اپنے تیس سالہ صحافتی پروفیشن میں ارشد شریف اکیلا تھا جو کسی کے ساتھ بھی اپنی خبر /دستاویزات شیئر کرنے کے لیے تیار رہتا تھا۔اپنی خبریں جونیئر رپورٹرز کو دے دینا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔جتنا وہ اپنے جونیئرز کو پروموٹ یا ان کی حوصلہ افزائی کرتا تھا شاید ہی کوئی دوسرا ایسا پروفیشنل آپ کو ملے۔پروفیشنل ایسا کہ اگر اسے انصاف کرنا پڑے تو وہ دوستی کا لحاظ نہیں کرتا تھا۔ اکثر کہتا تھا کہ مجھے دوستی اور تمہارے ساتھ کام کرنے کا موقع ملے تو میں دوستی کو ترجیح دوں گا کیونکہ میرے جیسے دیہاتی کے برعکس جو دوستیوں کو ترجیح دیتے ہیں‘ تم برسوں کی دوستی کو ایک طرف رکھ دیتے ہو۔ وہ دفتری معاملات میں کسی دوستی یا لحاظ کا قائل نہیں تھا۔
ارشد شریف دنیا ٹی وی اسلام آباد کا بیوروچیف بنا تو میں پہلے سے وہاں کام کر رہا تھا۔ ایک دن دفتر کے ایک کولیگ سے کسی ایشو پر تلخ بحث ہوگئی۔اس نے جا کر ارشد شریف کو بتایا۔ اگرچہ میں ارشد شریف کے ماتحت کام نہیں کررہا تھا‘ وہ بیورو کے معاملات کا انچارج تھا یا اپنی ٹیم کا‘میں اس ٹیم میں نہیں تھا۔کچھ دیر بعد وہ کولیگ میرے پاس آیا اور کہنے لگا: سر میں معذرت خواہ ہوں‘ میرا خیال ہے مجھے آپ اور ارشد شریف کی دوستی میں دراڑ نہیں ڈالنی چاہیے۔میں نے پوچھا :کیا ہوا؟ کہنے لگا: میں نے ارشد صاحب کو جا کر آپ کی شکایت لگائی‘میرا خیال تھا وہ آپ کے دوست ہیں الٹا مجھے ڈانٹیں گے‘ لیکن انہوں نے کہا‘ جائو درخواست لکھ کر لائو کارروائی کریں گے ‘اگر ثابت ہوا کہ رئوف کی زیادتی ہے۔کہنے لگا: میں ہکا بکا دیکھ رہا تھا‘میں نے ارشد صاحب کو کہا‘ سر کوئی نہیں بس ایسے بحث ہوگئی۔میں نے اس کولیگ کو بٹھایا اور معذرت کی کہ چلیں آپ کی مہربانی۔ شام کو حسب ِمعمول ارشد شریف اور میں اکٹھے تھے‘گپ شپ لگ رہی تھی‘ میں نے کہا: سنا ہے تمہارے پاس میری شکایت آئی تھی؟ہنس کر کہنے لگا: بچو بچ گئے ہو‘اس نے لکھ کر نہیں دیا ورنہ تمہیں میرا پتہ ہے میں نے انکوائری کرانی تھی۔میں نے کہا: نوکری سے نکلوا دیتے؟بولا :نوکری سے نکلوانا میرا کام نہیں تھا۔دفتر کو لاہور رپورٹ بھیج دیتا۔میں نے قہقہہ لگا کر کہا: یار بڑے ظالم ہو۔ مسکرا کر بولا: یہ تو تم برسوں سے جانتے ہو میں کیسا ہوں۔
ہم دوستوں کو علم تھا کہ یاری دوستی اور دشمنی میں ارشد ایک قدیم قبائلی تھا۔ یا آپ اس کے دوست ہیں یا دشمن‘ درمیانی راستہ کوئی نہیں۔آپ ارشد سے کوئی بھی فائدہ اٹھا سکتے تھے۔آپ کو پیسوں کی ضرورت ہے‘ آپ کو نوکری کی ضرورت ہے‘ آپ بیروزگار ہیں تو چینلز کو آپ کی سفارش کرنی ہے ( جو اس کے خیال میں میرٹ پر بنتی ہے) وہ آپ کے لیے سب کچھ کر گزرے گا۔ دشمنی میں بھی وہ نتائج کا خیال نہیں کرے گا۔ایک دفعہ ہم اپنے دوست سلمان کے گھر بیٹھے گپیں مار رہے تھیں‘وہ اپنے ساتھ کسی ٹی وی کا ایک نیا اینکر لے آیا تھا۔اس اینکر نے ایک غیر اخلاقی حرکت کی جسے میں نے نوٹ کیا۔ اس کے ساتھ اپنا کیمرہ تھا جس سے چپکے سے اس نے ویڈیو بنانا شروع کر دی۔ میں وہاں کچھ دیر سے پہنچا تھا۔ میں نے نوٹ کیا تو اسے منع کیا کہ دوستوں کی محفلوں کی تصویریں یا ویڈیو نہیں بناتے۔ اس نے نظر انداز کیا۔ اس نے وہ کام جاری رکھا۔ارشد اور دیگر دوستوں نے زیادہ توجہ نہ دی۔ میں نے پھر اس کو سختی سے منع کیا تو سب کو احساس ہوا کہ معاملہ سیریس ہے۔اس پر وہ ٹی وی اینکر دب گیا۔بات وہیں ختم ہوگئی۔ بدمزگی ہوئی تو میں کچھ دیر بعد اٹھ کر گھر چلا گیا۔ ابھی گھر پہنچا ہی تھا کہ اس محفل میں موجود ایک اور دوست کا فون آیا اور مجھے کہا :کہاں ہو؟ میں نے کہا: گھر۔ اس نے کہا: فوراً سلمان کے گھر پہنچو۔ ارشد گھرچلا گیا تھا لیکن وہ دوبارہ نکل پڑا ہے ‘وہ اس اینکر کو مارے گا جو وہاں بیٹھا فلم بنا رہا تھا۔ہم دوستوں کو ارشد کے غصے کا علم تھا کہ وہ اوپر سے جتنا پرسکون نظر آتا اندر سے وہ ایک سونامی تھا۔ارشد شریف جب غصے میں آجاتا تو پھر کسی سے نہیں سنبھالا جاتا تھا۔ اگر پھر بھی کسی دوست کی اس حالت میں وہ سن لیتا تھا تو وہ میں تھا۔ میرا وہ بہت احترام کرتا تھا‘ لہٰذا کچھ دیر برا بھلا کہنے کے بعد ٹھنڈا ہوجاتا تھا۔ غصے کی حالت میں وہ ایک طوفان تھا۔ اس کے نزدیک جانا اپنی جان جوکھوں میں ڈالنا تھا ‘لہٰذا ارشد اگر غصے میں ہے تو پھر بہتر ہے کہ آپ لوگ اٹھ کر چلے جائیں یا چپ رہیں اور اس سونامی کے تھمنے کا انتظار کریں۔
جب دوست نے بتایا کہ ارشد گھر سے دوبارہ نکل پڑا ہے اس اینکر کو ڈھونڈنے جو ہم دوستوں کی فلم بنا رہا تھا تو مجھے اندازہ تھا کہ اب کیا ہوگا۔میری حالانکہ اس اینکر سے اس رات پہلی ملاقات تھی لیکن مجھے علم تھا کہ ارشد اس کے ساتھ کیا کرے گا۔ میں فوراً گھر سے نکلا‘ گاڑی دوڑائی اور سلمان کے گھر گیا۔اس اینکر کو وہاں سے نکالا‘ اپنی گاڑی میں ڈالا‘ وہ پوچھتا رہ گیا کیا ہو رہا ہے۔ میں نے کہا‘ دو منٹ چپ رہو۔جب میں گلی سے مڑ رہا تھا تو مجھے سلمان کے گھر کے پیچھے ارشد کی گاڑی رکتی ہوئی نظر آئی اور ارشد تیزی سے اتر کر اندر جا رہا تھا۔میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ ایک آدھ منٹ لیٹ ہوجاتا تو کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ مجھے اندازہ تھاکہ ارشد کے اندر کا سونامی اس وقت عروج پر تھا۔ میں نے اینکر کو گیسٹ ہاؤس ڈراپ کیا اور کہا :وہ فون بند کر لے‘کسی کا فون نہ لے۔مجھے تسلی ہوئی چلیں کچھ بچت ہوگئی۔اس بیوقوف کو ارشد بارے بالکل اندازہ نہ تھا۔ اس نے ارشد کو ہمیشہ حسبِ عادت مسکراتے دیکھا تھا۔ اس نے اُس کا وہ روپ نہیں دیکھا ہوا تھا جس سے ہم سب ذاتی دوست واقف تھے۔
اتنی دیر میں مجھے ارشد شریف کا فون آگیا۔ وہ غصے سے بھرا ہوا تھا۔ مجھے کہا :کدھر ہے وہ۔ یہ میری غلطی تھی کہ اسے دوستوں کی محفل میں لایا تھا اور تم سب کو خطرے سے دوچار کیا۔ تم اسے کہاں لے گئے ہو؟میں نے اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے مجھ پر بھی شاؤٹ کیا۔ مجھے سخت برا بھلا کہا۔میں چپ چاپ سنتا رہا کہ مجھے علم تھا یہ طوفان دھیرے دھیرے ٹھنڈا ہوگا۔وہ فون پر بولتا رہا اور میں سنتا رہا کہ یہ وقت اس سے بحث کا نہیں تھا۔ میں ارشد کے غصے کو فون سے محسوس کرسکتا تھا۔ اسے یہ احساسِ جرم ہو رہا تھا کہ وہ ایک ایسے بندے کو دوستوں کی محفل میں لایا جو اس قابل نہیں تھا‘ جسے آدابِ محفل نہیں تھے اور اب یہ اس کی ذمہ داری تھی کہ جو اس سے غلطی ہوئی اس کا کفارہ اس اینکرکی ٹھکائی کر کے کرے۔مجھے کہنے لگا: اس کی قسمت اچھی تھی‘ تم نے اسے بچا لیا ۔ میں نے کہا: ارشد ڈارلنگ میں نے اس کو نہیں بچایا‘ میں نے تمہیں بچایا ہے۔ میں گھر سے اسے بچانے نہیں دوڑا تھا‘ تمہیں بچانے کے لیے نکلا تھا۔ مجھے علم ہے غصے میں تم کچھ بھی کرسکتے ہو۔ دوسرے کو بھی برباد کرسکتے ہو اور خود کو بھی۔ارشد نے گہرا سانس لیا اور ہنس کر کہا: تجھ سے تو میں نمٹ لوں گا۔
برسوں بعد پھر وہی ہوا جب مجھے اسلام آباد میں ایک شام اطلاع ملی کہ ارشد شریف نے گوادر میں ایک صحافی کو مارا ہے۔ مجھے محسوس ہوا کہ اس کی قسمت اچھی نہ تھی کہ میں ارشد کے ساتھ نہیں تھا ورنہ یہ سب نہ ہوتا۔اُس رات ارشد گوادر سے لوٹا تو دوست اکٹھے ہوئے تو وہ سیدھا مجھ پر چڑھ دوڑا۔غصے میں مجھ پر شاؤٹ کیا اور بولا: اے عظیم دانشور صاحب اب اپنی دانشوری جھاڑیں۔
میں چپ چاپ اسے سنتا رہا۔
وہ مجھے برا بھلا کہتا رہا۔اسے علم تھا میں نے اسے کیا بھاشن دینا تھا۔ارشد شریف کا غصہ عروج پر تھا۔( جاری)