ویک اینڈ پر میں لیہ میں اپنے گاؤں میں تھا۔ اس دفعہ اسلام آباد ڈیرہ اسماعیل خان موٹر وے سے بھکر‘ لیہ جانے کا فیصلہ کیا۔ بلاشبہ موٹر وے نے ان علاقوں کی قسمت بدل دی ہے لیکن جونہی آپ ڈیرہ کے قریب موٹر وے سے اترتے ہیں تو آپ کو پتا چلتا ہے کہ ان علاقوں میں زندگی اب بھی کئی سال پیچھے ہے۔ لوگ آج بھی پرانے زمانوں میں زندہ ہیں۔ میرے ساتھ میرے دوست رانا اشرف تھے۔
ڈیرہ کے قریب ایک چوک میں وہاں موجود لوگوں کے چہروں کو غور سے دیکھا تو رانا اشرف سے پوچھا: یہ جو اتنے لوگ یہاں ریڑھیاں لگا کر فروٹ بیچ رہے ہیں‘ ان کے گاہک کہاں سے آتے ہوں گے کیونکہ باقی لوگوں کے چہروں سے ٹپکتی غربت دیکھ کر لگ رہا ہے کہ یہ تو ایک سیب خریدنا بھی افورڈ نہیں کر سکتے‘ یہ ریڑھی والے کن لوگوں کو یہ فروٹ اور سبزی بیچتے ہوں گے؟ رانا اشرف بولا: شاید جو بسیں یہاں رکتی ہوں گی اُن میں سوار مسافر خرید لیتے ہوں گے‘ ورنہ ان لوگوں کی حالت تو واقعی ایسی نہیں لگتی کہ یہ فروٹ خرید کر کھا سکیں۔
اگرچہ داجل بھکر روڈ اچھا بنا ہوا تھا لیکن پھر جو باقی سڑکوں کی حالت دیکھی تو توبہ کر لی۔ اس وقت سرائیکی علاقوں خصوصاً تونسہ‘ ڈیرہ غازی خان‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ سندھ اور بلوچستان میں سیلابی پانی نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔ گاؤں کے گاؤں صفحۂ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔ جو وڈیوز ان سیلاب زدہ علاقوں سے سامنے آرہی ہیں وہ دل دہلا دینے والی ہیں۔ ایک وڈیو میں جب ایک والد کے سامنے اُس کے بچوں کو سیلاب ایک جن کی طرح بہا لے گیا تو وہ بچوں کی تلاش میں اس سیلاب میں کود گیا۔ سیلاب کے تیز پانی میں وہ کئی میل تک اپنے بچوں کو ڈھونڈتا رہا۔ آخر پانی کی وحشی لہروں نے اس بلوچ باپ کو بھی دبوچ لیا اور جب اس کی لاش ملی تو اس کے صرف دونوں ہاتھ باہر تھے جبکہ باقی پورا جسم گیلی مٹی میں دھنس گیا تھا۔ وہ تصویر دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ایک باپ ایک بڑی بلا سے اپنے بچے واپس لینے کے لیے گھنٹوں لڑتا رہا کہ شاید وہ دریائی بلا اس کے بچے واپس کردے لیکن آخرکار وہ ہار گیا۔ جب دلدلی زمین سے اُس کی لاش نکالنے کے لیے کھدائی کی گئی تو اس کے بازو اس انداز میں اوپر اٹھے ہوئے تھے کہ مرنے سے پہلے اس نے آخری کوشش کی تھی کہ بلا کو شکست دے لیکن سیلاب بچوں کے بعد باپ کو بھی نگل گیا۔ایک اور وڈیو میں ایک دیہاتی ماں جس طرح اپنے گھر کی تباہی دیکھ کر ماتم کررہی ہے‘ اسے دیکھ کر آپ کا کلیجہ پھٹ جائے۔ وہ سرائیکی زبان میں روتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ اس کے بچوں نے کہاں کہاں مزدوری نہیں کی تاکہ وہ یہ گھر بنا سکیں۔ سب کچھ دریا بہا کر لے گیا اور اپنے پیچھے ملبہ اور تباہی چھوڑ گیا۔ ایک ماں کا وہ ماتم سن کر آپ کئی روز تک سو نہیں پائیں گے۔
ایک اور وڈیو میں ایک عورت اپنے بچے سنبھال کر بیٹھی ہے جس نے تین دن سے کچھ نہیں کھایا۔ اس کا خاوند کب کا غائب ہے۔ بچے بیمار ہو رہے ہیں۔ کھانے پینے کو ان علاقوں میں کچھ نہیں ہے۔ چند لوگ ہیں جو خود اپنی مدد آپ کے تحت ان علاقوں میں مدد کو نکلے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق ان علاقوں میں پہنچے ہیں اور جماعت اسلامی کی رفاہی تنظیم وہاں کام کررہی ہے۔ملتان سے کچھ لوگ دوائیوں اور امدادی سامان کے ساتھ ان علاقوں میں پہنچے ہیں کہ ان مصیبت زدہ لوگوں کو اس وقت خوراک کے ساتھ ڈاکٹر اور دوائیاں بھی درکار ہیں۔ اسلام آباد سے بھی کچھ لوگ مدد کرنے پہنچے ہیں۔ڈیرہ اسماعیل خان کے دوست کی فیس بک پر ایک تصویر دیکھ کر دل کی عجیب کیفیت ہوئی۔ اس دوست نے ایک کیمپ لگایا کہ وہ لوگوں سے چندہ لے کر ڈیرہ اسماعیل خان میں سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی مدد کرے۔ ایک خانہ بدوش خاتون جو سارا دن خود مانگ تانگ کر گزارہ کرتی ہے‘ وہاں سے گزری۔ اس غریب خاتون نے کچھ پیسے نکال کر وہیں سامنے ڈال دیے تاکہ سیلاب زدگان کی مدد ہوسکے۔ کیا بڑا دل پایا ہے اس خاتون نے کہ جو سارا دن دوسروں سے مانگا تھا وہ وہیں خیرات کر دیا کہ اس وقت مجھ سے زیادہ سیلاب زدگان کو پیسوں کی ضرورت ہے۔
ایک اور جگہ سوشل میڈیا پر پڑھا کہ جب امدادی ٹیمیں ان مصیبت زدہ علاقوں میں پہنچیں تو وہاں ایک شخص دور بیٹھا تھا۔ وہ ان لوگوں سے امدادی پیکٹ لینے نہیں آیا۔ جب ایک امدادی ٹیم کا بندہ خود امداد لے کر پہنچا تو اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ سکول ٹیچر ہے۔ اس کی اگلے ماہ تنخواہ آ جائے گی۔ اس امداد کے مستحق دیگر لوگ ہیں جن کا سب ذریعہ معاش تباہ ہوگیا ہے۔ سوشل میڈیا پر انہی سیلاب زدہ علاقوں کی ایک اور تصویر دیکھی۔ یہ تونسہ کے علاقے کی ہے۔ ایک بلوچ عورت سر جھکائے ساری دنیا کا دکھ اپنے کندھوں پر اٹھائے مایوس قدموں سے چل رہی ہے۔ پیچھے کچھ فاصلے پر مردوں کا ہجوم ہے۔ پتا چلا کچھ لوگ وہاں خیمے اور کھانے پینے کا سامان بانٹ رہے تھے۔ وہ اپنے بچے وہیں چھوڑ کر بھاگ کر گئی کہ وہ بھی جا کر ان سے خیمہ اور کچھ امداد لے آئے تاکہ بچوں کے سر پر گرمیوں اور حبس کے اس موسم میں کوئی تحفظ تو ہو۔ جب سب مرد وہاں خیموں کے لیے لڑ رہے تھے تو اس ماں کو کس نے کچھ لینے دینا تھا؟ اس نے کچھ دیر تو کوشش کی لیکن پھر اسے لگا یہ اس کے بس کا روگ نہیں۔ وہ پیچھے ہٹ گئی‘ کچھ دیر کھڑی رہی کہ شاید کسی کی ضرورت سے کچھ بچ جائے تو اسے مل جائے۔ جب اسے کچھ نہ ملا تو وہ تھکے ہارے قدموں سے اپنے بچوں کی طرف خالی ہاتھ لوٹ رہی ہے۔ اس تصویر سے واضح ہے کہ اس سے چلا نہیں جارہا۔ وہی خوف کہ وہ جا کر بچوں کو کیا کھلائے یا کیا بتائے گی۔ اس بلوچ ماں کی وہ تصویر شاید میرے ذہن میں نقش ہو کر رہ گئی ہے۔
یہی حالت بلوچستان میں ہوئی ہے جہاں ایک قطار میں کیچڑ میں لتھڑے چھوٹے بچوں کی میتیں دیکھ کر آپ پرکپکی طاری ہو جائے۔ ان کے والدین کا کچھ پتا نہیں۔ شاید وہ بھی پانی میں بہہ گئے ہوں گے۔ سندھ سے بھی ایسی ہی خبریں آرہی ہیں کہ وہاں بھی لوگ سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہوئے ہیں۔ سندھ اسمبلی کے سپیکر آغا سراج نے اس سیلاب کا سارا ملبہ یہ کہتے ہوئے کہ یہ گناہوں کی سزا ہے‘ انہی غریبوں پر ڈال دیا ہے۔ حیران ہوتا ہوں ایک غریب میں گناہ کرنے کی کتنی سکت ہوتی ہے؟ ایک غریب تو شاید اس طرح کے گناہ سوچ بھی نہیں سکتا جس طرح کے گناہ اس ملک کی اشرافیہ روز کرتی ہے۔ اگر گناہوں پر ہی عذاب اترنے ہیں تو یہ عذاب اشرافیہ پر کیوں نہیں اترتے؟ یہ کیسے عذاب یا گناہ ہیں جس کا شکار ہمیشہ محنت مزدوری کرنے والے غریب طبقات ہوتے ہیں جیسا کہ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا‘ جنوبی پنجاب اور سندھ کے علاقے۔ غریب ہی ہمیشہ قدرتی آفات کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟ اشرافیہ ایسے عذاب سے کیوں محروم رہتی ہے؟
ایک طرف سیلاب نے لاکھوں لوگوں کو برباد کر دیا ہے تو دوسری طرف ہماری سول انتظامیہ حسبِ معمول ایک دفعہ پھر متاثرہ لوگوں کا خیال رکھنے میں ناکام رہی ہے۔ وہ اپنے مزے میں ہے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ وہ حکمران کدھر ہیں جو اِن سے ووٹ لے کر حکمرانی کرتے ہیں۔ تو سن لیں۔ شہباز شریف قطر پہنچے ہوئے ہیں تو وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی اپنے بیٹے مونس الٰہی کو لے کر بنی گالا میں عمران خان کی سکیورٹی کے انتظامات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اب اتنے اہم کاموں میں سر جھکائے چلتی شکست خوردہ بلوچ ماں کے دکھوں کی فکر کون کرے جو تھکے ہارے قدموں سے خالی ہاتھ اپنے بچوں کی طرف لوٹ رہی ہے۔