آج کل امریکی ریاست جارجیا کے ایک قصبے کارلٹن سے اعجاز بھائی مجھے مسلسل میسجز کرتے ہیں۔ پریشان ہیں۔ ان کے میسجز سے لگتا ہے وہ ٹھیک طرح سے سو بھی نہیں پا رہے۔
کوئی ذاتی پریشانی نہیں ہے۔ اللہ کا ان پر کرم ہے۔ ملتان میں چھوٹا موٹا کاروبار کرتے کرتے قسمت آزمانے امریکہ جا پہنچے۔ پہلے کچھ ریاستوں میں زندگی کے تلخ روپ دیکھے‘ محنت مزدوری کی‘ پاؤں جمانے کی کوشش کی لیکن بات نہیں بنی۔ سوچا کیوں نہ واپس ملتان چلیں‘ اگر تنگی ہی دیکھنی ہے تو امریکہ میں کیوں دیکھی جائے‘ اگر خالی جیب پردیس کاٹنا ہے تو اس سے اپنا گھر ہی بھلا۔امریکہ چھوڑنے سے پہلے اچانک ایک دوست نے کہا: جانے سے پہلے آخری کوشش کر دیکھو۔ دونوں نے کچھ پیسے ملائے‘ کاروں کی خرید و فروخت کا کام شروع کیا۔ نیک اور رحم دل انسان ہیں‘ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے نیت کا ایسا پھل دیا کہ اب امریکہ میں خوشحال اور مطمئن زندگی گزارتے ہیں۔ بچے بھی سیٹل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ابو اب تو کام چھوڑ دیں‘ گھر بیٹھیں لیکن وہ اپنے ہاتھ کی مزدوری پر یقین رکھتے ہیں۔ اب بھی بچوں کے مقابلے پر کام کرتے ہیں۔
پاکستان میں دکھی اور مصیبت میں مبتلا لوگوں کی برسوں سے مدد کرتے آئے ہیں۔ ان کا دل بڑا اور حساس ہے‘ یہی حساسیت ان کی دشمن بن چکی ہے۔ الحمدللہ کوئی ذاتی مسئلہ نہیں ہے لیکن وہ پھر بھی بے چین اور پریشان ہیں۔ اس کی وجہ بلوچستان‘ جنوبی پنجاب اور سرائیکی علاقوں میں آیا ہوا سیلاب ہے۔ وہ سیلاب زدگان کے لیے امریکہ میں بیٹھ کر جو کچھ کر سکتے ہیں‘ کررہے ہیں۔ وہ ہمارے ضمیر جگانے کی بھی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ ذرا سوچیں! ہم اپنے بچوں کے ساتھ مزے کررہے ہیں اور یہ غریب لوگ اپنے گھر چھوڑ کر سڑکوں پر آبیٹھے ہیں۔ ہر طرف پانی ہی پانی ہے۔ سب کچھ ان بیچاروں کا اجڑ گیا ہے۔ ان کا سکون تباہ ہوچکا ہے۔ ذرا تصور کریں ہم اگر ان کی جگہ ہوں تو ہماری کیا حالت ہو۔
میں ان کی باتیں سن کر کچھ حیران ہوتا ہوں کہ پاکستان سے ہزاروں میل دور بیٹھا انسان یہاں بلوچستان اور سرائیکی علاقوں میں سیلاب کی تباہیوں سے متاثرہ لوگوں کیلئے کتنا پریشان ہے۔ اس سے اپنا کھانا نہیں کھایا جارہا ہے۔ اسے سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیسے ان کی مدد کرے۔ وہ مجھ سے بھی ناراض ہوتا ہے،شاید میں ان ایشوز کو نہیں اٹھا رہا تاکہ ان لوگوں کی تکالیف کا کچھ ازالہ ہو۔ ان کا بس میرے پر چلتا ہے‘ لہٰذا مجھے ہی ان سیلاب زدگان کی پکچرز بھیجتے رہتے ہیں۔ خود بھی دکھی ہوتے ہیں اور مجھے بھی کرتے ہیں۔ میں انہیں ایک ہی بات بتاتا ہوں کہ یہ لوگ جن کے ہاتھوں میں اپنی قسمت دیتے ہیں‘جن کے لیے سب سے لڑنے مرنے پر تیار رہتے ہیں‘ جن کے جلسوں میں شریک ہوتے ہیں‘ جنہیں ووٹ ڈالتے ہیں‘ وہ اس وقت غائب ہیں۔ صرف ایک ماہ پہلے تک عمران خان اور مریم نواز نے ان علاقوں میں بڑے بڑے جلسے کیے‘ ہزاروں کی تعداد میں لوگ بھکر‘ لیہ‘ مظفرگڑھ‘ ملتان اور ڈیرہ غازی خان میں باہر نکلے اور انہوں نے عمران خان اور مریم نواز کے جلسوں میں رونق لگائی۔ ایسی رونق کہ خود عمران خان اور مریم نواز بھی حیران رہ گئے۔ایک دن عمران خان نے ایک جگہ جلسہ کیا تو دوسرے دن وہیں مریم نواز پہنچ گئیں۔ ان اضلاع کے لوگوں نے مریم یا عمران خان میں سے کسی کو مایوس نہ کیا۔ ان کے پنڈال بھر دیے۔ اُس وقت مریم اور عمران خان کے جلسوں سے لگتا تھا کہ مقابلہ بڑا سخت ہوگا۔ دونوں نے ایسے ایسے وعدے ان لوگوں سے کیے کہ یوں لگا کہ الیکشن جیت کر وہ ان علاقوں کو جنت بنا دیں گے۔
یہ امر بھی قابلِ افسوس ہے کہ ان اضلاع کی پسماندگی پر شہباز شریف کی وزارتِ اعلیٰ کے دوران بھی کوئی توجہ نہ دی گئی بلکہ نواز شریف وزیراعظم تھے تو راجن پور ایک جلسے میں فرمایا: اگر ترقی دیکھنی ہے تو لاہور جا کر دیکھو۔ راجن پور‘ تونسہ‘ ڈیرہ غازی خان آج سیلاب میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد عمران خان اپنے پسندیدہ حکمران عثمان بزدار کو لائے‘ جن کی خوبیوں کا علم صرف خان صاحب کو تھا۔ خود بزدار صاحب بھی ان خوبیوں سے لاعلم تھے۔ اب ان کا اپنا علاقہ بھی سیلاب میں ڈوب گیا ہے۔ ڈیرہ غازی خان کے صحافی یعقوب بزدار نے ان سیلاب زدگان کی کچھ وڈیوز اور تصاویر شیئر کی ہیں۔ یقین کریں ان معصوم بچوں کی شکلیں اور حالت دیکھ کر آپ کو رونا آ جائے۔ گرمی اور حبس کے موسم میں ننگے بدن‘ مٹی میں لتھڑے اور آنکھوں میں عجیب سی اداسی لیے ان چہروں نے جیسے دل پر چھری چلا دی ہو۔ پتا نہیں کتنی دیر اُن تین بچوں کی دس سکینڈز کی وڈیو دیکھتا رہا جو یعقوب بزدار نے بنائی تھی۔ مجھے لگا کہ ان اداس آنکھوں پر‘ جن میں دنیا بھر کی بے بسی بھری ہوئی تھی‘ پورا ایک ناول لکھا جا سکتا ہے۔ زندگی ان کے ساتھ کیسا مذاق کر گئی۔
پی ٹی آئی الیکشن جیت گئی تو یہاں کے غریب عوام پُرامید تھے کہ اب ہمارے مسائل حل ہونے جارہے ہیں‘لیکن ان علاقوں کو لنک کرنے والی ایم ایم روڈکو نہ تو شہباز شریف نے بنوایا نہ ہی عمران خان اور عثمان بزدار نے۔ ایم ایم روڈ پر آج بھی لوگ حادثات کا شکار ہوتے ہیں لیکن کہیں سے کوئی احتجاج کی آواز نہیں اٹھتی۔ ہزاروں لاکھوں لوگ انہی علاقوں میں عمران خان اور مریم نواز کے جلسوں میں شریک ہونے پہنچ گئے لیکن مجال ہے چند سو بندے بھی اکٹھے ہوئے ہوں کہ ایم ایم روڈ کے حق میں مظاہرہ ہی کر لیں۔
اب اتنا بڑا سیلاب آیا اور بتایا جارہا ہے کہ بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے‘ لوگوں نے جانیں گنوائی ہیں۔ بچے ماں باپ کے سامنے پانی میں بہہ گئے۔ آپ نے کسی سیاسی لیڈر کو ان لوگوں کے دکھ میں شریک ہوتے دیکھا؟ ایک ماہ پہلے تک ان علاقوں سے ووٹ لینے تھے تو عمران خان کا ہیلی کاپٹر اور مریم نواز کی گاڑی کہیں رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ آپ کو اس مشکل کی گھڑی میں عمران خان یا مریم نواز نظر آئے ہیں؟ آج عمران خان اور مریم نواز کو تو ان سیلاب زدگان کے کیمپوں میں ہونا چاہیے تھا۔ وہ ان کے لیے ٹرک بھر بھرکے امدادی سامان لے کر جا رہے ہوتے۔ اپنے اپنے ایم این ایز کو ہدایات دے رہے ہوتے کہ وہ ان لوگوں کے لیے ریلیف کیمپ لگائیں۔ خود وہیں کھڑے ہو کر سب انتظامات کراتے۔ دن رات ایک کر دیتے تاکہ ان معصوم لوگوں کو لگتا کہ یہ لیڈرز صرف ووٹ لینے نہیں آتے ان کے دکھ میں ان کا ساتھ دینے بھی آتے ہیں۔
آپ میں سے کسی نے سنا یا پڑھا کہ عمران خان اور مریم نواز نے ان مصیبت میں گھرے لوگوں کے لیے چند لاکھ نہ سہی چند ہزار روپے امداد کا اعلان ذاتی جیب سے کیا ہو تاکہ دوسرے بھی ان لوگوں کی مدد کریں؟اس وقت اسلام آباد میں مریم نواز کی پارٹی کی حکومت ہے۔ ان کی سن لیں کہ پچھلے ایک کابینہ اجلاس میں جب سیلاب کی تباہ کاریوں اور متاثرین کی امداد پر بات ہونے لگی تو انکشاف ہوا کہ ہمارے پاس تو فنڈز ہی نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یومِ آزادی پر تقریب منانے کے لیے پچاس‘ ساٹھ کروڑ روپے فوراً ارنیج کر لیے گئے۔ تقریب بھی ہونی چاہیے تھی لیکن ان والدین کا کیا کرنا ہے جن کی نظروں کے سامنے سیلاب ان کے بچے چھین کر لے گیا؟
سوال یہ ہے کہ مریم نواز اور عمران خان کے پاس چند لاکھ روپے کا چندہ نہ سہی لیکن کیا ہمدردی کے دو بول بھی نہیں جو وہ پانی میں گھرے‘ تباہ حال غریبوں کے لیے بول دیتے یا ان کا حوصلہ بڑھانے چلے جاتے۔ ابھی فیس بک پر کسی کا جملہ پڑھا کہ ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے علاقوں وہوا‘ منگڑوٹھہ اور ان سے ملحقہ بستیوں میں سیلاب میں گھرے ان غریبوں نے آخر اپنے مال مویشیوں کے گلے سے رسیاں نکال دی ہیں اور انہیں سیلابی ریلوں کے سپرد کردیا ہے... کون سمجھ سکتا ہے یہ کرب!