ہر گزرتے دن کے ساتھ جہاں مون سون کی بارشوں میں شدت آتی جا رہی ہے وہیں پاکستان کی سیاست میں تلخی بھی بڑھ رہی ہے۔ عمران خان نے 22برس انتظار اس لیے کر لیا تھا کیونکہ تب انہیں پتا نہیں تھا کہ وزیراعظم بن کر انسان کیا سے کیا بن جاتا ہے۔ اب ان سے چند روز بھی صبر نہیں ہو رہا حالانکہ سیاست اور سیاستدان لمبی دوڑ کے گھوڑے ہوتے ہیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف اس کی کلاسیک مثال ہیں کہ دس دس سال جلاوطنی کاٹ کر واپس آئے اور پھر حکمران بن گئے۔
خیر وزیراعظم کی کرسی ایسی ہے کہ آپ اس پر اپنا تن‘ من‘ دھن سب کچھ قربان کرنے پر تل جاتے ہیں۔ ہر بندہ آپ کو یس مسٹر پرائم منسٹر کہتا ہے۔ بے شک آپ کے احکامات پر من و عن عمل نہ ہو لیکن کوئی افسر آپ کو منہ پرمنع نہیں کرے گا۔ سارے آپ کی آنکھ کی ایک جنبش کے منتظر ہوتے ہیں‘ جس سے اُن کی قسمت کے فیصلے ہوتے ہیں۔ لوگ وزیراعظم کو خوش کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوتے ہیں۔ آپ جب چاہیں ہیلی کاپٹر پر چڑھ جائیں۔ ہیلی کاپٹر سے اترے تو کالی گاڑیوں کی لمبی قطار لگی ہوتی ہے اور ساتھ میں پروٹوکول الگ۔آپ کی تقریروں اور باتوں کو براہِ راست پوری قوم کو دکھایا اور گھنٹوں تک سنایا جاتا ہے۔ آپ چاہیں تو شریف خاندان کی طرح اپنی قسمت بدل سکتے ہیں اور پانچ براعظموں میں جائیدادیں خرید سکتے ہیں یا پھر بے چارے مرحوم مقصود چپڑاسی اور دیگر گھریلو ملازمین کے نام پر چودہ ارب روپے کی رقم منی لانڈرنگ کرا سکتے ہیں۔ آصف زرداری کی طرح چالیس ارب روپے فیک اکاؤنٹس میں ڈلوا کر فالودے والے کو ارب پتی بنا سکتے ہیں۔یا پھر عمران خان کی طرح تحائف بیچ کر کروڑوں کما کر بھی ایماندار کہلا سکتے ہیں۔ وزیراعظم بن کر آپ جب چاہیں میڈیا کو گھٹنوں پر بٹھا سکتے ہیں۔ اگر کوئی بات نہ مانے تواس پر مقدمہ کروا سکتے ہیں‘ نوکری سے نکلوا سکتے ہیں۔ اگر کوئی انکار کرے تو وہی کرو جو میاں نواز شریف نے اپنے ادوار میں کیا یا خان صاحب نے وزیراعظم بن کر کیا۔ نواز شریف نے ایک میڈیا ہاؤس کے مالک اور ایڈیٹر پر بغاوت کے مقدمے بنوائے‘ نجم سیٹھی پر بغاوت کا پرچہ درج کروادیا۔ رات کو گھر سے اس طرح اٹھوا لیا گیا تھا جیسے ابھی اینکر عمران ریاض خان کو پولیس نے گھیرا ڈال کر گرفتار کر لیا۔یہ الگ بات ہے کہ جب تیسری دفعہ نواز شریف وزیراعظم بنے تو وہ صحافیوں کی حد تک بہت سیکھ چکے تھے۔اب شہباز شریف وزیراعظم ہیں۔ شہباز شریف کی حد تک ایک بات اچھی رہی کہ انہوں نے ٹویٹریا سوشل میڈیا کے ذریعے صحافیوں پر کبھی حملے نہیں کروائے جیسے ماضی میں (ن) لیگ نے میڈیا سیل قائم کرکے کرائے تھے یا جس طرح خان صاحب کی سوشل میڈیا ٹیم اس کھیل کو اگلے لیول تک لے گئی۔ شہباز شریف پر سب نے تنقید کی لیکن جواباً کسی صحافی کو سوشل میڈیا پر گالیاں نہیں پڑیں۔
شہباز شریف اپنی اسی بیوروکریٹک ٹیم کو اپنے ساتھ واپس لے آئے جو پنجاب میں اُن کے ساتھ تھی‘یوں بیوروکریسی کو پیغام دیا گیا کہ میرا ساتھ دو گے تو وفاداری کا صلہ ملے گا۔ جہانزیب خان جو پنجاب میں 56کمپنیوں کے سکینڈل میں ملزم تھے‘ کو پہلے خان صاحب نے وزیراعظم بنتے ہی ایف بی آر کا چیئرمین لگایا پھر ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن لگا کر توسیع دے دی۔ اب شہباز شریف نے بھی وزیراعظم بنتے ہی انہیں بڑا عہدہ دے دیا ہے۔ ایک اور بیوروکریٹ جو نیب کا ملزم بھی رہا‘ اسے گریڈ بیس سے استعفیٰ دلوا کر پوری بیوروکریسی پر وزیر لگا دیا۔ کل کا ایک بہت جونیئر افسر آج گریڈ 22والے بیوروکریٹس کا باس ہے اور وہ سب اسے یس سر کہتے ہیں کیونکہ وہ شہباز شریف کا وفادار تھا۔ شہباز شریف کی ٹیم کے ایک بیوروکریٹ کیپٹن(ر) محمد محمود بچ گئے تھے‘ جو رنگ روڈ سکینڈل میں گرفتار رہے۔ اب ایک بیوروکریٹ عمر رسول کو انکوائری افسر لگوا کر اُس افسر کو کلین چٹ دلوا دی گئی ہے۔ جب رنگ روڈ سکینڈل سامنے آیا تب کیپٹن(ر) محمدمحمود کمشنر راولپنڈی تھے۔ مبینہ طور پر اس سکینڈل میں بڑے بڑے ٹھیکیداروں‘ بلڈرز اور وزیروں نے اربوں روپے کما لیے مگر زمین پر ایک انچ بھی سڑک نہ بنی۔عمران خان جب وزیراعظم تھے‘ انہیں اپنی مرضی کی انکوائری چاہیے تھی تاکہ اپنے لاڈلوں کو اس انکوائری سے کلیئر کرا سکیں۔ عمران خان نے کمشنر راولپنڈی کو گرفتار کروایا اور ان کی جگہ آنے والے کمشنر گلزار شاہ کو کہا کہ آپ سابق کمشنر کی انکوائری کرو۔ گلزار شاہ‘ خان صاحب کی مرضی کی انکوائری کر لائے اور خان صاحب کے تین وزیروں کے نام سکینڈل سے غائب ہوگئے۔اب حکومت بدلی تو شہباز شریف نے کہا کہ نئی انکوائری کراتے ہیں تاکہ اپنے لاڈلے افسر کو کلین چٹ دلوائی جائے۔ اب کی دفعہ اس کام کے لیے عمر رسول صاحب کا انتخاب کیا گیا جنہیں عمران خان دور میں اچھی پوسٹنگ نہ ملی تھی۔ انہوں نے جو انکوائری رپورٹ تیار کی ہے وہ بڑی مزے کی ہے۔ انہوں نے سکینڈل کے مرکزی ملزم سابق کمشنر راولپنڈی کو کلین چٹ دے دی اور الٹا سفارش کی کہ ان کے بعد لگنے والے کمشنرکے خلاف کارروائی کی جائے جنہوں نے پہلے کمشنر کے خلاف انکوائری کی تھی۔ اب اندازہ کریں جس کمشنرنے عمران خان کو خوش کرنے کے لیے انکوائری رپورٹ میں تین وزیروں کے نام غائب کر دیے تھے وہ اب مرکزی ملزم بن کر سامنے آیا ہے اور انکوائری بھگت رہا ہے اور نئے انکوائری افسر کا کہنا ہے کہ اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ یوں پہلے خان صاحب نے ایک بیوروکریٹ کے ذریعے اپنے لاڈلے وزیروں کے نام انکوائری میں کلیئر کروائے‘اب شہباز شریف نے ایک اور بابو سے انکوائری کروا کے سابق کمشنر کو کلین چٹ لے دی ہے۔
عمر رسول نے اپنی انکوائری میں کہا ہے کہ سابق چیف سیکرٹری پنجاب جواد رفیق کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ اب ایک ہی سکینڈل کی دو انکوائری رپورٹس ہیں اور دونوں کے ملزم سابق کمشنر راولپنڈی ہیں۔ لوگوں کے اربوں روپے ڈوب گئے لیکن بیوروکریسی کو داد تو دیں۔ عمران خان نے ایک بابو کو کہا کہ میرے بندے اس انکوائری میں کلیئر ہونے چاہئیں تو اس نے کر دیے۔ اب شہباز شریف نے وزیراعظم بنتے ہی ایک اور افسر کو کہا کہ چل بھائی! میرے بندے بھی کلیئر کرو۔ اس نے بھی کلیئر کر دیے۔ یہ ہے ہمارے ملک کی بیوروکریسی کا سٹائل کہ حکم کریں کیسی انکوائری رپورٹ بنانی ہے۔ کیا ایسی باریک وارداتیں کوئی اور ڈال سکتا ہے۔ یہ ہمت صرف عمران خان اور شہباز شریف کر سکتے ہیں کہ اپنے دوستوں اور وزیروں کو کیسے پتلی گلی سے بچا کر نکال کر لے جانا ہے۔
بہر حال آپ اسے کھیل کہیں یا واردات لیکن اس پر پہلی داد بیوروکریٹ گلزار شاہ کو دیں جنہوں نے عمران خان کے تین دوستوں اور وزیروں کو رنگ روڈ سکینڈل سے نکال دیا اور سابق کمشنر راولپنڈی کو ملزم بنا دیا جس پر وہ گرفتار ہوئے۔ دوسری داد بیوروکریٹ عمر رسول کو دینا بنتی ہے جنہوں نے شہباز شریف کے لاڈلے گرفتار افسر کو نئی انکوائری میں بے قصور قرار دے کر اس سکینڈل کے پہلے انکوائری افسر کو ہی اصل ملزم بنا دیا ہے۔
اسے کہتے ہیں بڑی اورباریک واردات۔