اس بات کی داد تو آپ آصف علی زرداری کو ضرور دیں کہ وہ ایسے سیاسی سوداگر ہیں جو ہر سیاستدان کی دکھتی رگ سے واقف ہیں‘ ہر ایک کی کمزوری جانتے ہیں‘ ہر ایک کی قیمت کا اندازہ ہے۔ صحیح موقع پر وہ اپنے جادوئی ہیٹ سے کبوتر نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جب بھی ہماری مقتدرہ کو کسی بھی سیاسی حکومت کو سنجیدگی سے کچھ سمجھانا مقصود ہو تو آصف علی زرداری کی مدد لی جاتی ہے۔ اس لیے جب آصف علی زرداری ہونٹوں پر مخصوص مسکراہٹ سجائے اچانک شہباز شریف اور مریم نواز سے ملنے لاہور پہنچے تو ہو سکتا ہے کہ اُنہیں اتنا سیریس شہباز شریف یا مریم نواز نے بھی نہ لیا ہو جتنا عمران خان نے لے لیا تھا۔ اسی لمحے خان صاحب کو اندازہ ہوگیا تھا کہ مقتدرہ ان کے ساتھ نہیں رہی اور اب انہیں راستے سے ہٹانا مقصود ہے۔ اس لیے عمران خان نے اپنی توپوں کا رُخ فوراً شریفوں کے بجائے آصف زرداری کی طرف کردیا اور اپنی ہر تقریر میں انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔ اب آپ پوچھیں گے کہ آخر ایسی کون سی راز کی بات تھی کہ عمران خان شریفوں کو چھوڑ کر آصف زرداری کے پیچھے لگ گئے؟
اس راز کو جاننا ہے تو کچھ سال پیچھے جانا پڑے گا‘ جب اُس وقت کی مقتدرہ وزیراعظم نواز شریف کے پر کاٹنا چاہتی تھی‘ جس کا خیال تھا کہ سینیٹ اپوزیشن پارٹیوں کے پاس ہونا چاہیے تاکہ نواز شریف کو اتنی آزادی نہ مل سکے کہ وہ دوبارہ وزیراعظم بن کر اپنی مرضی کرنے لگ جائیں۔ اُس وقت بھی زرداری صاحب کی سروسز حاصل کی گئی تھیں کہ کسی بھی طرح کرکے سینیٹ میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین اپوزیشن جماعتوں کا ہی منتخب ہونا چاہیے۔ اس پروجیکٹ میں عمران خان بھی شامل ہو گئے اور آصف زرداری اور عمران خان دونوں کے مابین ایک خفیہ معاہدہ بھی ہوا۔ اس معاہدے کے تحت یہ طے پایا تھا کہ جب چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا الیکشن ہوگا تو پی ٹی آئی کے سینیٹرز آصف زرداری کے امیدوار کو ووٹ ڈالیں گے لیکن مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ اپنا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ لانے کیلئے سینیٹرز کی مطلوبہ تعداد کیسے پوری کی جائے۔ پھر آصف زرداری نے ایک منصوبہ بنایا کہ پہلے بلوچستان کی حکومت گرا کر وہاں اپنی مرضی کی حکومت قائم کی جائے اور سینیٹ کے الیکشن سے پہلے نئے سینیٹرز اسلام آباد لائے جائیں اور ان کی مدد سے پورے ہاوس کا کنٹرول سنبھالا جائے۔
آصف زرداری نے اس مقصد کیلئے اپنے ساتھ ایک بندہ لیا اور کوئٹہ روانہ ہو گئے۔ جہاں انہوں نے اپنا بلوچ کارڈ اور بریف کیس استعمال کیا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک اچھی خاصی چلتی صوبائی حکومت جسے نواز شریف کی پارٹی کی حمایت حاصل تھی‘ یوں دھڑام سے گر جائے گی۔ آصف زرداری کی حکمت عملی سے چند ہی روز میں وزیراعلیٰ ثناء اللہ زہری کے خلاف بغاوت ہوئی اور عبدالقدوس بزنجو نئے وزیراعلیٰ بلوچستان بن گئے۔ جس کے بعد وہاں منعقدہ سینیٹ کے الیکشن میں بلوچستان سے اپنے لوگ سینیٹرز بنوا کر اسلام آباد بھجوا دیے گئے۔ چند ہی روز بعد جب چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے الیکشن ہوئے تو آصف زرداری کی کامیاب حکمت عملی سے بی اے پی سے تعلق رکھنے والے صادق سنجرانی چیئرمین جبکہ پی پی کے سلیم مانڈوی والا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب ہو گئے۔
سینیٹ نواز شریف کے ہاتھ سے نکل گیا۔ عمران خان سے بھی سینیٹ کے ووٹ لے کر آصف زرداری کے امیدوار کو ڈلوائے گئے اور عمران خان کے سینیٹرز نے پی پی پی کے سلیم مانڈوی والا کو ڈپٹی چیئرمین بنوایا۔ یوں یہ پہلا پروجیکٹ تھا جو آصف زرداری‘ عمران خان اور مقتدرہ نے مل کر مکمل کیا اور ایک وزیراعظم اپنے تمام تر حکومتی وسائل اور اختیارات کے باوجود سینیٹ میں الیکشن بری طرح ہار گیا۔ اپوزیشن پارٹیوں نے اپنا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ بنانے کے بعد نواز شریف کو خوب ٹف ٹائم دیا۔ اس لیے عمران خان کو علم تھا کہ جب مقتدرہ کو کسی کو نکالنا مقصود ہوتا ہے تو آصف زرداری ایکٹو ہو جاتے ہیں۔
اب کی دفعہ نواز شریف کی جگہ عمران خان تھے اور صورتحال وہی ہو چکی تھی جو چند برس پہلے نواز شریف کو درپیش تھی۔ اب کی دفعہ پھر آصف زرداری کے ذمے وہی کام لگا کہ سینیٹ عمران خان کو نہیں ملنا چاہیے۔ اس دفعہ آصف زرداری نواز شریف سے مل گئے۔ اب کی بار ٹارگٹ ضرور بدلا تھا لیکن کھلاڑی وہی تین تھے۔ زرداری اور شریفوں کے الائنس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے مل کر عمران خان حکومت کو بڑا دھچکا اس وقت دیا جب اسلام آباد کی سینیٹ سیٹ سے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو اچانک لانچ کیا گیا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یوسف رضا گیلانی عمران خان کے وزیر خزانہ حفیظ شیخ کو ہرا کر بڑا اَپ سیٹ کردیں گے۔ یہ اتنا بڑا اَپ سیٹ تھا کہ عمران خان کو اعتماد کا ووٹ لینا پڑا اور اس کے لیے انہیں مقتدرہ سے مدد مانگنا پڑی‘ اس ساری مشق کا مقصد عمران خان کو سبق سکھانا تھا۔
آصف زرداری کا تیسرا پروجیکٹ یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینیٹ بنوانا تھا جو تقریباً مکمل ہوگیا تھا لیکن پھر کچھ اور مجبوریاں درمیان میں آگئیں‘ اس لیے ادھورا رہ گیا۔ وزیراعظم عمران خان آصف زرداری کی ان خوبیوں کو اچھی طرح جانتے ہیں کیونکہ وہ ایک دو پروجیکٹ میں پارٹنر رہ چکے ہیں لہٰذا جونہی اُن کی شریفوں سے ملاقات ہوئی‘ عمران خان کو احساس ہوگیا تھا کہ ان کا حال وہی ہونے والا ہے جو کبھی 2017ء میں نواز شریف کا ہوا تھا۔
جس روز آصف زرداری کی ملاقات شہباز شریف اور مریم نواز سے ہوئی تھی‘ عمران خان کو پتا چل گیا تھا کہ اب ان کا چل چلائو ہے۔ مقتدرہ نے آصف زرداری سے پہلے خود شریفوں کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی تھی لیکن وہ دودھ کے جلے اب چھاچھ کو بھی پھونکیں مار رہے تھے کہ کہیں ان کے ساتھ کوئی نیا دھوکا نہ ہو جائے۔ اسی لیے آصف علی زرداری کی خدمات حاصل کی گئیں۔ آصف زرداری کو علم تھا کہ وہ شریفوں کی کون سی دکھتی رَگ دبا کر انہیں ساتھ ملا سکتے ہیں۔ شہباز شریف کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ ایک تو وہ بڑے عرصے سے وزیراعظم بننے کے خواہشمند تھے لیکن ہر دفعہ کوئی نہ کوئی رکاوٹ حائل ہو جاتی تھی۔ دوسرا شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے کے سر پر 16 ارب روپے منی لانڈرنگ کے مقدمے کی تلوار لٹک رہی تھی جس میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی نااہلی اور سزا پکی تھی۔ یوں اگر وہ انکار کرتے تو پھر عمران خان کا منصوبہ کامیاب ہو جاتا کہ نواز شریف پہلے ہی سے نااہل اور سزا یافتہ تھے اور انتخابی سیاست سے آئوٹ ہو چکے تھے‘ مریم نواز بھی سزا یافتہ تھیں‘ نواز شریف کے بیٹے مفرور تھے۔ اب اگر عمران خان کو اگلا الیکشن جیتنا مقصود ہے تو انہیں وہی کچھ کرنا ہوگا جو 2018ء سے پہلے کیا تھا۔ اُس وقت نواز شریف اور مریم نواز پانامہ سکینڈل کی وجہ سے سزا یافتہ اور نااہل ہو چکے تھے۔ اب کی دفعہ 2023ء کے الیکشن سے پہلے شہباز شریف اور حمزہ شہباز بھی منی لانڈرنگ کیس میں سزا یافتہ ہو جائیں گے تو نواز لیگ شریف خاندان کے بغیر بکھر جائے گی۔ اور اگلا الیکشن جیت کر عمران خان 2028ء تک وزیراعظم منتخب ہو جائیں گے۔ جونہی آصف زرداری نے یہ منظر شہباز شریف کو دکھایا تو وہ فوراً راضی ہوگئے۔
لیکن ایک پریشان حال شہباز شریف کا بڑا مسئلہ یہ تھا کہ نواز شریف کو کون راضی کرے گا‘ جو دوسری دفعہ ایک ہی سوراخ سے ڈسے جانے کے لیے تیار نہ تھے۔ آصف زرداری اپنی مخصوص مسکراہٹ ہونٹوں پر لائے۔ نواز شریف کو منانے کے لیے آصف زرداری کے پاس ایک اور پلان موجود تھا۔ ممکن ہی نہ تھا نواز شریف اس جال سے بچ سکتے جو آصف زرداری بچھانے والے تھے۔ (جاری)