اپنی مرضی کا لیٹرا چاہیے لہٰذا یہ قوم خود آپ کا دفاع کرے گی۔ آپ پر مقدمہ نہیں بننے دے گی۔ آپ نے جتنے بڑے فراڈ کیے ہوں انہیں انتقامی کارروائی قرار دے گی۔ آپ کو فرشتہ ثابت کرے گی۔ سارا دن سوشل میڈیا پر آپ کے مخالفین اور ناقدین کو گالیاں دے گی۔آپ کی خاطر یہ اپنے گھر میں رشتہ داروں اور دوستوں تک سے لڑ جائیں گے۔ مزے کی بات ہے آپ سیاست میں آئیں گے یہ کہہ کر کہ میں آپ لوگوں کا تحفظ کروں گا لیکن یہاں الٹا یہ لوگ ہی آپ کا تحفظ کر رہے ہوں گے اور بہت سے تو جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
میں حیرانی سے بیٹھا سن رہا تھا۔ میں نے پوچھا واقعی ایسا ممکن ہے؟وہ بولا: ہمت کریں اس سے زیادہ خوبصورت اور سخی‘ انسان دوست قوم کہاں ملے گی۔دوست چلا گیا ہے لیکن کافی دیر سے بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ سیاست کا دھندا برا نہیں اور سیانے کہتے ہیں کہ دھندے سے بڑا دھرم کوئی نہیں۔سوچا آپ سے ہی پوچھ لوں۔ آپ سب سیانے لوگ کیا مشورہ دیتے ہیں؟