ہر انسان کی زندگی میں ایک ایسا لمحہ ضرور آتا ہے جب وہ خود کو یہ یقین دلاتا ہے کہ ''اپُن ہی بھگوان ہے‘‘۔ اسے لگتا ہے وہ اکیلا دنیا میں بڑا آدمی پیدا ہوا ہے۔ وہ خود پر عاشق ہو جاتا ہے۔ وہ ہر وقت اپنی تعریف سننا چاہتا ہے۔ پہلے اپنے مداحوں سے اپنی تعریف سنتا ہے اور عالمِ مدہوشی میں مسکراتا رہتا ہے۔ پھر وہ خود اپنی تعریفوں کے پل باندھ دیتا ہے کہ باقی مقررین نے وہ حق ادا نہیں کیا جس کا وہ حقدار تھا۔ وہ چاہتا ہے روزانہ کوئی ایسا کارنامہ سرانجام دے جس سے دنیا جھوم اٹھے‘ لوگ اَش اَش کر اٹھیں۔ لوگ اپنے انتخاب پر فخر محسوس کریں کہ دیکھو ہم نے کیسا عظیم انسان اپنا لیڈر چنا ہے۔
ایسا شخص جہاں جاتا ہے لوگ اُس کے گرد اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ سیلفیاں لینا چاہتے ہیں۔ حسرت سے اُسے تکتے ہیں۔ وہ اس دیوتا نما شخص جیسا بننا چاہتے ہیں۔ لوگ اُسے اپنا مسیحا یا ہیرو اس لیے سمجھتے ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ یہ شخص وہ سب کام کر سکتا ہے جو وہ نہیں کر سکتے۔ جیسے لوگ امیتابھ بچن کو سکرین پر قُلی یا تانگے والا بن کر بھی ارب پتی کی بیٹی سے رومانس کرتے دیکھتے ہیں تو خود کو امیتابھ کی جگہ رکھ کر سینما ہال میں تین گھنٹے گزار آتے ہیں۔ یہی حساب لوگوں کا اپنے پسندیدہ سیاستدان کے حوالے سے بھی ہوتا ہے۔ وہ جو کام خود نہیں کر پاتے اپنے پسندیدہ سیاستدان کے ذریعے کروانا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے سب مل کر اپنے لیڈر کے نخرے اٹھاتے ہیں۔ اُسے مہنگے تحفے دلاتے ہیں۔ اُس کا کچن چلاتے ہیں۔ اُسے کبھی جیب میں بٹوہ رکھنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اُس کے اردگرد ہجوم ہر لمحہ اُسے یہ احساس دلاتا ہے کہ وہ ایک غیرمعمولی انسان ہے‘ خدا نے اُسے بہت اہم کام کے لیے پیدا کیا ہے‘وہ عام انسانوں سے ہٹ کر ہے‘ سب لوگ اُس کے دوستوں کی فہرست میں شامل ہونا چاہتے ہیں جن کے ساتھ وہ اپنی شامیں گزارتا ہے‘ انہیں سمجھ نہیں آتا کہ وہ ایسا کیا کریں کہ اُن کا لیڈر انہیں ہر وقت میسر رہے۔ وہ اپنے لیڈرکی ہر قیمت پر خوشنودی حاصل کرناچاہتے ہیں تاکہ وہ دوسروں پر اپنی اہمیت جتا سکیں۔ وہ اس وقت ہی اہم ہوں گے جب اُن کا لیڈر انہیں اہمیت دے گا۔ بے شک وہ سارا وقت اپنے لیڈر کی محفل میں کسی کونے میں خاموش بیٹھے رہیں لیکن وہ باہر نکل کر ایسے اداکاری کریں گے کہ انہوں نے صاحب کو کیسے اس دنیا کے سب مسائل سمجھائے اور اُن کے حل بھی تجویز کیے۔ اکثر لوگ پھر ایسے انسان سے ملنے کے بعد کئی دن تک خوشی سے سو نہیں پاتے۔ انہیں لگتا ہے کہ انہوں نے اربوں روپے کما لیے۔ ہزاروں لوگ ان کی ملوں میں ملازمت کرتے ہیں‘ وہ دنیا بھر کے سیر سپاٹے کرتے ہیں لیکن پھر بھی انہیں کوئی نہیں جانتا۔
پھر انہیں کوئی مشورہ دیتا ہے کہ اگر مشہوری چاہتے ہو تو پھر ایک ایسا ''بھگوان‘‘ ڈھونڈ لو جس کی سب ''پوجا‘‘ کرتے ہیں۔ آپ جائیں اسے چندہ دیں‘ اس کو چیک دیں‘ پیسے کی چمک دکھائیں‘ اس کے اخراجات برداشت کریں‘ اس کے نخرے اٹھائیں‘ اس کے موڈ کے غلام بنیں‘ اس کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر گھنٹوں اس کے جاگنے کا انتظار کریں‘ اس کے ملازموں کو آتے جاتے تگڑی ٹپ دیں تاکہ وہ آپ کو صاحب کے قصے سنائیں یا ذرا جاسوسی کریں کہ آپ کے علاوہ صاحب سے کون کون کس کس وقت ملنے آتا ہے اور کیا گفتگو ہوتی ہے۔ ایسے ''بھگوان‘‘ کے گھریلو ملازم بھی سمجھدار ہوتے ہیں‘ وہ سب کے لیے یہ کام کرتے ہیں‘ وہ سب کو ''اندرونی خبریں‘‘ دیتے ہیں جن میں سے بیشتر خود گھڑ لیتے ہیں۔ وہ ایک ماہر نجومی کی طرح زیادہ تر اچھی خبریں ہی سائل کے ساتھ شیئر کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی جیب ڈھیلی کیے رکھے۔ جب یہی ملازم رات گئے سرونٹ کوارٹر میں اکٹھے ہوتے ہیں تو ان ارب پتیوں پر خوب ہنستے اور جگتیں لگاتے ہیں کہ کیسے فلاں کو چونا لگایا اور کیا کچھ اپنی طرف سے سنا دیا۔ ایسے ''بھگوان‘‘ کے ملازم یا ان کا سٹاف بھی کسی سے کم نہیں ہوتا۔ وہ ایسے لوگوں کا 'تراہ‘ نکالے رکھتا ہے۔
''بھگوان‘‘ کو علم ہوتاہے کہ یہ سب لوگ اس کی محبت میں گرفتار نہیں بلکہ اپنے چکروں میں ہیں‘ ان سب کی خواہشات انہیں ''بھگوان‘‘ کے دروازے تک لے آئی ہیں۔ یہ سب لوگ دوسروں کے سامنے فرعون ہیں لیکن اُس کے سامنے باچھیں کھلائے بیٹھے ہیں۔ یہ سب بڑے بڑے اداکار ہیں۔ یہ اس دربار سے گیان پانا چاہتے ہیں اور ان کے لیے گیان مزید شہرت‘ مزید رعب و دبدبہ ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر''بھگوان‘‘ کے دائیں بائیں ان کی جھلک ٹی وی چینلز پر نظر آتی رہی تو ان کا نام اور رتبہ بڑا ہوجائے گا۔ وہ کبھی نہیں سوچتے کہ انہوں نے برسوں محنت کی‘ کام کیا‘ دن رات ایک کیا اور اب وہ ایک''بھگوان‘‘ کے در پر اس لیے پڑے ہیں کیونکہ وہ شہرت کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ بڑے لوگوں سے تعلقات قائم کرکے اپنا قد بڑا کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کی اپنی دولت انہیں وہ عزت نہ دلوا سکی جو اس ''دیوتا‘‘کے چرنوں میں بیٹھ کر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
اُن میں سے ہر کوئی جانتا ہے کہ اس دربار میں کئی قسم کے درباری ہیں جو ایک دوسرے کو حقارت کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ ہر ایک کے پاس مہنگی گاڑیاں ہیں۔ اُن میں سے کوئی ایک خود کو نمایاں کرنے کے لیے جیٹ جہاز تک خرید لیتا ہے تاکہ اپنے ''دیوتا‘‘ کے مزید قریب ہو سکے۔ ''دیوتا‘‘ اس کے جہاز میں بیٹھ کر سارا دن اس کے ساتھ گزارے گا‘ سارے میڈیا اور لوگوں کو اس کی اہمیت کا اندازہ ہوگا‘ اب بڑی گاڑیوں کا کلچر پرانا ہو چکا‘ اب جیٹ ایج ہے۔ جیٹ میں چونکہ تین چار لوگ ہی بیٹھ سکتے ہیں لہٰذا یہ فیصلہ بھی جیٹ کا مالک ہی کرے گا کہ اس کے ''دیوتا‘‘ کے علاوہ اس جیٹ میں کون بیٹھے گا۔ ''دیوتا‘‘ بھی ایسے شخص کو زیادہ اہمیت دینے لگ جاتا ہے۔ اسے بڑی گاڑیوں والے چہرے اب اچھے نہیں لگتے کیونکہ اب ان کے درمیان جیٹ والا بیٹھا ہے جس کا سٹیٹس اچانک بلند ہو جاتا ہے۔ وہ اب کونے سے اُٹھ کر صوفے پر آجاتا ہے۔ اب دیگر درباری جو کل تک اسے حقارت کی آنکھ سے دیکھتے تھے اور اس کی پیٹھ پیچھے اس کا مذاق اڑاتے تھے وہ بھی اب اس کی خوشنودی چاہتے ہیں۔ وہ اب اس ''دیوتا‘‘ کے ساتھ جیٹ میں ایک سیٹ چاہتے ہیں تاکہ یہ جان سکیں کہ زمینی دربار سے لے کر آسمانی دربار تک کیسی محفل جمتی ہے۔
''دیوتا‘‘ یہ سب کچھ دیکھ‘ سن اور سمجھ رہا ہوتا ہے‘ وہ انسانی نفسیات کو اچھی طرح جانتا ہے۔ ''دیوتا‘‘ کبھی کسی ایک درباری کو آگے کر دے گا تو کبھی کسی دوسرے کو۔ وہ ان درباریوں کو آپس میں لڑاتا بھی رہے گا تاکہ یہ سب اپنی اوقات سے باہر نہ نکلیں۔ وہ ''دیوتا یا بھگوان‘‘ انہیں مرغوں کی طرح لڑا کر خوش ہوتا ہے۔ ان کی پیٹھ پیچھے ان کا مذاق اڑائے گا‘ ان کی حرکتوں کو انجوائے کرے گا۔ اسے سمجھ نہیں آئے گی کہ ان لوگوں کو سب کچھ ملا ہے لیکن ان کے اندر صبرو قناعت پیدا نہ ہوئی۔ اب یہ شہرت اور رتبہ پانے کے لیے اس کے محتاج ہیں۔ یہ اس کی ایک نظر کرم چاہتے ہیں جو اِن کے خیال میں ان کی زندگی بدل دے گی۔ ان کے پاس بہت کچھ ہے لیکن اب بھی انہیں کم لگتا ہے۔ وہ اب اس''بھگوان‘‘ کے ذریعے انسانوں پر حکمرانی چاہتے ہیں۔
''دیوتا‘‘ یہ سب کچھ دیکھ کر اپنی ایک الگ دنیا بنا لیتا ہے۔ ایک ایسی دنیا جس کا وہ اکیلا مالک ہے۔ وہ جو چاہے کہہ سکتا ہے‘ جو چاہے کر سکتا ہے۔ اسے لگتا ہے وہ''بھگوان‘‘ ہے‘ سب اسے سَرو کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں اور ایک دن اسی سرور اور عالمِ مستی میں وہی ''بھگوان‘‘ بم کو لات دے مارتا ہے۔